آزادی نیوز
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رکن شوریٰ اور مولوی فضل اللہ کے دست راست مفتی خالد کو افغانستان کے صوبہ کنڑ میں دوران سفر نامعلوم افراد نے قتل کردیا
تاحال افغان حکومت یا ٹی ٹی پی کی جانب سے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے ،مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مفتی خالد کو 2008 میں ایک انتخابی ریلی پر خودکش حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی سمجھا جاتا ہے جس میں 36 افراد جاں بحق ہوگئے تھے
جبکہ وہ 2016 میں باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے حملے میں مبینہ طور پر ملوث بتائے جاتے ہیں جبکہ ان پر سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں پر حملوں کے بھی متعدد الزامات تھے
مفتی خالد کا تعلق بونیر ضلع سوات سے تھا اور وہ کالعدم تحریک طالبان کی شوریٰ کے اہم رکن اور مولوی فضل اللہ کے قریبی ساتھی تھے ،گذشتہ سال بھی ان کے مارے جانے کی خبریں عام ہوئی تھیں جن کی بعدازاں تنظیم کی جانب سے تردید کردی گئی تھی
یہ بھی پڑھیں
- افغانستان سے مجوزہ امریکی انخلا پر بھارت پریشان
- امریکی انخلاء اور افغان طالبان کیلئے فیصلے کی گھڑی
- مسلم دشمنی کی بنیاد پر استوار ہونیوالا بھارت اسرائیل معاشقہ
- اسامہ بن لادن کی موت کے 10 سال اور اس سے جڑے 10 سوال
- واضح رہے کہ سرحد پار افغانستان کی حدود میں پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث افراد کے مارے جانے کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں ،جن میں حال ہی میں قندھار میں بی آر ایس کے ایک اعلیٰ کمانڈر میر عبدالنبی بنگلزئی بھی شامل ہیں
جنہیں قندھار میں نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔ زرائع ابلاغ کے مطابق وہ بلوچستان میں بدامنی اور سیکورٹی اہلکاروں پر حملوں میں ملوث تھے اور افغانستان میں کافی عرصہ سے روپوش تھے27 مئی کو افغانستان کے صوبے قندھار میں بی ایل اے کے اہم کمانڈر میر عبدالنبی بنگلزئی کو بھی نامعلوم افراد نے گولیوں کا نشانہ بنایا۔حالیہ سالوں کے دوران پاکستان سے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ حاصل کرنے والے بہت سے شدت پسند کمانڈر مارے جاچکے ہیں اس بات کی تصدیق بی ایل اے کی جانب سے بھی کی گئی اور عبدالنبی بنگلزئی عرف چنکا میر کی موت کو تنظیم کیلئے بڑا نقصان قرار دیا ۔
بنگلزئی 2002 میں بی ایل اے میں شامل ہوئے اور اگلے چند سالوں کے دوران تنظیم میں اہم ذمہ داریوں تک پہنچ گئے ۔تاہم سیکورٹی اداروں کی کاروائی کے خطرے کے پیش نظر وہ کچھ عرصہ سے افغانستان کے صوبہ قندھار میں روپوش تھے جنہیں 27 مئی کو نامعلوم افراد نے گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا
تاہم حالیہ واقعہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جہاں گذشتہ چند سالوں سے سابقہ فاٹا کے علاقوں سے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ حاصل کرنے یا دیگر شدت پسند تنظیموں میں شامل ہونے والے اہم کمانڈر مارے جا چکے ہیں ،جن میں ملا فضل اللہ ،منگل باغ آفریدی ،عبداللہ اورکزئی اور شاہد اللہ شاہد نمایاں ہیں
تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان سے فرار ہونے والے تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر اور اراکین مختلف مقامات پر منشتر ہونے کے باعث کمزور ہوچکے ہیں اور اسی لئے باآسانی نشانہ بھی بن رہے ہیں
البتہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ تاثر بھی پھیلایا جا رہا ہے کہ مارے جانے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو طالبان کے علاوہ دیگر شدت پسند تنظیموں کا حصہ بنے ۔جبکہ افغان طالبان کیساتھ شامل ہونے والے طالبان مکمل طور پر محفوظ ہیں