مسرت اللہ جان
نشہ صرف طاقت ‘ پیسے ‘ شراب ‘ زر ‘ زمین یا عورت کا نشہ نہیں ہوتا.کرسی کا نشہ بھی بہت گندا نشہ ہوتا ہے لوگ اس نشے کی وجہ سے جھوٹ بھی بولتے ہیں اس کی خاطر دوسروں کا حق بھی مارتے ہیں لیکن انہیں یہ نشہ کسی بھی چیز کا نہیں چھوڑتا ‘ ویسے بھی حدیث پاک ہے کہ ہر وہ چیز حرام ہے جو انسان کو بے خود کرے ‘ اور کرسی و طاقت کا نشہ بھی انسان کو بے خود کرتا ہے ‘ اپنے ارد گرد دیکھ لیں. آپ کو اس طرح کے لوگ ہر شعبے میں ملیں گے.
سرکار کی ملازمت کرنے والوں سے لیکر سرکاری بابو ‘ حتی کہ صحافی بھی اس نشے کا شکار ہوتے ہیں. یہ الگ بات کہ کوئی اپنے آپ کو بے خود نہیں سمجھتا ‘ ہر کوئی اپنے آپ کو ہوش میں سمجھتا ہے . اور اس مدہوشی میں وہ ایسے کام کرجاتا ہے جو ان کیلئے بعد میں بڑے مسائل پید ا کرتا ہے.
تبدیلی کے نام پر مسلط کی جانیوالے حکمرانوں میں زیادہ تر مختلف اقسام کے نشوں میں مبتلا ہیں ‘ لیکن انہیں کرسی کا نشہ اس حکومت میں ملا اسی لئے بیشتر تبدیلی والے اپنی اوقات بھول گئے ہیں.ایک ہزار روپے میں سارا دن گدھے کی طرح کام کرنے والے مزدوروں کی حالت اتنی پتلی ہوگئی ہے کہ اب ہفتے میں تین دن کام ملتا ہے اور چار دن مزدور گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں.
پندرہ سو روپے آٹے کی بوری اور تین سو تیس روپے فی کلو گھی سمیت ایک سو دس رپے کلو چینی نے ” تبدیلی والی” سرکار کے جلسوں میں ڈانس کرنے والے بیشتر افراد کی حالت اتنی پتلی کردی ہے کہ اب موجودہ حکومت کے حامیوں میں ڈھیٹ قسم کے لوگ بھی شرمندہ شرمندہ گلیوں میں پھر رہے ہیں.
یہ بھی پڑھیں
- کھیلوں سے وابستہ افراد کے ڈریس کوڈ اور لنڈے کے نیکرز
- عوام اور قیادت کا امتحان اور قبائلی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات!
- خیبرپختونخواہ ہاکی ، کھلاڑیوں کیلئے اعلان کردہ انعامی رقم نہ ملنے کا گلہ
- پاکستان میں سرما اور احتجاج کا موسم ایک ساتھ،اور ریاستی رٹ
ہاں شرمندگی وہ لوگ محسوس نہیں کررہے جو خود انواع و اقسام کی درجن بھر خوراک دسترخوانوں پر رکھ کر ٹھونستے ہیں اور ان کی شراب کی بوتلوں سے شہد نکلتا ہے وہ عوام کو چینی کے دانے گن کر استعمال کرنے کی تلقین تو کرتے ہیں لیکن خود اس پر عملدرآمد نہیں کرتے.
موجودہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں سوشل میڈیا پر مخصوص لوگ پاکستان کے بے وقوف عوام کو یہی بتاتے تھے کہ ان کی حکومت سے پہلے والے حکمران چور تھے اور اب انکی وجہ سے لوگوں میں شعور آگیا ہے ‘ یہ شعور سیاسی بھی ہے اور اب نوجوان ملکی حالت پر بات بھی کرتے ہیں .لیکن ان نوجوانوں کو نہیں پتہ کہ ان سے یہ زور کیسے نکلے گا یہ تو آنیوالا وقت بتائے گا .
لیکن یہ بھی موجودہ حکومت کا کارنامہ ہے جس کا ایک ممبر صوبائی اسمبلی سوشل میڈیا پر بیان دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ ” مہنگائی اللہ کی طرف سے ہے اور ہر روز ایک فرشتہ آکر ریٹ مقرر کرتا ہے "یہ وہ لوگ ہیں جو عوام نمائندے ہونے کے دعوے کرتے ہیں لیکن ان نمائندوں کو ملک کی کم و بیش ساڑھے بائیس کروڑ عوام کی حالت کا اندازہ ہی نہیں.
اندازہ تو سٹیٹ بنک آف پاکستان پر مسلط ہونیوالے آئی ایم ایف کے ایک نمائندے کو بھی نہیں جنہوں نے حال ہی میں فرمایا کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے بیرون ملک مقیم شہریوں کو بہت فائدہ ہوا ہے موصوف نے ڈالر کے بڑھنے کو خوش آئند قرار دیا ہے.ان کے اس بیان سے قبل راقم کا خیال تھا کہ ” نمونے” صرف سرکاری اداروں میں تعینات ہیں لیکن موصوف کے اس بیان سے دل خوش ہوا کہ کیسے کیسے "نمونے” آئی ایم ایف کے پے رول پر ہیں
ہم تو آئی ایم ایف کو بڑی چیز سمجھتے تھے لیکن وہاں پر بھی ماشاء اللہ ہر طرح کے نمونے پائے جاتے ہیں. ایسے میں وہ غالب کا شعر ذہن میں آتا ہے کہ
دل خوش ہوا خانہ خدا کو خالی دیکھ کر..
بات کہیں اور نکل گئی .راقم ہلکی پھلکی باتیں لکھنے کے موڈ میں تھا لیکن خیر…اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں بات کرسی کے نشے سے شروع کی تھی اب اسی نشے کو کھیلوں کے میدان میں دیکھ کر لگتا ہے کہ اس بھوکی ننگی قوم کا جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں ‘
ایک روز قبل پاک بھارت ٹی ٹونٹی میچ کے بعد پشاور سمیت صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں ہونیوالی ناروا ہوائی فائرنگ نے جہاں بہت سارے افراد بشمول کم عمر بچوں کو زخمی کردیا ہے وہیں پر بعض جگہوں پر اموات بھی رجسٹرڈ ہوئی ہیں .
پتہ نہیں یہ کیسا نشہ ہے جو صرف کرکٹ کے میدان میں جیتنے کے بعد ہم لوگ محسوس کرتے ہیں ‘ اور جذبات میں آکر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہی ملک ہے جس میں مہنگائی نے غریب عوام کا بیڑہ غرق کردیا ہے لیکن پھر بھی بقول ہمارے ایک وکیل دوست کے "ایسے خوشاٹاری ” بھی دیکھنے کو ملے ہیں جن کے گھر میں دو وقت کا کھانا بھی نہیں پکتا لیکن فائرنگ وہ ایسے کررہے تھے جیسے پاکستان سپر پاور بن گیا ہو.
بھارت سے مقابلہ اچھی بات ہے لیکن کیا یہ مقابلہ ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں نہیں کرسکتے ‘ سافٹ وئیر انڈسٹری کے شعبے میں ہم نہیں کرسکتے ‘ سینکڑوں شعبے ایسے ہیں صحافت سے لیکر فلم انڈسٹری تک بھارت ہم سے ہر شعبے میں آگے ہیں اور تو اور سال 2016 میں راقم نے چنائی میں دوران تعلیم لڑکوں میں ہیئربینڈ کا استعمال دیکھا تھا اور آج پانچ سال بعد یعنی سال 2021میں ہمارے نوجوان بھی اسی ہیربینڈ کو سر میں لگا کر اپنے آپ پر فخر محسوس کرتے ہیں
یعنی ہم پاکستانی بھارت کی کاپی کرنے میں بھی پانچ سال پیچھے ہیں لیکن ہمارے جذباتی پن اور ہر قسم کے شرم سے عاری طرز زندگی نے ہم پاکستانیوں کو صرف کرکٹ کے میدان میں بھارت کا مقابلہ پر لگایا ہوا ہے . حالانکہ ہم ہر طرح سے ان سے بہتر ہیں مگر جن چیزوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اس بارے میں مکمل خاموشی ہیں.