آزادی نیوز
حکومت پاکستان کی جانب سے سوشل میڈیا اور ویب سائیٹس کیلئے اشتہارات کی تقسیم کے حوالے سے نئی پالیسی کا کا اعلان کیا گیا ہے ،اگرچہ اس پالیسی پر گذشتہ کچھ عرصہ سے کام جاری تھا تاہم پہلی بار گذشتہ روز اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا
اگرچہ جہاں اس پالیسی کے بارے میں مثبت آرا پائی جاتی ہیں وہیں اس کے بارے میں کئی خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے۔کیوں یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس پالیسی کو حکومت کی جانب سے آزادی اظہار کو دبانے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے
گذشتہ ماہ منظور ہونے والے نئے قوانین کے تحت تمام سوشل میڈیا اداروں کو سیکورٹی اداروں کو اپنے ڈیٹا اور معلومات تک رسائی فراہم کرنے اور کسی اعتراض کی صورت میں مواد کو ہٹانے کی پابند ہوں گے
اور جو ادارے نئے قوانین پر عملدرآمد نہیں کریں گے ان پر پابندی عائد کی جاسکے گی
کیوں کہ حالیہ عرصہ کے دوران حزب اختلاف کی جماعتوں اور حکومت سے اختلاف رائے رکھنے والے حلقوں کی جانب سے ان قوانین کے ذریعے ان کی آواز کو بند کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے
حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنیوالی بہادر پاکستانی خاتون
رحیم اللہ یوسفزئی دنیائے صحافت کا معتبر و محترم نام
تاہم وزارت اطلاعات کے ایک ذمہ دار شعیب صدیقی کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ نئے قوانین سے غیرقانونی ،غیراخلاقی اور ملکی سلامتی و یکجہتی اور قومی سلامتی کے اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے مواد کی نشاندہی اور خاتمے میں مدد ملے گی ۔
جبکہ نئے قوانین کے مسودے میں بھی اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ اس قانون کی مدد سے دہشت گردی ،انتہاپسندی ،نفرت انگیز مواد ،ہتک عزت ،جعلی خبریں اور تشدد آمیز مواد کی روک تھام میں مدد ملے گی ،
اور کسی بھی ایسے مواد کی نشاندہی کی صورت میں متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے اور کم از کم 6 گھنٹے کے اندر معترضہ مواد کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹانا ہوگا ۔جبکہ سوشل میڈیا کمپنیز کو تین ماہ کے اندر پاکستان میں اپنی رجسٹرین کروانا ہوگی اور دفاتر کھولنا ہوں گے ۔
اس کے علاوہ کمپنیوں کو بوقت ضرورت اپنے صارفین سے متعلق معلومات اور ضروری ڈیٹا بھی فراہم کرنا ہوں گی
اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کمپنیز کو حکومت کی جانب سے جاری کردہ گائیڈ لائنز اور رولز ریگولیشن کی بھی پابندی کرنا ہوگی
ردعمل
ڈیجیٹل رائٹس فائونڈیشن کی سربراہ نگہت داد نئے قوانین کو آزادی اظہارپر ایک قدغن سمجھتی ہیں ،ان کے بقول اس طرح کے قوانین سے سرکاری اداروں کو لامحدود اختیارات حاصل ہوجائیں گے اور وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ شدت پسندی ،مذہبی انتہاپسندی اور ملک دشمنی کے حوالے سے کوئی واضح تعریف موجود نہ ہو۔
ایسی صورت میں کون سا مواد کس زمرے میں آتا ہے اس کا فیصلہ کرنا تھوڑا مشکل امر ہوگا
مجھے اندیشہ ہے کہ ایسے قوانین کو سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے
نئی پالیسی کیا ہے ؟
ڈیجیٹل میڈیا ونگ کے جنرل منیجر عمران نے میڈٰیا کو نئی پالیسی کے حوالے سے بتایا کہ اس نئی پالیسی سے وفاقی حکومت اور وزارت اطلاعات کے ذریعے مختلف آن لائن پلیٹ فارمز پر اشتہارات چلا سکے گی
انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں 9 کروڑ 30 لاکھ انٹرنیٹ صارفین جبکہ ساڑھے چار کروڑ سوشل میڈیا صارفین موجود ہیں ،جبکہ صارفین کے بدلتے ہوئے رجحانات کے پیش نظر ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے اشتہارات جاری کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جارہا ہے۔
طریقہ کار کیا ہوگا ؟
نئی میکنزم کے تحت ڈیجیٹل چینلز کو بھی اسی طرح اشتہارات جاری ہوں گے جس طرح اس سے قبل پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو جاری کئے جاتے تھے
تاہم اس پالیسی کی منظوری اور نفاذ کے بعد تمام نیوز ویب سائٹس اور انفرادی طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے انسٹا گرام اور یوٹیوب پر مواد تیار کرنے والے افراد کو وزارت اطلاعات کے پاس خود کو رجسٹر کروانا ہوگا
اگرچہ پالیسی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں ہےجس کی وجہ سے یہ واضح نہیں کہ اشتہارات کی اہلیت یا نااہلیت فیصلہ کن بنیادوں پر ہوگا اور اشتہارات کس کو جاری ہوں گے اور کسے نہیں ؟
ابتدائی طور پر حکومتی اشتہارات قومی ایام جیسے یوم آزادی ،23 مارچ کے موقع پر ہوں گے
اہلیت کا تعین کن بنیادوں پر ہوگا؟
عمران غزالی کے مطابق اشتہارات کی تقسیم انڈسٹری معیار کے تحت ہوگی ،جیسے ویب سائیٹس پر ٹریفک ،سبسکرائبرز،مجموعی مارکیٹ میں سی پی ایم ایس کو مدنظر رکھا جائے گا جبکہ صارفین کی تعداد کے تعین کیلئے شماریاتی سافٹ ویئرز جیسے گوگل اینالیٹکس کی مدد لی جاسکتی ہے
مستفید کون ہوسکے گا اور کیا فائدہ ملے گا ؟
عمران غزالی کے مطابق نئی پالیسی سے انفرادی طور پر کام کرنے والے اور مقررہ وقت میں صارفین کی تعداد رکھنے والے کنٹنٹ کرئیٹرز کو بھی اس پالیسی سے فائدہ ہوگا ،جبکہ وزارت اطلاعات کے پاس رجسٹرڈ کروانا ہوگا،جبکہ نیوز ویب سائٹس اور روایتی میڈیا اداروں کے آن لائن حصے بھی اس زمرہ میں شامل ہونگے
ابتدائی طور پر یہ پالیسی وفاقی سطح پر لاگو ہوگی جبکہ صوبائی سطح پر صوبے اپنی پالیسی خود تشکیل دینے کے اہل ہوں گے ،جبکہ پنجاب میں 2012 سے ڈیجیٹل میڈیا کو اشتہارات کی پالیسی نافذ ہے ،جبکہ سندھ میں بھی اس پر غور کیا جارہا ہے
حالیہ برسوں کے دوران الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کی ترویج کے بعد پرنٹ میڈیا کے صارفین کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ان کی سرکولیشن بھی بتدریج کم ہوگئی ہے ،لیکن سوشل میڈیا بڑی تعداد میں اشتہاری اداروں کو اپنی جانب راغب کیا ہے
واضح رہے کہ مالی سال 2020 میں ڈیجیٹل اشتہارات پر 13 ارب 65 کروڑ روپے خرچ کئے گئے جو کہ سال 2019 کے دوران ساڑھے 10 ارب روپے خرچ کئے گئے جوکہ گذشتہ سال کے مقابلہ میں 23 فیصد اضافہ تھا