نامہ نگار / مانیٹرنگ ڈیسک
بدھ کے روز گلگت بلتستان کی چیف کورٹ نے وزیر اعلیٰ خالد خورشید کو جعلی ڈگری کیس میں نا اہل قرار دیتے ہوئے وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا ہے جس کے بعد وفاق ،خیبرپختونخواہ ،پنجاب اور آزاد کشمیر کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا آخری سیاسی قلعہ گلگت بلتستان بھی سرنگوں ہو گیا ہے ۔
یوں 14 ماہ قبل وفاق سے تحریک انصاف کی واپسی کا شروع ہونے والا سفر پنجاب ، خیبرپختونخواہ ،آزاد کشمیر سے ہوتا ہوا آخر کار گلگت بلتستان میں اختتام پذیر ہوتا نظر آرہا ہے ۔اگرچہ 9 اپریل 2022 کی شب کے بعد ہر گزرنے والا دن اور ہر بیتنے والی رات کو تحریک انصاف کیلئے سیاست کی سیاہ رات طویل ہوتی گئی ۔اس میں جہاں سیاسی دائو پیچ بھی کار فرما تھے وہیں سیاسی ماہرین کے نزدیک چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی ضد اور انا پر مبنی روش نے ان کیلئے قومی سیاسی خلا میں وسعتیں کم کر دیں
یہ بھی پڑھیں
- ٹی ٹی پی کا معاملہ جلد حل ہوجائیگا ،اسلام آباد اور کابل کے درمیان فاصلے نہ بڑھیں ،گلبدین حکمتیار
- گلگت بلتستان کوعبوری صوبائی حیثیت دینے کی قرارداد منظور،وفاق میں نمائندگی کا مطالبہ
- ایبٹ آباد سے لاپتہ ہونیوالےغوری میزائل ماڈل کا معمہ حل نہ ہوا
- گورا قبرستان کا ڈیڑھ سو سال سے نگران مسلمان خاندان
بالخصوص نو مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے نیب کیس میں رینجرز کے ہاتھوں عمران خان کی گرفتاری اور اس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں پی ٹی آئی کارکنان کی توڑ پھوڑ اور بالخصوص فوجی عمارات و نشانات پر حملوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے پاکستان تحریک انصاف پر سیاسی زمین تنگ کر دی ہے ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پارٹی کے تقریبا تمام بڑی قیادت پارٹی چھوڑ کر جا چکی ہے ۔ ان میں سے کئی اہم رہنما چیئرمین تحریک انصاف کے سابق دست راست جہانگیر خان ترین کی قائم کردہ پارٹی استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں
سپیکر گلگت بلتستان کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد
وزراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کی نااہلی کے فوراً بعد اپوزیشن لیڈر امجد ایڈووکیٹ نے سپیکر جی بی نذیر احمد کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے جس کے بعد سیاسی فضا مزید کھچائو اور بے یقینی کا شکار ہے کیوں کہ اس تحریک پر ووٹنگ کیلئے رائے شماری کیلئے سیکرٹری گلگت بلتستان اسمبلی کا بلایا جانے والا اجلاس اس وقت ناکام ہو گیا جب پولیس نے اسمبلی کو اپنے میں گھیرے میں لیتے ہوئے اراکین کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روک دیا ۔
وزارت عظمیٰ کے امیدوار کون کون ہیں ؟
تحریک انصاف گلگت بلتستان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق مرکزی چیئرمین عمران خان کی منظوری سے راجہ اعظم خان اماچہ کو وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد کیا گیا ہے ،چونکہ اسمبلی میں ان کی پارٹی کی اکثریت ہے اس لئے وزارت اعلیٰ ان کی پارٹی کا حق ہے
تاہم دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ وفاق میں اہم اتحادی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام کی جانب سے بھی وزارت اعلیٰ کیلئے اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتارے جانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق پی پی نے امجد ایڈووکیٹ ،مسلم لیگ ن نے انجنیئر انور جبکہ جے یو آئی نے رحمت خالق کے نام تجویز کئے ہیں ۔اگرچہ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم غالب امکان یہی ہے کہ اتحادی جماعتیں آزاد کشمیر کی طرح یہاں بھی کسی ایک نکتہ پر متفق ہو سکتی ہیں
گلگت بلتستان اسمبلی کا تاریخی پس منظر اور موجودہ پارٹی پوزیشن کیا ہے؟
2009 میں گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف رول آرڈر کے تحت اسمبلی وجود میں آئی ۔جس میں نمائندوں کی تعداد 33 ہے جس میں 24 عام نشستیں ،6 خواتین اور 3 نشستیں ٹیکنو کریٹس کیلئے مختص ہیں ۔اب تک گلگت بلتستان اسمبلی کے تین انتخابات ہو چکے ہیں ۔ 12 نومبر 2009 کو ہونے پہلے اسمبلی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی جس کے اراکین کی تعداد 20 تھی اور سید مہدی شاہ اس کے پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے
2015 میں ہونے والے دوسرے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے کامیاب قرار پائی اور حافظ حفیظ الرحمن وزیر اعلیٰ بنے ،جبکہ تیسرے انتخابات نومبر 2020 میں ہوئے جس میں پاکستان تحریک انصاف کو 23 نشستوں کی صورت میں بھاری اکثریت حاصل ہوئی اور خالد خورشید خان وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان منتخب ہو گئے جنہیں گذشتہ روز چیف کورٹ نے جعلی ڈگری کیس میں نا اہلی قرار دیتے ہوئے اقتدار سے بے دخل کردیا ۔