صفدرحسین


افغان منظر نامے پر طالبان کی دوبارہ ڈرامائی آمد کے بعد حیرت انگیز طور پر کئی ہفتوں بعد بھی غیرجانبداری کا اظہار کرنے والا ایران طالبان کے ہاتھوں پنجشیر کی تسخیر کےبعد یکدم اپنا موقف تبدیل کرتا ہوا نظر آرہا ہے ۔
پیر کے روز ایران کے ترجمان دفتر خارجہ سعید خطیب زادہ کا بیان اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ طالبان نے اپنی دوبارہ آمد ایران سے ملحقہ سرحدی علاقوں سے کی ،جہاں اس کی نظریاتی وابستگی بڑی حد تک موجود تھی ۔جس کے بعد یکے بعد دیگر افغان صوبے طالبان کی عملداری میں داخل ہونا شروع ہوگئے

6 اگست سے شروع ہونے والی پیش رفت محض 10 روز بعد یعنی 15 اگست کو کابل کے سرنڈر پر منتج ہوئی ۔البتہ ایران بظاہرافغانستان میں ہونے والی پیش رفت سے عملاً کنارہ کش نظر آتا رہا ۔تاوقتیکہ گذشتہ تین ہفتوں سے جاری مزاحمت کے آخری مرکز یعنی پنجشیر کا قصہ بھی اپنے انجام کو پہنچا اور طالبان نے پورے ملک پر پر اپنی گرفت قائم کرلی

ایرانی دفتر خارجہ کا بیان اس وقت سامنے آیا جب طالبان پنجشیر کو فتح کرچکے تھے اور اس لڑائی میں مزاحمتی محاذ کے بہت سے اہم کمانڈرمارے گئے ،جبکہ مزاحمت کی قیادت کرنے والے احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور سابق نائب صدر امراللہ صالح منظر عام سے غائب ہوگئے جن کے ملک سے فرار ہونے کی متضاد اطلاعات ہیں

پیر کے روز ایرانی دفتر خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے پنجشیر پر طالبان کے قبضے کی شدید مذمت کی اور لڑائی میں مارے جانے والے مزاحمتی کمانڈروں کو شہید قرار دیا

افغان دارلحکومت کابل میں پیر کے روز ہونے والے پاکستان مخالف مظاہروں میں خواتین کی بڑی تعداد شریک تھی ۔تصویر سوشل میڈیا

لیکن ایرانی دفتر خارجہ کے بیان میں پنجشیر کی فتح میں کسی بیرونی مداخلت کی بات کرنا کافی معنی خیز تھا ،کیوں کہ اس سے طالبان ترجمان کے دعوے کے فورا بعد ہی افغان اور ایرانی سوشل میڈیا پر پنجشیر کے محاذ پر پاکستان کے ملوث ہونے کی افواہیں نہایت تیزی سے گردش کرنے لگیں ،حالانکہ متعددبین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے تکنیکی بنیادوں پر ان افواہوں کو بھی بے بنیاد قرار دیا


یہ بھی پڑھیں


جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی سوشل میڈیا اور حتٰی کہ مین سٹریم میڈیا نے بھی پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں تمام حدودقیود پار کردیں اور بغیر تصدیق و تحقیق ایسی خبریں اور تصاویر شائع کرنا شروع کردیں جن چند لمحوں میں ہی جعلی اور پرانی ثابت ہو کر پروپیگنڈہ فیکٹریوں کیلئے سبکی کا باعث بنیں

پیر کی شب ایران کے دارلحکومت تہران اور منگل کے روز افغان دارلحکومت کابل سمیت کئی شہروں میں پاکستان مخالف مظاہرے ہوئے جس میں خواتین کی بڑی تعداد موجودتھی ۔مظاہرین پاکستان کے خلاف شدید نعرے بازی کررہے تھے اور اسے افغان معاملات میں مداخلت کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے

تہران میں پاکستان مخالف مظاہروں کی ایران کے سرکاری اخبار میں شائع ہونے والی خبر

پاکستان مخالف مظاہروں اور الزامات کے حوالے سے ہم نے صحافی وتجزیہ نگار منور راجپوت سے بات کی تو ان کا کہنا تھا اس طالبان حکومت سازی کے عمل کی طرف جارہے ہیں ،اور افغانستان یا خطے میں ایران کے مسلکی ،جغرافیائی یا معاشی مفادات کسی سے ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہیں

تو میں سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر جبکہ طالبان افغانستان میں حکومت قائم کرنے کا اعلان کرنے جارہے ہیں تو ہر ملک اپنے زیادہ سے زیادہ مفادات کا تحفظ چاہتا ہے ،ایران پاکستان کے حوالے سے یا دیگر کسی حوالے سے افغانستان پر دبائوتو بڑھا سکتا ہے لیکن اس سے آگے کچھ کرنا اس کے شاید ممکن نہ ہو

کیوں کہ ایران فی الوقت اپنے بہت سے اندرونی مسائل کا شکار ہے ،سیاسی عدم استحکام اپنی جگہ لیکن معاشی حالات بھی انتہائی دگرگوں ہیں ،اس لئے ان حالات میں زبانی کلامی حد سے آگے نکل کر ایران کےلئے عملی طور پر کچھ کرنا شاید ممکن نہ ہو


یہ بھی پڑھیں


خطے میں ایرانی مفادات ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ،البتہ بھارتی مداخلت و اثررسوخ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ،صحافی منور راجپوت

البتہ افغان منظر نامے میں ہم بھارت کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرسکتے کیوں ایران کے کئی منصوبوں میں بھارت نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررکھی ہے تو اگرایران کی جانب سے اس وقت کوئی ایسی بات آئی ہے یا ان کے رویہ میں تبدیلی محسوس کی جارہی ہے تو ممکن ہے اس کے پیچھے بھارتی رسوخ کارفرما ہوسکتا ہے جسے فی الوقت افغانستان میں بڑی ہزیمت کاسامنا کرنا پڑا ہے

صحافی منور راجپوت فائل فوٹو

منورراجپوت کے مطابق پاکستان کا افغانستان کے حوالے سے موقف بالکل واضح ہے جو وہاں ہر صورت امن چاہتا ہے تاکہ چین کے ساتھ مل کر پرامن افغانستان کے راستے وسط ایشیاء تک رسائی حاصل کرلے اور اس حوالے سے پاکستان ،چین اور خود طالبان قیادت بھی اس کی خواہاں نظرآتی ہے

جہاں تک پنجشیر کی قیادت کا سوال ہے تو 15 اگست کو پاکستان نے شمالی اتحادکی تمام قیادت کی اسلام آباد میں میزبانی کی تھی ،ان میں استاد محقق اور کریم خلیلی جیسے ایسے اہم رہنما بھی شامل تھے جنہیں ایران کے بہت قریب تصور کیا جاتا ہے ،اس کے ساتھ ترکی بھی اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آرہا ہے جو اپنے ہم خیال افغان قیادت کےساتھ ساتھ طالبان کیساتھ بھی خوشگوار تعلقات کا متمنی ہے اس لئے اس کے زیراثر ازبک ،تاجک بھی خاموش ہیں ۔

افغانستان میں حالیہ مظاہروں کے حوالے سے منور راجپوت کا کہنا تھا ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ 20 سال کے دوران امریکہ نے وہاں پوری ایک نسل تیار کی ہے جو آزاد خیال اور آزاد سوچ برقرار رکھنے کی خواہاں ہے ۔اس لئے جب ان پر کوئی قدغن لگنے کی بات ہوتی ہے لامحالہ اس کا ردعمل تو سامنے آئے گا ۔


یہ بھی پڑھیں

لیکن ایک بات جو دیکھنے میں آرہی ہے کہ ان میں زیادہ تر مظاہرین طالبان کے ساتھ ہر ممکن الجھائو پیدا کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں ،جس کی شاید ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے اور جیسا کہ افغانستان میں کام کرنے والے بعض صحافیوں کا بھی موقف ہے کہ وہ کسی بھی صورت طالبان کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بن کر مغربی ممالک کی طرف کوچ کا راستہ آسان کرنا چاہتے ہیں

حالیہ مظاہرے اس حقیقت کا اظہار ہیں کہ طالبان مخالف عناصر کا دائرہ کابل سے تہران تک پھیلا ہوا ہے ،تجزیہ نگار راحت ملک کی رائے

راحت ملک تجزیہ کار و کالم نگار

جبکہ کوئٹہ میں موجود تجزیہ نگار راحت ملک نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا گذشتہ ایک روز کے دوران تہران ،کابل یا افغانستان کے دیگر شہروں میں ایک ساتھ مظاہروں سے متعدد پہلوآشکار ہوتے ہیں ،سب سے پہلے تو یہ کہ یہ دونوں مظاہرے ان ممالک میں ہوئے جہاں مظاہرین کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی روایت موجود ہے

ایران کو اگر ایک طرف رکھ کر سوچیں ،تو افغانستان میں طالبان کی موجودگی میں یہ تمام مظاہرے ہوئے اور نعرے لگے ،لیکن طالبان نے ان کے اکسانے کے باجود انہیں کچھ نہیں کہا ،اس کا مطلب یہ کہ طالبان مظاہرین سے الجھنا نہیں چاہتے تھے یا وہ ایسا کرنے سے گریزاں تھے ۔

لیکن حالیہ مظاہروں سے یہ حقیقت بھی کھلتی ہے کہ طالبان مخالف یعنی غیرپشتون جن میں ازبک ،تاجک وغیرہ بھی شامل ہیں کا کابل سے تہران تک ایک وسیع حلقہ اثر اپنی جگہ پر موجود ہے جنہوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے ۔

جہاں تک پنجشیر کی ہزیمت کا سوال ہے تو اسےبالکل ختم ہونا قرار نہیں دیا جاسکتا ،بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے امریکی حملے کے بعد طالبان بکھر گئے تھے ،بعینہ پنجشیری مزاحمت بھی فی الوقت بکھری ہے ختم نہیں ہوئی،جو وقت کے ساتھ کسی وقت بھی متحد ہوسکتی ہے

اگرچہ ہماری کبھی خواہش نہیں اور نہ ہوگی کہ افغانستان میں قتل وغارت کا سلسلہ چلتا رہے ،لیکن بدقسمتی سے افغانستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ،اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوجاتے ہیں جو جنگ چاہتے ہیں اور جو جنگ نہیں بھی چاہتے ،پھر اس کے ساتھ بیرونی عناصر بھی اپنا حصہ ضرور ڈالتے ہیں ،لیکن ہماری دعا ہے کہ اب یہ سلسلہ بند ہوجائے


یہ بھی پڑھیں


جہاں تک ایرانی رویے کی تبدیلی کا سوال ہے تو اب تک عملی طور پر ایران طالبان سے صرف نظر کئے ہوئے نہیں تھا بلکہ انہیں واپس لانے کا سرگرم حصہ تھا ۔جس میں دیگر کئی ممالک کا بھی کردار ہے ۔اب جبکہ معاملات حکومت سازی تک پہنچ رہے ہیں ،

توایران کا اپنے نظریاتی حامیوں کو نظرانداز کئے جانے پر برہم ہونا قدرتی امرہے ۔لیکن میرے خیال میں تہران میں پاکستان مخالف مظاہروں کوحکومتی حمایت حاصل نہ ہو بلکہ ان میں طالبان مخالف ان عناصر کا ہاتھ ہوسکتا ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے ایران میں موجود ہیں

حالات کس رخ پر جائیں گے اس کا انحصار طالبان کی حکمت عملی اور رویے پر ہے

اور انہوں نے افغانستان اور ایران میں ایک ساتھ مظاہرے کرکے اپنی موجودگی کا پیغام دیا ہو۔لیکن اب ایرانی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ان مظاہرین کے خلاف کیا کاروائی کرتی ہے جس سے اسلام آباد کو مثبت یا منفی اشارہ ملے

اسی طرح جہاں تک مستقبل کے منظر نامے کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ ہمیں اگلے چند ماہ میں ہوجائے گا اور اس کا انحصار خود طالبان پر ہوگا کہ وہ کیا کرتے ہیں ،یعنی اگر ماضی کی طرح ایک بار پھر بیرونی مداخلت کو قبول کیا جاتا ہے تو لامحالہ حالات خرابی کی طرف جاسکتے ہیں ،لیکن اگر طالبان ان راستوں کوبند کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو ماضی میں خرابیوں کا سبب بنتے رہے تویقیناً یہ نہ صرف ان کی بلکہ پورے خطے کیلئے بہتر ہوگا ۔