راحت ملک
کوٸٹہ
موجودہ ہائی برڈ سیاسی نظام سے جو چلتا ہوا دکھائی بھی نہیں دے رہا۔نجات کے لئے حزب اختلاف کی دس جماعتوں پر مشتمل حکومت مخالف قومی جمہوری تحریک حتمی مرحلے کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے ہونے والا اجلاس میں اتفاق رائے سے احتجاج آگے بڑھانے کی بجائے پی ڈی ایم اندرونی خلفشار کی زد میں آگئی ہے۔
16مارچ کو محترم مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں جب اجلاس شروع ہوا تو مولانا خوشگوار موڈ میں نہیں تھے باخبر ذرائع کے مطابق اجلاس سے چند روز قبل سے بڑی پارٹیوں کے درمیان جاری صلاح و مشورے میں بنیادی فیصلے کے بارے اختلاف رائے سامنے آچکا تھا ۔
مولانا فضل الرحمن اس سے مکمل آگاہ تھے ،جبکہ جناب اویس نورانی صاحب اجلاس سے قبل ہی بعض شرکاءکو سرگوشیوں میں بتا رہے تھے کہ آج کے اجلاس میں گڑ بڑ ہوگی۔
اوپن بیلٹ اور ضمیر کی آزادی !!
دارلحکومت میںنئی صف بندیاں،ملاقاتیںاور قوم سے خطاب
اجلاس کے آغاز سے ماحول میں تناﺅ کے آثار موجود تھے باخبر ذرائع کے مطابق روایت کے برعکس صدر مجلس نشین نے ابتدائی کلمات بیان کرنے سے گریز کیا انہوں نے کہا میں اپنی دائیں جانب تشریف فرما رہنما کو زیر بحث ایجنڈے پر گفتگو شروع کرنے کی دعوت دیتا ہوں پھر ان سے متصل تشریف فرما پارٹی رہنماء ترتیب وار بحث آگے بڑھائیں گے ہر جماعت سے ایک رہنماءکو گفتگو یا اظہار خیال کا حق ہوگا

چنانچہ مولانا کی دائیں جانب تشریف مشر خان محمود خان اچکزئی نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے ملکی تاریخ کے مختلف ادوار میں آئین ،جمہوریت سے انحراف اور قومی سوال حل کرنے کی بجاٸے غلط فیصلوں کے نتیجے میں ملک میں سیاسی عدم استحکام کا جائزہ پیش کیا۔
ان کے بعد جناب امیر حیدر ہوتی نے ایجنڈے کے نکات پر براہ راست گفتگو کرتے ہوئے دو ٹوک طورپر کہا کہ”
آج قیادت حتمی فیصلہ کرے بار بار اجلاس بلانے اور فیصلوں میں تغیر وتبدل سے پیدا ہونے والے ابہام کو دور کرنا ہوگا۔ہمیں دھرنا دینا ہے اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونا ہے یا نہیں۔؟
اس کا آج حتمی فیصلہ کرلیا جائے اور پھر اس پر عملدرآمد کے لئے یکسوئی سے اگے بڑھنا چاہیے” ان کے بعد جناب آفتاب شیر پاﺅنے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے ویڈیو لنک سے اجلاس میں اپنی رائے بیان کی ،انہوں نے اسلام آباد دھرنے کے متعلق کہا کہ ” دس لاکھ افراد بھی جمع ہو جائیں اور کئی دن تک دھرنا دے کر بیٹھے رہیں تو شاید اس کا وہ اثر مرتب نہ ہو لیکن اگر پچاس ہزار افراد اسلام آباد پہنچیں دن بھر دھرنا دیں اور شام کو ہم اسمبلیوں سے استعفے دے کر واپس چلے جائیں تو حکومت کا خاتمہ یقینی ہوگا۔ ”

جناب کائرہ نے ذرائع ابلاغ پر میاں نواز شریف کی تقریر میں کچھ نامناسب کلمات ادا کرنےکا الزام عائد اور اظہار ناپسندیدگی کیا۔ لیکن ذرائع اس الزام کی تائید نہیں کررہے۔
دوران اجلاس محترمہ شیری رحمان نے تجویز پیش کی کہ جناب آصف زرداری سے قبل جناب راجہ پرویز اشرف صاحب کو اظہار خیال کا موقع دیا جائے تو پی ڈی ایم کے جنرل سیکرٹری شاہد خاقان نے اس کی مخالفت کی اور دلیل دی کہ چونکہ ہر پارٹی سے ایک رہنماءکو بحث میں شریک ہونے کا اصول طے ہوچکا ہے لہذا پیپلزپارٹی خود طے کر لے کہ وہ اپنی نمائندگی کے لئے کس رہنما کو اظہار خیال کےلئے موقع دینا پسند کرتی ہے؟
ذرائع کے مطابق طے ہوا کہ جناب آصف علی زرداری گفتگو کرینگے۔جناب بلاول بھٹو بھی بلاول ہاﺅس کراچی میں ان کے ساتھ ویڈیو لنک پر موجود تھے۔جناب آصف زرداری نے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے فرمایا

” میاں صاحب ملک میں واپس آئیں تحریک میں شریک ہوں تب ہم اپنے استعفے آپ کو پیش کردینگے میں نے اس اجلاس میں موجود کسی بھی رہنماءاور پارٹی سے زیادہ جیل کاٹی ہے۔پیپلزپارٹی نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔اب میں اس اسٹیبلشمنٹ سے نہیں لڑ سکتا۔میرا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں میرا ڈومیسائل بھی سندھ کا ہے اب میں استعفے نہیں دونگا۔ ”
اس نوعیت کے گفتگو میں جناب زرداری کالہجہ تلخ اور جارحانہ تھا۔جس سے اجلاس کے ماحول میں کشیدگی پیدا ہوئی ۔میاں نواز شریف پر تنقید سے محترمہ مریم نواز کا چہرہ لال ہو گیا تاہم انہوں نے کمال بردباری سے جنا ب آصف زرداری کی باتوں پر شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ” میں آج آصفہ اور بختاور کی طرح آپ سے بیٹی کی حیثیت میں گلہ کررہی ہوں آپ کے کلمات سے مجھے دکھ ہوا ہے

مریم نواز صاحبہ نےبصد احترام جناب زرداری کو یاد دلا یا کہ” ہم 2018ءکے چوری شدہ انتخابی نتائج مسترد کررہے تھے ہم اسمبلیوں کا حلف نہیں اٹھانا چاہتے تھے مگر آپ کے اصرار پر ہم نے اپنا فیصلہ بدلا،صدر مملکت کے انتخاب پر آپ نے الگ رستہ اپنایا،
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کی اکثریت تھی ہم نے سینیٹ کے انتخابات کےلئے آپ کی تجویز کی حمایت کی آپ نے جناب گیلانی کو امیدوار نا مزد کیا لیکن ہم سے مشاورت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔
پھر چیئرمین سینیٹ کے لئے بھی از خود جناب گیلانی کو امیدوار بنایا ،باہمی مشورہ تک نہیں کیا۔لیکن ہم نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ہمارے ووٹوں سے ہی جناب گیلانی سینیٹر بنے ہیں اور آج آپ پی ڈی ایم کی تحریک کے طے شدہ فیصلے نیز دس میں سے نو جماعتوں کے موقف کے
برعکس اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے انکار کررہے ہیں ”
جناب زرداری جب ویڈیو لنک پر گفتگو کررہے تھے تو عین اسی لمحے ان کی تقریر بلاول ہاﺅس سے براہ راست ذرائع ابلاغ کو بھی جاری کی جارہی تھی جب اجلاس کے شرکاءکو اس کا علم ہوا تو صورتحال میں مزید تلخی آگئی،شرکائے مجلس کا خیال تھا کہ اس حرکت سے اجلاس کے ڈیکورم کی نفی ہوئی ہے۔
صدر مجلس نے بھی جناب زرداری کے نٸے موقف پر حیرت کا اظہار کیا حالانکہ انہیں اس کی سن گن پہلے سے مل چکی تھی
۔ذرائع کے مطابق جناب مولانا فضل الرحمن نے پیپلزپارٹی اور جناب زرداری کی جمہوریت کے لیے جدوجہد کا اعتراف کرتے ہوئے اعتراض اٹھایا کہ ” اجلاس میں شریک نو جماعتیں استعفے دینے سے متفق ہیں ماسوائے آپ کے
،جمہوری روایت کا تقاضا ہے کہ آپ اور آپ کی جماعت اکثریتی رائے کو قبول کرے،” ذرائع بتاتے ہیں اس اعتراضی نقطہ پر زرداری صاحب کا جواب حیران کن تھا،انہوں نے مولانا سے کہا کہ”پھر آپ مائنس ون کرلیں“(یعنی پیپلزپارٹی کو اتحاد سے الگ تصور کرلیں)اس پر مرحلہ پر جناب شاہد خاقان عباسی نے کہا نہیں۔”مائنس ون کی بجائے مائنس نائین کرلیتے ہیں“

پیپلزپارٹی کی جانب سے استعفوں سے واضح انکار سے پیدا شدہ صورتحال پر مشر خان محمود خان اچکزئی نے مشورہ دیا کہ 26مارچ کے لانگ مارچ کے دوران فی الحال صرف قومی اسمبلی سے استعفے دیئے جاسکتے ہیں صوبائی اسمبلیوں سے مرحلہ وار بتدریج استعفے دینے پر اتفاق کرلیتے ہیں ”
اس تجویز کو بھی نظر انداز کردیاگیا
جناب زرداری نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مریم بی بی سے ان کی جذبات کو پہنچنے والی ٹھیس پر معذرت چاہی۔پیپلزپارٹی نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ ان کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں استعفوں کے آپشن کی مخالفت ہوئی تھی۔
پارٹی پارلیمانی ایوان میں رہ کر حکومت ختم کرنے کی حامی ہے اگر نو جماعتیں مستعفی ہونے کا فیصلہ کرچکی ہیں تو ہمیں وقت دیا جائے تا کہ ہم اپنی ای سی سی سے رجوع کر کے حتمی فیصلہ کرسکیں ۔
بتایا جاتا ہے کہ اس تجویز سے بشمول صدر مجلس مکمل متفق نہیں تھے مگر چار جماعتوں نے اتمام حجت کےلئے پیپلزپارٹی کو مرحلہ وار استعفوں کے متعلق ای سی سی سے اجازت لے کر پی ڈی ایم کو حتمی فیصلے سے جلد آگاہ کرنے کی حمایت کی۔
جناب صدر اور دیگر کا خیال تھا کہ چونکہ 26مارچ کے لانگ مارچ میں استعفوں کا معاملہ متنازعہ ہوگیا ہے دریں حالات لانگ مارچ کی افادیت ختم ہوگئی ہے
لہذا لانگ مارچ کو بھی فی الحال ملتوی کردیا جائے۔مولانا فضل الرحمن نے اس تجویز کے بعد موقف اختیار کیا کہ وہ اجلاس کے بعد خود میڈیا سے بات نہیں کرینگے چونکہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں یہ شائستگی کے ساتھ احتجاج کا اظہار تھا ،
تاہم محترمہ مریم نواز نے انہیں رضا مند کیا کہ وہ مختصراً پریس سے بات کریں فیصلہ کا اعلان کردیں باقی معاملات پی ڈی ایم کے دیگر رہنماسنبھال لیں گے۔
پھر یہی ہوا۔مولانا نے چند کلمات پریس کے سامنے کہے مارچ ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور ڈائس سے ہٹ گئے،محترم گیلانی صاحب اور مریم بی بی نے صحافیوں کے کچھ سوالات کے جواب دیئے یوں اجلاس کی کارروائی اختتام کو پہنچی،مگر پی ڈی ایم اور پیپلپزپارٹی کے متعلق سنجیدہ سوالات اور بحث چھڑ گئی ہے ۔
کیا پیپلزپارٹی دریں حالات پی ڈی ایم سے فاصلہ اختیار کرنے کا بوجھ اٹھا پائے گی۔کیونکہ مرکزی حکومت جو سندھ میں پی پی حکومت کے خاتمے کی دیرینہ آرزو مند ہے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرےگی؟
کیونکہ پی پی ،پی ڈی ایم سے ناراضی کے بعد سیاسی تنہائی کا شکار ہو جائے گی جس پر حملہ آور ہونا مرکزی حکومت کے لئے زیادہ سہل ہوسکتا ہے؟
جناب آصف زرداری نے جس انداز سے میاں نواز شریف کو ملک واپس آنے کا کہا ہے یقینا اس سے مسلم لیگ اور میاں صاحب پر وطن واپسی کے لئے سیاسی واخلاقی دباﺅ میں اضافہ ہوا ہے لیکن دریں حالات میاں صاحب فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لئے واپسی کا مشروط اعلان بھی تو کرسکتے ہیں
یہ میری رائے ہے۔معلومات نہیں،سوال یہ ہے کہ اگر میاں صاحب اعلان کریں کہ پی ڈی ایم لانگ مارچ ملتوی کرنے کا فیصلہ واپس لے اور جس روز لانگ مارچ کے شرکاءاسلام آباد ،پنڈی پہنچیں گے تو وہ بھی اسی روز ملک واپس پہنچ جائیں گے۔
کس ائیر پورٹ پر اتریں گے؟اس کو مخفی رکھیں،لیکن صاف صاف کہہ دیں کہ وہ زرداری صاحب کی شرط پوری کررہے ہیں لہذا،زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی اپنے وعدے کے مطابق اسمبلیوں سے استعفے دینے کے لئے تیار رہیں جب میں وطن پہنچوں تو استعفے مجھے دے دیئے جائیں میری قیادت میں پی ڈی ایم جماعتیں استعفے متعلقہ اسمبلیوں میں جمع کرائیں گے !!!!
اگر ایسا ہو جائے تو سیاسی بھونچال آسکتا ہے حکومت کی خوشیاں غم میں بدل جائیں اور جناب زرداری اپنے ہی نکتہ نظر کے جال میں پھنس سکتے ہیں جس پر عمل پیرا ہونا ناگزیر وجہ ہے اس مرحلے پر تو سیاست اور اقتدار کا پانسہ ہی پلٹ سکتا ہے ۔