فتح الملک

مہتر سابق ریاست چترال


چترال اور افغانستان تاریخی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہیں ،چترالی تاریخ اور ثقافت کو واخان ،بدخشاں اور نورستان کے اثرات سے ہٹ کر سمجھنا ممکن نہیں ۔چترال شمال مشرق میں افغانستان سے اتنا ہی جڑا ہوا ہے جتنا گلگت بلتستان کیساتھ یا شاید آخرلذکر سے اس کی قربت زیادہ ہے ۔

ہم آج کے اس تجزیہ سے میں قبل ازتاریخ چترال افغان تاریخ کا ذکر نہیں کریں گے ،بلکہ 1747 کی افغان درانی سلطنت اور چترال کی ریاست کے درمیان روابط و تعلقات کے اتار چڑھائو کا جائزہ لیں گے ،اور بالخصوص چترال کے برطانوی ہند انتداب کا حصہ بننے کے بعد کے واقعات کو دیکھیں گے جب ریاست کے امور خارجہ تاج برطانیہ کے ہاتھ آگئے

خاص طور پر ڈیورنڈ لائن جیسے موضوع پر بات کریں گے جو آج بھی کسی نہ کسی حوالے سے زیربحث رہتا ہے ۔لیکن اس سے جڑی کچھ حقیقتیں ایسی ہیں جنہیں افغانستان اور حیران کن طور پر پاکستان دانستہ یا غیردانستہ نظر انداز کررہا ہے ۔

کیوں کہ ڈیورنڈ معاہدے کے تحت چترال میں شامل کئے جانے والے دو علاقوں پر افغانستان کا قبضہ آج بھی برقرار ہے ،معاہدے کی رو سے افغانستان کے زیر قبضہ یہ علاقے آج بھی چترال کا حصہ ہیں لیکن اس معاملہ پر پہلے برطانوی ہندحکومت اور بعدازاں پاکستان حکومت نے کبھی کوئی بات نہیں کی

حالانکہ ڈیورنڈ معاہدے کی رو سے افغانستان کی عملداری میں موجود یہ علاقے چترال کا حصہ تھے ۔

تاریخی حقائق اور پس منظر

ریاست چترال کے مہتر امان الملک جنہوں نے اپنے لئے شاہ کا لقب پسند کیا اور جنہوں مغرب کے پشتون قبائل شاہ قشکار کہتے تھے ،نے افغانستان سے اپنی خودمختاری اور ریاست کو بچانے کےلئے جموں و کشمیر حکومت کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا ۔

لیکن جب ان کے دیرینہ حریف خان اسمار او ر میر بدخشاں بھی افغان حکومت کے سامنے سرنگوں ہوچکے تو مہترچترال کو برطانوی راج کیساتھ الحاق کا نظام بہتر متبادل نظر آیا ،جہاں نوابی ریاستوں کے حکمران اپنے اندرونی معاملات میں بڑی حد تک خودمختار تھے

واخان اور زنجنیانگ کے ملانے والے درہ واخجر

جبکہ یہ آپشن افغانستان کے ہاتھوں فتح ہوکر محکموم ہونے سے کہیں زیادہ بہترتھا ۔اس طرح 1885برطانوی راج کے کرنل لوکارٹ کی زیرقیادت سفارتی وفد کی آمد کیساتھ ہی پہلی بار براہ راست تعلقات استوار ہوگئے۔


یہ بھی پڑھیں 

  1. سکھ سرکار کا باغی سردار پائندہ خان تنولی جو بالآخر دھوکے اور زہر کا شکار ہوا
  2. اخوندسالاک کابلگرامی مغلیہ سلطنت کےخلاف قبائل کو متحد کرنیوالے صوفی بزرگ
  3. ہریپور کا ڈیڑھ سو سالہ قدیم فراہمی آب کا نظام جو آج بھی قابل عمل ہے
  4. 10 رمضان المبارک ،سندھ کے دروازے پر اسلام کی دستک

ان تعلقات اور معاملات کو صوبائی حکومتوں کے بجائے سیکرٹری خارجہ خود دیکھتا تھا ،جس طرح برطانوی راج پر انحصار کرنے والی دیگر ریاستوں مثلا مسقط ،قطر اور خود افغانستان کامعاملہ تھ۔

مہتر امان الملک کی وفات کے بعد چترال کے حالات دگرگوں ہوگئے ،جہاں مختصر عرصہ کے دور یکے بعد دیگرے ان کے چاروں بیٹے تخت نشین ہوئے ۔

یہ وہی زمانہ تھا جب ڈیورنڈ معاہدہ طے پایا ،البتہ برٹش حکومت نے چترال کی جغرافیائی حدود کا مکمل خیال رکھا اوربالائی وادی کنر اور کافرستان (موجودہ نورستان )کی بشگال وادی کو افغانستان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا

ڈیورنڈ معاہدے کی شق 3 میں کہا گیا

برطانوی حکومت اسمار اور اس سے بالائی علاقوں چناک تک نواب صاحب کی عملداری تسلیم کرتی ہے ،جس کے بدلے میں نواب صاحب سوات ،باجوڑ یا چترال بشمول ارنوال یا بشگال وادی کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرینگے

یہاں دو نکات بہت اہم ہیں

اول افغانستان نے بالائی کنڑوادی (ارنوائی )اور مشرقی نورستان (بشگال )کو چترال کا حصہ اور افغانستان سے باہر علاقہ تسلیم کیا

دوم آئندہ وہ ان علاقوں میں دراندازی نہیں کرینگے

چترال کا نقشہ

لیکن محض دو سال میں ہی افغان اپنے وعدے سے پھر گئے اور انہوں نے بشگال وادی سمیت بالائی کنڑ وادی میں موجود دو چترالی قلعوں نڑائی اور بیرکوٹ پر قبضہ کرلیا اور یہاں کے غیرمسلم قبائل کو دائرہ اسلام میں داخل کرلیا

یہ واقعات 1895 کے ہیں جب حالات مخدوش تھے اور چترال برطانوی دائرہ اثر سے نکلنے کے قریب تھا ۔جس کی وجہ سے برطانیہ نے ان معاملات سے مکمل صرف نظر کیا ۔چترال اس وقت ایک نوابی ریاست تھی جس کی وجہ سے خارجہ امور کو دیکھنا اس کے دائرہ کار سے باہر تھا
اس عرصہ کے دوران جب ڈوکالم کا گائوں افغانستان کے حوالے کیاگیا تو چترال کو کنڑ میں اپنے مزید علاقوں سے دستبردار ہونے پڑا

چترال کا سابق گائوں ڈوکلام جو برطانوی ہند حکومت نے افغانستان کےحوالے کردیا

اگرچہ وادی بشگال کے لوگ ابھی بھی مہترچترال کو اپنا سربراہ تسلیم کرتے تھے ۔تیسری اینگلو افغان جنگ کے دوران چترال نے مقامی قبائل کی مدد سے بالائی کنڑ اور بشگال پر اپنا کھویا ہوا اقتدار بحال کرلیا ،اور کنٹر میں واقع بیرکوٹ کا قلعہ دوبارہ قبضہ کرلیا مقامی لوگوں نے گواردیش اور کامدیش کے مقام پر چترالی فوج کا استقبال کرتے ہوئے مہتر چترال سے وفاداری کا اعلان کیا ۔

لیکن برطانیہ نے ان اقدامات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور پرانی حدود میں رہنے کا انتخاب کرتے ہوئے عملاً اپنے اس معاہدے سے پیچھے ہٹ گیا جس پر انہوں نے خود دستخط کئے تھے
لیکن ایسی کوئی بظاہر ایسی کوئی وجوہات دکھائی نہیں دی رہیں جن کی بنا پر برطانیہ سے آزادی کے نتیجے میں قائم ہونے والی ریاست پاکستان اس معاملے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے

مختلف افغان حکومتوں اور قیادت کی جانب سے بارہا ڈیورنڈ لائن کے معاملہ پر بیانات  کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے ،جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے مختلف علاقوں میں اپنا اثرنفوذ پیدا کرنا ہے ۔یہ بات قابل افسوس ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے کبھی بھی افغانستان کے قبضہ میں موجود ایک بڑے علاقوں جن میں صوبہ کنڑ اور صوبہ نورستان شامل ہیں کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی ۔

جو ڈیورنڈ معاہدے کے تحت چترال کا حصہ ہیں اور جن کی پاکستان میں واپس شمولیت کے نتیجے میں ان علاقوں میں بسنے والے باشندوں کو امن و خوشحالی کی زندگی گزارنے کا موقع مل سکتا ہے ،جن کے چترال کیساتھ دیرینہ ثقافتی ،تاریخی اور معاشی مفادات وابستہ ہیں ،لیکن عرصہ دراز سے یہ لوگ جنگ ،بدامنی اور خوف کا شکار ہیں ۔

چترال کی حدود ڈیورنڈ لائن سے مغرب سے جنوب تک محدود نہیں بلکہ شمال میں بالائی چترال کو بدخشاں سے جدا کرنے والا ہندوکش کے سلسلہ تک کئی سو کلومیٹر تک پھیلا ہوا جو شمال مغرب میں واخان تک جا پہنچتا ہے۔

یہ مغرب کی طرف نہ صرف ایک جغرافیائی حد ہے بلکہ ہند آریان اور وسط ایشیا کے مابین ایک ثقافتی رابطہ کا ذریعہ بھی ہے ۔

نورستان-کی-وادی-بشگال-کے-گھنیرے-جنگلات

چترال کا واخان پر کبھی دعویٰ نہیں کیا لیکن یہ چترال کے مشرق ترکستان اور کاشغر ،یارقند اور خوتان کی منڈیوں تک رسائی کی راہداری رہا ،

جس پر پشتون مہمند اور پشاوری ہندوئوں کے تجارتی قافلے 1930 تک چلتے رہے ،تاوقتیکہ افغانستان نے چترال سے آنے والے قافلوں پر پابندی لگا دی ،جس کے بعد یہ سلسلہ ہنزہ کی طرف سے شروع ہوگیا جس کی سرحد براہ راست چین کے ساتھ ملتی تھی

اس وقت چین درہ واخجر سے زنجیانگ کو افغانستان سے ملانے کیلئے سڑک تعمیر کررہا ہے ،ان حالات میں چین کی مدد سے پاکستان افغانستان کو آمادہ کرنے کی کوشش کرسکتا ہے کہ اسے بروغل اور واخجر کے درمیان راہداری فراہم کرے ،اس طرح یہ سی پیک کے مغربی متبادل روٹ کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے

چترال اور افغان عوام کا احترام کا رشتہ

چترال کے لوگوں کو افغان عوام نے ہمیشہ عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا ،حتی کے جب پاکستان اور افغانستان کے مابین حالات کشیدہ بھی ہوئے تو افغانستان میں چترالی لوگوں کا انتہائی خندہ پیشانی کیساتھ استقبال کیا گیا

چترال کے لوگوں کی کبھی بھی افغانوں کے بارے میں بدگمانی نہیں رہی ،لیکن انہیں چترالی لوگوں کے افغان سرزمین کے راستے تاریخی تجارتی حق کو تسلیم کرنا ہوگا ۔

اگر ایسا نہیں ہوتا تو چترال جو اس وقت پاکستان کا حصہ ہے اور یہاں کے لوگ اپنے ملک کے ساتھ مطمئن زندگی بسر کررہے ہیں کی جانب سے چترال کے تاریخی علاقوں پر اپنے حق کی بات کرنی چاہیے ،جو ڈیورنڈ معاہدے کے تحت چترال کا حصہ ہیں جن پر افغانستان کی حکمرانی ہے اور واخان کے راستے تجارتی روٹس کوبحال کیا جاسکتا ہے

 

مضمون نگار سابق ریاست چترال کے مہتر ہیں،جو خطے کی جدید و قدیم ثقافت ،تاریخ اور سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں