خالد قیوم تنولی
یہ کہانی آپ آڈیو میں بھی سن سکتے ہیں
وہ کتے جنھیں کوٸی خاص توجہ نہ دے ، لُوسی کہلاتے ہیں۔ یہ آزاد منش ہوتے ہیں۔ مست ملنگ ، صابر اور قانع بھی۔ کہیں سے کچھ کھانے کو مل گیا تو ٹھیک ورنہ بے زبان شکوہ بھی نہیں کر سکتے۔ فاقہ مستی کے باعث یہ لاغر اور مریّل سے رہتے ہیں۔ گاٶں یا شہری محلے کے ہر باشندے کے صورت شناس ہوتے ہیں اس لیے اس پر بھونکتے نہیں البتہ کسی اجنبی نووارد کے پیچھے پنجے دھو کر پڑ جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک لوسی تھا جس پر ہماری نظر پڑی تو وہ ہمارے من کو بھا گیا۔ اس کے وجود کی سفید گراٶنڈ پرسیاہ دھبے تھے۔ باقیوں کی نسبت ذرا چاق چوبند دکھاٸی دیتا تھا مگر مزاج میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوٸی تھی۔ ہمیں چونکہ نیا نیا کتا پال شوق چرایا تھا لہذا اسے چمکار ششکار کر گھر لے آۓ۔ مہمان تو نہیں تھا مگر خاطردای ضروری تھی۔ اسے لاٸف بواۓ صابن سے نہلایا اور سُکھایا تو اس کی آنکھیں ممنونیت کے مارے چمکنے لگیں۔
دھل دھلا کر اس کا کتا پن قدرے نکھر آیا۔ دودھ دستیاب نہیں تھا مگر وافر لسی میں دو باسی روٹیاں بھگو کر اس کے آگے پیش کیں تو اس دعوت شیراز کو اس نے بخوشی خورد و نوش کیا اور دُم کو متواتر ہلاتا رہا، گویا کھانے کی بے حد تعریف کر رہا ہو۔ وہ سارا دن اس کی عزتِ نفس کو بحال اور خودی کو بیدار کرنے میں گزرا۔ بطور اعزاز اس کے گلے میں ایک خوبصورت سا چرمی پٹا بھی ڈال دیا اور زنجیر بھی تاکہ اسے احساس ہو کہ وہ اب کوٸی عام نہیں بلکہ کسی کا منظور نظر بن چکا ہے۔ رات ہونے تک وہ ہم سے خاصا مانوس ہو چکا تھا۔
مگر گھر والوں کو یہ تبدیلی ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ اس رات ہمیں دسترخوان پر نہیں بیٹھنے دیا گیا بلکہ ہمارے لیے برتن تک علیحدہ کر دیے گۓ۔ ہم نجس قرار پاۓ۔ ہم نے بہتیری دلیلیں پیش کیں کہ اس کی وجہ سے اب چوری چکاری کا اندیشہ نہ رہے گا۔ اس کے جواب میں ہماری منجھلی بہن نے اپنی دانست میں فرمایا کہ کتا چونکہ نجس اور ناپاک ہوتا ہے لہذا رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں نہیں آ سکتے۔
ہم نے پوچھا : ”کیا اس سے پہلے فرشتے آتے تھے ؟ کیسے ہوتے ہیں ؟“
منجھلی سن کر گڑبڑا گٸی تو ہم نے کہا کہ کتا گھر کے پچھواڑے بندھا رہے گا۔ فرشتے چونکہ آسمان سے سیدھے صحن میں اتریں گے اس لیے ان کو کوٸی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال اس رات بہت چخ پخ ہوٸی۔ جب ہم نے کارگر دھمکی دی کہ اگر کتا نہیں تو ہم بھی نہیں ، تو ماں جی نے اٹھ کر پاپوش مبارک سے ہماری ٹھکاٸی کرتے ہوۓ ڈانٹا : ”خبیثا ! شرم نہیں آٸی ایسے منحوس کلمات ادا کرتے ہوۓ۔ تجھ پر ایسے ہزار کتے قربان۔“
اس کا نام ہم نے ”ڈپٹی“ رکھا جسے سن کر وہ کان کھڑے کر لیتا تھا۔
اچھے بھلے دن گزر رھے تھے کہ کراچی سے ابا جان رخصت پر گھر آۓ۔ وہ کتے کے ساتھ ہمارے لاڈ پیار پر سخت معترض ہوۓ اور حکم دیا کہ کتے کو گھر نکالا دو۔ ہم اس کی عادات اور محاسن گننے لگے تو ایک زور کی چپت رسید ہوٸی۔ ردعمل میں ہم زمین پر لوٹ پوٹ ہو گۓ ۔ حمایت کو ماں جی آگے بڑھیں اور ابا جان کے سامنے سیسہ پلاٸی دیوار کی مانند تن گٸیں۔
یوں کتا بچا سو لاکھوں پاۓ۔ تاہم ابا جان ھمارے ساتھ ساتھ کتے کو بھی طعنے دینے لگے۔ ان کا کہنا تھا ایسے کم اصل کتے ہمیشہ مایوس کرتے ہیں۔کتے کی تربیت میں ہم نے کوٸی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو ہم جگا چکے تھے۔ وہ بتدریج بہترین پہریدار بنتا جا رہا تھا۔ مستعد ہوتا جا رہا تھا۔ ہماری پھینکی ہوٸی گیند کو جھاڑیوں میں سے فوراً ڈھونڈ کر لے آتا۔ سیٹی بجاتے ہی اچانک سامنے آ کھڑا ہوتا۔ ہم سے مصافحہ بھی کرتا اور معانقہ بھی۔ گھر کی پالتو مرغیوں اور مرغے سے اس کی گاڑھی چھنتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں
- گورا قبرستان کا ڈیڑھ سو سال سے نگران مسلمان خاندان
- ایبٹ آباد کے شہر قدیم کی تعمیراتی صنعت اور کام دوست گدھا
- ہریپورمیں چوری شدہ 2 ہزار سال قدیم بدھا مجسمہ برآمد ،ملزم گرفتار
- مانسہرہ میں ایشیاء کی پرندوں کی سب سے بڑی افزائش گاہ کوجدید سہولتیں فراہم
اچھے بھلے دن گزر رھے تھے کہ کراچی سے ابا جان رخصت پر گھر آۓ۔ وہ کتے کے ساتھ ہمارے لاڈ پیار پر سخت معترض ہوۓ اور حکم دیا کہ کتے کو گھر نکالا دو۔ ہم اس کی عادات اور محاسن گننے لگے تو ایک زور کی چپت رسید ہوٸی۔ ردعمل میں ہم زمین پر لوٹ پوٹ ہو گۓ ۔ حمایت کو ماں جی آگے بڑھیں اور ابا جان کے سامنے سیسہ پلاٸی دیوار کی مانند تن گٸیں۔
مگر ایک واقعے نے ساری محنت اور اعتماد پر پانی پھیر دیا۔ وہ اس طرح کہ ایک دن ہم ابا جان کے پاس صحن میں بیٹھے ان کے ہاتھ کے چھلے مالٹے کھا رہے تھے کہ گھر سے نزدیک قبرستان کی طرف سے ایک نابکار گیدڑ آیا اور مرغیوں کے جمگھٹ پر شب خون مارا۔ ایک مرغی اس کے جبڑوں میں پھنسی زندگی اور موت کی دہاٸی دینے لگی۔ ابا جان نے ہمیں دیکھا اور پوچھا : ” کہاں ھے تیرا ڈپٹی؟“
ہم نے ترنت منہ سے سیٹی بجاٸی اور ڈپٹی ایک آن میں نمودار ہو گیا۔ اس کے بعد ھم نے گیند تو نہیں مگر ایک مالٹا بڑے زور سے بھاگتے ہوۓ گیدڑ کی طرف اچھال دیا۔ ڈپٹی الف ہو گیا۔ پیچھے ھم دونوں باپ بیٹا بھی دوڑے۔اس کے بعد جو اگلا منظر تھا وہ بہت ہی عجیب تھا۔ ہم سمجھے کہ ڈپٹی گیدڑ کے تعاقب میں ھے اور جلد ھی وہ اس خبیث کو جا دبوچے گا۔ ۔ ۔لیکن ہم نے دیکھا کہ ڈپٹی مالٹے کی تلاش میں گیدڑ سے بھی آگے نکل گیا۔ اب وہ گولی کی رفتار سے آگے اور گیدڑ پیچھے۔ حتیٰ کہ گیدڑ نے رخ بدلا اور ندی کی سمت مرغی سمیت روپوش ہو گیا۔
ابا جان وہیں ٹھہر گۓ اور ہماری طرف غصے سے دیکھ کر بولے : ” میں نے کہا نہیں تھا کہ یہ کم اصل ھے۔ اب اگر یہ گھر واپس آیا تو ساتھ تمہیں بھی گولی مار دوں گا۔“
اور تعجب کی بات یہ کہ پھر ڈپٹی بھی کبھی واپس نہ آیا۔ خدا جانے ہم سے شرمندہ تھا یا اپنے آپ سے۔
ہم نے ایک دن مایوس ہو کر اس کی زنجیر اور پٹے کو بچشمِ نم گڑھا کھود کر دفنا دیا۔