آزادی ڈیسک
افغانستان سے انخلاء کی صورت میں امریکہ کیلئے ہر گزرتے دن کیساتھ یہ سوال زیادہ سنگین ہوتا جارہا ہے کہ شدت پسند تنظیموں کے خلاف وہ مستقبل میں ڈرون حملے کیسے جاری رکھ پائےگا ؟
انگریزی اخبار ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق 2 مئی کو پاک فضائیہ کے چند اہلکاروں نے افغان سرحد کے قریب واقع جنوبی بلوچستان کے علاقے نصیر آباد کا دورہ کیا تھا ،جس کا مقصد ایک نئے فضائی مستقر کی تعمیر کیلئے مناسب مقام کا جائزہ لینا تھا
نصیر آباد اس شمسی ایئر بیس کے قریب واقع ہے جہاں سے 2011 تک امریکی ڈرون طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فضائی آپریشن سرانجام دئیے
یہ خبر اس وقت منظر عام پر آئی جب امریکہ افغانستان سے مکمل انخلاء کےبعد ڈرون آپریشن جاری رکھنے کیلئے کسی مناسب مقام کی تلاش میں تھا
یہ بھی پڑھیں
- بھارت نے افغان طالبان قیادت کیساتھ روابط بڑھانے کی کوششیں تیز کردیں
- امریکی انخلاء اور افغان طالبان کیلئے فیصلے کی گھڑی
- افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا عمل باقاعدہ طور پر شروع
- فضائی مستقر کیلئے پاک امریکی مذاکرات تعطل کا شکار،نیویارک ٹائمز کا دعویٰ
اس خبر کے عام ہوتے ہی یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ ممکنہ طور پر امریکہ اس مستقر کو مستقبل میں افغانستان میں القاعدہ اور داعش کی نگرانی اور حملوں کیلئے استعمال کرنے کا خواہاں ہے
اگرچہ وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی سمیت پاکستان کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان نے امریکہ کو کوئی بھی فضائی اڈہ فراہم کرنے سے قطعی انکار کردیا ہے
پاکستان ایئر فورس کی جانب سے بھی وضاحت کی گئی کہ ایئربیس کےلئے مناسب جگہ کی تلاش معمول کا معاملہ ہے
جبکہ کابینہ میں شامل ایک وزیر کا کہنا تھا جب تک عمران خان اقتدار میں ہیں امریکہ کو کوئی اڈا فراہم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
واضح رہے کہ 2018 میں اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان پاکستان کی سرزمین سے امریکی ڈرون آپریشنز کے شدید مخالف رہے ہیں
2012 میں انہوں نے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجا اسلام آباد سے قبائلی علاقوںتک ہزاروں افراد کے ایک جلوس کی قیادت کی تھی
دفاعی تجزیہ نگار اورایسوسی ایٹ ڈین نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی طغرل یامین کے بقول ماضی میں پاکستان نے امریکہ کیساتھ تعاون کیا لیکن اسے اس کی سیاسی قیمت چکانا پڑی
پاکستان کا انکار اور امریکہ کا تصدیق سے گریز
اگرچہ امریکہ کی جانب سے ابھی تک پاکستان کے انکار کے بارے میں خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ،تاہم رواں ماہ ایک پریس کانفرنس کے دوران اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں امریکی صدر کے مشیربرائے سلامتی امور جیک سولیوان نے کہا تھا
پاکستان کے ساتھ دفاعی ،فوجی اور سفارتی حوالوں سے مثبت بات چیت ہورہی ہے
6 جون کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم جے برنز نے حال ہی میں اسلام آباد کا دورہ کیا ہے جہاں انہوں نے سربراہ پاک فوج جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لفیٹننٹ جنرل فیض حمید سے ملاقاتیں کی ہیں
اگرچہ اپنے دورے کے دوران سی آئی اے ڈائریکٹر ولیم جے برنز نے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی خواہش ظاہر کی تاہم عمران خان نے ان کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی کہ وہ صرف اپنے ہم منصب یعنی جوبائیڈن سے بات کرنا پسند کریں گے
سی آئی اے سربراہ کے اس خفیہ دورے کو واشنگٹن کی جانب سے پاکستان کی طاقتور فوجی قیادت کو رام کرنے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے
طغرل یامین کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو پارلیمنٹ میں معمولی اکثریت حاصل ہے لیکن اس (اڈوں )کے حوالے سے ان کا اپنا ایک مضبوط سیاسی موقف ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ فوج کو بھی اس پر کوئی اعتراض ہوگا
امریکی ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان میں عوامی سطح پر شدید ردعمل پایا جاتا رہا ہے
2004 سے 2018 کے دوران امریکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر 4 سو سے زائد ڈرون حملے کئے ۔بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کی رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں 424 ست 969 عام شہری مارے گئے میں 172 معصوم بچے بھی شامل ہیں
تاہم امریکہ نے 2015 میں صرف ایک شہری کے مارے جانے کی ذمہ داری قبول کی تھی جہاں القاعدہ کو ہدف بنائے جانے کے دوران ایک اطالوی مغوی ایک غیر ملکی کے ہمراہ مارا گیا تھا
امریکی ڈرون حملوں پر نظر رکھنے والے ایئر وارز کے کرس ووڈ کے بقول مسلح ڈرون کے بارے میں ہر ایک کا اپنا بیانیہ ہے ۔پاکستان میں یہ ڈرون شہریوں کی مسلسل نگرانی اور انہیں ہراساں کرنے کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں جبکہ جب کچھ بہت برا ہوجاتا ہے تو امریکہ اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے بھی انکار کردیتاہے
ان کا کہنا ہے اپنی کئی سال سے انتخابی مہم کے دوران عمران خان امریکی ڈرون حملوں کے شدید مخالف رہے ہیں اور وہ اپنے الفاظ پر قائم ہیں
کیوں کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کی سرزمین پر کوئی ایک بھی ڈرون حملہ نہیں ہوا
پاکستان کی سرزمین سی آئی اے نے آخری ڈرون حملہ جولائی 2018 میں کیا تھا یہ وہی مہینہ تھا جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا
اس لئے عمران خان اگر اپنی سیاسی ساکھ کو بچانا چاہتے ہیں تو کوئی ایسی وجہ نہیں کہ وہ امریکہ کو اڈے دیکر اپنی ساکھ کو نقصان پہنچائیں
خون آشام داستان کا اختتام
2001 میں افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد ڈرون امریکی فوجی حکمت عملی کا اہم جزو رہے ہیں ،ان سالوں کے دوران افغانستان میں 13 ہزار سے زائد امریکی ڈورن حملوں کے نتیجے میں 10 ہزار سے زائد لوگ مارے گئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے
عام جنگی طیاروں کے برعکس ڈرون طیارے ایک پرواز کے دوران 40 گھنٹے سے زائد وقت فضا میں گزار سکتے ہیں ،جس کی وجہ سے اسے چلانے والے اپنے ہدف کی نگرانی زیادہ بہتر انداز میں کرسکتے ہیں ۔جبکہ ان میں نصب جدید کیمروں کی مدد سے کنٹرول روم میں بیٹھا آپریٹر کسی مسلح شخص کی تادیر نگرانی کرسکتا ہے
اور اس پر حملے کیلئے اس وقت تک انتظار کرسکتا ہے جب تک وہ تنہا نہیں ہو جاتا یا کم رش والی جگہ پر نہیں چلا جاتا
برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اور ڈرون ریموٹ کنٹرول وارفیئر کتاب کے مصنف ہف گوسترسن کا اس بارے میں کہنا ہے
اصولی طور پر شہری ہلاکتوں سے بچائو کیلئے روایتی طیاروں کے بہ نسبت ڈرون زیادہ بہتر انتخاب ہوسکتا ہے ۔لیکن اس کیلئے ڈرون آپریٹر کاپرسکون ہونا اور اسے اپنے ہدف کو درست نشانہ بنانے کی صلاحیت ہونا چاہیے
ان کے بقول شہری سے ہلاکتوں بچائو یا انہیں کم کرنے کیلئے اوبامہ نے قواعد کو سخت بنایا تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے آ کر ان قوانین میں نرمی کردی
امریکی صدر باراک اوبامہ کے دور میں سب سے زیادہ ڈرون حملے کئے
واضح رہے کہ گذشتہ سال طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد امریکہ نے افغانستان سے انخلاء کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔جبکہ امریکہ نائن الیون کی 20 ویں برسی کے موقع پر 11 ستمبر تک افغانستان سے مکمل طور پر نکل جانے کا خواہاں ہے
افغانستان میں امریکہ نے کئی فضائی اڈے خالی کردیئے ہیں یا انہیں افغان فوج کے حوالے کردیا گیا ،لیکن ماہرین کی رائے میں غیرملکی فوجوں کے نکل جانے کے بعد افغان فوج کا طالبان کے سامنے تادیر کھڑے ہونا ممکن نہیں دے رہا
متبادل کی تلاش
امریکی حکام کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ واشنگٹن کو افغانستان سے منتقل کئے جانے والے فوجی اثاثوں کو رکھنے کیلئے کسی قریب ترین مقام کی تلاش ہے
اگرچہ امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینتھ ایف میکنزی نے اپنے ایک حالیہ عسکری میگزین کودیئے گئے انٹرویو میں کہا تھاکہ اس بات (فوجی اڈوں کی تلاش)کا طالبان کی پیش قدمی پر نظر رکھنے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں
ہمارا مقصد صرف اور صرف القاعدہ اور داعش کیخلاف آپریشن جاری رکھنا ہے
تاہم مصنف ہف گوسترسن کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ڈرون حملے صرف قریب ترین مقامات سے ہی جاری رکھے جا سکتے ہیں ۔کیوں کہ مستقر جتنا قریب ہو گا اس کی آپریشنل اور نگرانی کی صلاحیت اتنی ہی زیادہ ہوگی
فاصلے کی اہمیت ضرور ہے کیوں کہ ڈرون طیارے کی رفتار نسبتاً کم ہوتی ہے اس لئے اسے اپنے ہدف تک پہنچنے اور موثر کاروائی کیلئے کم فاصلہ اور زیادہ وقت درکار ہوتا ہے
اس سلسلے میں وسط ایشیا کی بعض ریاستیں متبادل ثابت ہوسکتی ہیں ،لیکن اس میں روس ضروررکاوٹ بنے گا
وسط ایشیائی ریاستوں میں روس رکاوٹ بن سکتا ہے
ماضی میں تاجکستان امریکہ کو دوشنبے کے قریب فضائی اڈا استعمال کرنے کی اجازت دے سکتا ہے ۔لیکن موجودہ تاجک صدر ماسکو کے زیادہ قریب ہیں اور وہ واحد غیر ملکی رہنما ہیں جنہیں روس نے 6 مئی کی فوجی پریڈ میں مدعو کیا تھا
2001 سے 2005 کے درمیان امریکی فوجیں ازبکستان میں کارشی خان آباد کا ہوائی اڈے استعمال کرچکی ہیں ،لیکن جب امریکہ نے ازبک حکومت کو اندرونی مظاہروں سے نمٹنے کے معاملے پر تنقید کا نشانہ بنایا تویہ سلسلہ ختم ہو گیا
لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بیانیہ بھی موجود ہے جیسا کہ اپریل میں بی بی سی کے سیکورٹی کوریسپانڈنٹ فرانک گارڈنر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ امریکہ کو پاکستان کی آئی ایس آئی پر زیادہ اعتماد نہیں جو کہ طالبان کے مددگار تصور کی جاتی ہے
اس کے علاوہ بحرین اور اومان بھی ممکنہ متبادل ہوسکتے ہیں ،جہاں امریکہ کے ناٹو اتحادی برطانیہ کے پہلے ہی اڈے موجود ہیں ،لیکن ان ممالک سے اپنے مطلوبہ ہدف تک ڈرون طیاروں کو پہنچنے کیلئے کئی گھنٹے درکار ہیں
اگرچہ ڈرون طیارے کی خوبی اس کی طویل اور تادیر قوت پرواز ہے ،لیکن وہ جتنا قریب سے اڑان بھرے گا اتنا ہی زیادہ اور بہتر نگرانی کا فریضہ سرانجام دے سکے گا