جبران شینواری
لنڈی کوتل


افغان دارلحکومت کابل پر طالبان کو قبضہ کئے تین روز ہوگئے ہیں ،میڈیا کو دیکھیں تو حالات بدستور خراب نظر آرہے ہیں لیکن شہر میں عمومی طور پر حالات معمول پر آرہے ہیں اورکاروبار زندگی بحال ہورہا ہے

طالبان کے داخلے کے وقت کابل میں موجود ایک شہری مہران آفریدی کے بقول  ان کی آمد سے قبل شہر میں بے یقینی اور افراتفری تھی ،عام شہری طرح طرح کے وسوسوں میں گھرے ہوئے تھے ،اگرچہ دوسرے صوبوں پر قبضے کے دوران طالبان کا طرز بہت سے لوگوں کے خدشات کو جھٹلا رہا تھا

شہری میڈیا ذرائع کے علاوہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے اور قیاس لگا رہے تھے ،اگلا لمحہ کیا رنگ دکھائے ؟

ایک دوسرے اور اپنے دل کو تسلی دینے کے باجود ہر ایک ذہن میں یہ کھٹکا موجود تھا کہ اگر خدانخواستہ ارگ میں ہونے والے مذاکرات کامیاب نہ ہوئے یا معاملات بگڑ گئے تو پھر کیا ہوگا ؟ ماضی کی تلخ یادیں ایک بار پھر ذہن میں آرہی تھیں

لیکن جس سرعت اور منظم انداز میں طالبان کابل شہر میں داخل ہوئے وہ حیران کن تھا مہران آفریدی نے بتایا کہ وہ، ان کے ساتھی اور کاروباری لوگ خوف میں مبتلا تھے کہ اب ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائیگا تاہم (آرگ)ایوان صدر سمیت دیگر اہم وزارتوں، چوراہوں اور چیک پوسٹوں پر آنکھ جھپکتے ہی طالبان نے قبضہ کرکے ہر خاص و عام کو حیران کردیا اور کسی طرف سے کوئی مزاحمت سامنے نہیں آئی


یہ بھی پڑھیں


لیکن چند گھنٹوں بعد دکھائی دینے والے مناظر نے سب کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا کیوں کہ طالبان نہایت پرسکون انداز میں شہر میں داخل ہوئے اور انہوں نے اہم شاہراہوں اور عمارات کا کنٹرول سنبھالنا شروع کردیا

پورے کابل پر سرعت کے ساتھ طالبان کا قبضہ کوئی معجزہ لگ رہا تھا،عام لوگوں کیلئے یہ کوئی بدلے ہوئے طالبان تھے ،جو ماضی کا نقشہ ہمارے ذہن میں بیٹھا ہوا تھا اس سے کہیں مختلف اور جدا

اگلی صبح شہر میں خاموشی اور سکوت تھا ،گھروں سے بہت کم لوگ باہر نکل رہے تھے ،لیکن طالبان کے طرزعمل اور طریقہ کار سے آہستہ آہستہ  لوگوں کے دلوں سے خوف نکلنے لگا اور وہ معمول کی زندگی کی جانب لوٹنے لگے

پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان سے ملحقہ افغان صوبہ پکتیکا کی ایک مارکیٹ جہاں شہری روزمرہ خریدوفروخت میں مصروف ہیں

مہران آفریدی سرحد کے آرپار تجارت کرتے ہیں اور وہ گذشتہ روز لنڈی کوتل پہنچے ،جہاں انہوں نے اپنے حالیہ سفر کے بارے میں تاثرات بیان کئے

انہوں نے بتایا کہ کابل شہر کے علاقے سرائے شہزادہ سے ان کے چند دیگر کاروباری دوستوں نے گذشتہ روز سفر کیا ،راستے اب مکمل طور پر محفوظ ہوچکے ہیں ،کابل سے لنڈی کوتل تک سفر کے دوران راستے میں جو بھی لوگ نظر آئے یا جن سے ملاقاتیں ہوئیں وہ اب تک کے حالات سے مطمئن نظر آئے

تاہم عام آدمی کی خواہش یہی ہے کہ طالبان قیادت یا دیگر رہنما ملک کیلئے جو بھی فیصلہ کریں وہ ان کے ملک اور قوم کی ترقی کیلئے پائیدار خوشحالی کا سفر ثابت ہو

اب کیا صورتحال ہے ؟

مہران آفریدی کے بقول طالبان نے شہر میں پھیل کر سوشل میڈیا اور ٹی وی پر عام معافی کے اعلانات کئے اور ہر شعبہ زندگی کے افراد کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اپنا کام اور سرکاری ڈیوٹی بلا خوف جاری رکھیں جس کے بعد لوگ اپنے گھروں سے نکلنا شروع ہوگئے

عام کاروباردوبارہ بحال ہونا شروع ہوگئے،بڑی مارکیٹوں کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی اور راستوں میں قائم رکاوٹیں اور بیرئیر ہٹا دئے گئے اور جہاں پہلے دن کے وقت خوف ہوتا تھا وہاں بھی لوگ بلا خوف و خطر گھومتے رہے

ان کے مطابق طالبان نے مختلف گروپس تشکیل دئے تھے جو ہر کسی سے پوچھتے کہ کسی نے ان کو کوئی اذیت تو نہیں پہنچائی ہے یا کسی نے لوٹ مار تو نہیں کی ہے اور ہر کمانڈر لوگوں کو فون نمبرز دیتے رہے کہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہو تو ان سے فوری رابطہ کیا جائے

کابل پر قبضے کے فوری بعد لوگوں کے دلوں سے خوف کے بادل چھٹ گئے اور لوگوں نے طالبان کے ساتھ سیلفیاں لی اور گپ شپ لگاتے رہے جبکہ کابل سے طورخم تک ٹیکسی کرایہ فی کس بھی معقول تھا اور کہیں راستے میں کسی کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں کافی بڑی تعداد میں لوگ ائیر پورٹ پہنچے اور باہر بھاگنے کی کوشش کی اس دوران ائیر پورٹ پر بھگدڑ بھی مچی تاہم بہت جلد زیادہ تر لوگ واپس اپنے گھروں کی طرف لوٹ آئے جب انہوں نے دیکھا کو صورتحال کنٹرول میں اور پرسکون ہے اور طالبان کسی کو کچھ نہیں کہہ رہے،تاہم ابھی بھی اطلاعات ہیں کہ کافی لوگ ایئرپورٹ اور اس کے اردگرد موجود ہیں

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ جس معقولیت اور سنجیدگی کا طالبان نے مظاہرہ کیا اس سے لگتا ہے کہ اب افغان عوام پرامن اور پرسکون زندگی گزار سکیں گے اور اگر افغان عوام نے ملک کی تعمیر نو میں حصہ لیا تو افغانستان مستحکم ہو سکتا ہے۔