دیگر پوسٹس

تازہ ترین

!!!مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے

سدھیر احمد آفریدی کوکی خیل، تاریخی اور بہادر آفریدی قبیلے...

حالات کی نزاکت کو سمجھو!!!

سدھیر احمد آفریدی پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کو غریبوں...

ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات!!

کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے

متبادل پر سوچیں!! سدھیر احمد آفریدی کی تحریر

یہ بلکل سچی بات ہے کہ کوئی بھی مشکل...

پیارے دا جی گل کے نام……از مسرت اللہ جان

مجھے یاد نہیں کہ میں کبھی ان کے گلے ملا ہوں. عیدین پر لوگ گلے ملتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی مجھے گلے نہیں ملایا ‘ بس ہاتھ ملا کر مبارکباد اور سرپر ہاتھ پھیرنا اس کی عادت تھی- یہ وہ احساس کمتری ہے جو میں رہتی زندگی یاد کرونگا.
کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح مجھے گلے ملاتا ‘ پیار کرتا لیکن بیماری کے عالم میں بھی میں جو خود تین بچوں کا باپ تھا اس کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا تھا اس سے میں گلے ملنے کی کوشش کرتا وہ گلے بھی ملتا لیکن و ہ مزہ نہیں آیا جو بچپن میں گلے لگ کر ملنے میں آتا ہے.
کبھی انہوں نے میرے ساتھ بیٹھ کر بات ہی نہیں ‘ کوئی چیز ہی ڈسکس نہیں کی ‘ ہاں بچپن سے ڈسپلن زندگی گزارنے کا طریقہ بتا دیا .وقت پر سونا ‘ وقت پر کام کیلئے نکلنا اور دوستی محدود لوگوں تک رکھنا یہ شائد میرے داجی گل کی عادتیں ہیں جو مجھے منتقل ہوئی ہیں-
مجھے نہیں پتہ ‘ آج کیوں اپنے والد جنہیں ہم بچپن میں داجی گل کہا کرتے تھے یاد آرہے ہیں-
ہررمضان المبارک کے آتے ہی ہم سارے بچے بہت خوش ہوتے کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر افطاری کرنے کا موقع ملتا تھا ‘ لیکن یہ افطاری بھی بڑی ڈسپلنڈ افطاری ہوتی تھی ان کے سامنے ترتیب سے ہر چیز پڑی رہتی ‘ ہم ان کے سامنے سارے بچے گم سم بیٹھے رہتے ‘


ماماگان کی حکومت اور غریب کی تشریف ۔۔۔۔مسرت اللہ جان

صحافت ،مقدس پیشے سے مافیاز کی آماجگاہ تک ۔۔۔مسرت اللہ جان


ان کی عادت تھی افطاری سے پہلے لمبی دعا کرتے تھے اور ہم ان کو فالو کرتے ہوئے دعا کرتے تھے کہ بس کریں داجی گل اتنی لمبی دعائیں مانگتا ہے ‘ لیکن جب تک وہ افطاری نہ کھولتے ہم افطاری نہیں کرتے تھے .کاش سب کچھ نہ ہو لیکن ان کا سب کیساتھ افطاری کیلئے بیٹھ جانا ایک مرتبہ پھر آجائے..
والد سب بچوں کے آئیڈیل ہوتے ہیں باپ جیسا بھی ہو ‘ باپ ہی ہوتا ہے ‘ زمانے کے سردوگرم سے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ‘ ہمارے داجی گل بھی ایسے ہی تھے بچپن میں دادا کی وفات سے یتیم ہونیوالے والد نے آٹھویں کلاس میں تعلیم چھوڑ دی تھی ‘
گائوں میں زمین پر بیٹھ کر کپڑے فروخت کرنے کا کام شروع کیا پھر دکان سے لیکر ٹرکوں کا کاروبار کرنا اور پھر ٹرانسپورٹربن جانا بڑی بات ہے ‘ کیونکہ جو بندہ سیلف میڈ ہوتا ہے اسے پتہ ہوتا ہے کہ کتنی مشکل سے اپنی پوزیشن بنانی پڑتی ہے اس لئے ان کا لہجہ سخت تھا ‘
لیکن یہ ان کی عادت تھی کہ عام حالات میں نرمی سے پیش آتے تھے لیکن وقت کی پابندی ‘ گھر سے باہر رہنے پر غصہ کرتے ‘ داجی گل نے اپنے آخری عمر تک نماز کبھی نہیں چھوڑی ‘ تہجد کے نماز سے لیکر اشراق کی نماز میں نے اپنے داجی گل کو پڑھتے دیکھا .
غصے کے انتہائی تیز داجی گل ہماری شیطانیوں پر ایسے مارتے کہ ان کا نام سن کر ہی ڈر لگتا کہ جب کوئی یہ کہتا کہ تمھاری شیطانیوں کا ذکر تمھارے داجی گل سے کرینگے اور ہماری ساری شیطانیاں ختم ہوجاتی تھی ‘
مجھے سب سے زیادہ مار جھوٹ پر پڑتی تھی کہ میں ان کے سامنے جھوٹ بولوں ‘داجی گل کہا کرتے تھے کہ چاہے کچھ بھی ہو سچ بولتے رہنا ‘عجیب بات ہے کہ میں عام زندگی میں سچ بولتا ہوں لیکن صحافت سے وابستگی کے بناء پر زیادہ سچ بول نہیں سکتا ‘ زیادہ سچ کسی کسی کو برداشت ہوتا ہے.
یہ داجی گل کی ہی ہدایت تھی کہ ا گرمیری عدم موجودگی میں کوئی مہمان حجرے میں آئے تو سب سے پہلے موسم کے لحاظ سے خاطر مدارت کرنا ‘ بٹھانا پھر بعد میں اس کا ایڈریس لینااور کام کا پوچھنا ‘ مہمانوں کے آگے بچھ جانے والے داجی گل کے بہت کم دوست تھے ‘
اتمانزئی کے ملنگ خان ‘ مسافر خان ‘ ظہور خان ‘ ڈاکٹر نور حلیم ‘ سید نورشاہ کاکا ‘ رحمان الدین کاکا ان کے چند مخصوص دوست تھے جن سے وہ وقتا فوقتا ملتے رہتے اور ان کے ہاں ہمارے گھر والوں کا آنا جانا بھی تھا . بازار میں جانے پر پابندی ‘ گلی میں کھیلنے پر پابندی ‘ دوست زیادہ بنانے پر بھی پابندی تھی ‘
ایک عجیب بات یہ تھی کہ داجی گل کہا کرتے تھے کہ سب کو دوست مت بولو ‘ ہر کوئی دوست نہیں ہوتا ‘ اس طرح دوستوں میں بھی فرق ہوتا ہے ‘ کوئی گلی تک جانے والا ہوتا ہے ‘ کوئی بازار تک اور کوئی ساری عمر کی رفاقت نبھانے والا دوست ہوتا ہے اور یہ ان کی نصیحت تھی کہ گلی اورعمر بھر کی رفاقت رکھنے والے دوستوں کی پہچان کرو.
یہ بھی انہی کی تربیت کا حصہ ہے کہ آج بھی کام ہو یا فراغت ‘گھر میں ٹک کر بیٹھ جانے کی عادت ہے ‘ میں نے بہت جگہوں پر ان کے اختلاف کیا ‘ ان کے سامنے غصہ بھی کیا اور وہ خاموش ہوگئے ‘ مجھے یاد ہے کہ سکول کے زمانے میں مجھے نیند کیلئے گولیاں کھانے کی عادت تھی ‘ ایک دن داجی گل نے دیکھ لیا اور پھر وہ حال کردیا کہ آج بخار اور بیماری میں بھی گولیاں کھانے سے ڈر لگتا ہے کہ بغیر دوائی کے ٹھیک ہو جائیگی.والی عادت ہوگئی ہے .
میٹرک کا دور ایسا دورہوتا ہے جس میں ہر نوجوان خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی اپنے آپ کو بہت زیادہ عقلمند سمجھتا ہے اور اپنے والدین خصوصا والد کو پرانے زمانے کی سوچ رکھنے والا سمجھتا ہے اور یہ حال سب کا ہے لیکن یہ وقت بتا دیتا ہے کہ والد چاہے بسترمرگ پر ہی کیوں نہ ہو اس کی شخصیت کے آگے بچے کچھ بھی نہیں ہوتے .
خواہ بچہ زمانے کا غوث اعظم ہو یا دنیا کا بادشاہ ‘ اس کی وقعت ایک بچے جیسی ہوتی ہے. ہمارے سکول کے زمانے میں فٹ بال اورہاکی کے میچز ہوا کرتے تھے اب شائد اس لئے نہیں کہ سکولوں میں کھیلنے کیلئے جگہ نہیں ‘ یہ واحد سرگرمی تھی جس پرداجی گل نے کبھی غصہ نہیں کیا ‘
آٹھویں کلاس سے لیکر دسویں جماعت تک ہاکی اور فٹ بال کھیلنے کیلئے ہم کبھی اتمانزئی کے میونسپل کمیٹی گرائونڈ میں کھیلنے کیلئے آتے تھے یا پھرترنگزئی ہائی سکول میں میچز ہوتے لیکن کبھی داجی گل نے اس معاملے پر مار نہیں کھائی کہ کھیلوں کی سرگرمیاں کیوں جاری ہے ہاں یہ کہا کرتے تھے کہ تعلیم پر توجہ دو. اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی .
مجھے وہ دن بھی یاد ہے کہ جب میری آٹھ سال کی بہن شائستہ امی کیساتھ چچا کے گھر سے آتے ہوئے سڑک پر حادثے کا شکار ہوکر فوت ہوگئی ‘
داجی گل ان دنوں گاڑی لیکر پشاور آتے ‘ انہیں ٹھیک کرتے اور پھر بیچ دیتے تھے ‘ انہیں بیٹی کی حادثے میں مرنے کی اطلاع ملی ‘ واپس ہوئے تو گائوں کے متعلقہ لوگ جن کی گاڑی سے میر ی بہن لگ کر جاں بحق ہوگئی تھی ‘ جرگے کی
صورت میں آئے تھے اور سب خاندان والے موجود تھے جب انہوں نے بات کی تو داجی گل نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی کہ ” جس نے دی تھی اس نے واپس لے لی ” اب اس پر کیا لڑنا جھگڑنا ‘ اور میں داجی گل کو دیکھتا رہ گیا.
گائوں سے پشاور کے کامرس کالج میں داخلے تک داجی گل نے ہمیں بہت ٹف ٹائم دیا ‘ ہر ہفتے تیس روپے ملا کرتے تھے مہینے کے ایک سو بیس روپے 1992 میں بڑی چیزتھی ‘
کیونکہ نسوار سگریٹ کی عادت الحمد اللہ داجی گل کی وجہ سے نہیں پڑی تھی ‘ باہر کھانے کی عادت ہمیں نہیں تھی ہاں اس وقت ویڈیوز گیمز کی دکانیں ہوا کرتی تھی اور ہرہفتے ہمیں گائوں جانا ہوتا تھا اس لئے فقیرآباد گورنمنٹ کالج چوک میں ویڈیو گیمز کی دکانوں میں کوائن لیکر سارے پیسے اڑاتے اور پھر گائوں جاکر اگلے ہفتے کیلئے خرچ لے آتے
اور یہ سلسلہ جاری رہتا ‘ یہ الگ بات کہ ایک دن داجی گل نے ہمیں ویڈیو گیمز کھیلتے دیکھ لیا تھا اور وہ مار پڑی تھی کہ اس کے بعد ویڈیو گیمز سے ہماری جان چھوٹی.
مجھے یاد ہے کہ کالج کے دوران ہی میں رمضان میں بیمار پڑ گیاتھا اور اس وقت خیبرٹیچنگ ہسپتال میں پورا مہینہ زیر علاج رہا ‘ مجھے تو صرف یہ یاد ہے کہ میرے ناک میں پائپ تھے اور اس کے ذریعے مجھے خوراک ملتی تھی اور میرے کپڑے بدلنے سے لیکر پیشاب صاف کرنے کی ذمہ داری میرے داجی گل نے لی تھی .
جو تقریبا ایک مہینے تک جا ری رہی ‘ اس دوران بھی میں جب بھی ہوش میں آیا تو داجی گل کو اپنے صفائی کرتا دیکھا یاپھر نماز پڑھتے دیکھا ‘ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ گائوں کے میرے کزن نے داجی گل کوکہہ دیا کہ آپ گائوں جائیں ہم اس کا خیال کرینگے اور میں مدہوشی کی عالم میں یہ سن رہا تھام کہ نہیں بیٹا میں نہیں چاہتا کہ میرے بیٹے کو کل کوئی خدمت کا طعنہ دے.میں اپنے بیٹے کا خود خیال کرونگا’
یہ داجی گل کی سوچ تھی ‘ کہ بڑے بیٹے کو کسی کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے.اے کاش ..
یہ داجی گل کی عزت تھی ان کا ڈر بھی تھاکہ 2001 سے لیکر 2007 تک کبھی ان کے سامنے نہیں بیٹھا حالانکہ ان دنوں وہ دل کے مریض تھے اور گھر میں ہی رہتے تھے ‘
کبھی ان کے سامنے کنگھی نہیں ‘ کبھی ان کے سامنے جانے کا اتفاق بھی ہوا تو پشتو زبا ن کے بقول ” ڈیر پہ اودس کے بہ ناست وو ٫” کبھی ان کے سامنے سے گزرنے کی ہمت نہیں ہوئی
ا ن کے پیچھے ہی جایا کرتے تھے حالانکہ بیماری کے باعث وہ بہت سست چلتے تھے.ہر وقت چپلیو ں کی پالش کرنے والے نئے جوڑے کیساتھ نیا چادر رکھنے کی عادت جو ہمارے گھر والوں میں کسی کے حصے میں نہیں آئی ‘
ہاں ایک عادت جو کہ کھانے کے دوران اپنی پلیٹ صاف کرنے کی عادت ہے جو الحمد للہ داجی گل سے ہم بھائیوں میں منتقل ہوئی جس پر فخر ہی کیا جاسکتا ہے .
بہت کچھ لکھنے کو دل کرررہا ہے بحثیت باپ ‘ بحیثیت بھائی اور بحیثیت شوہر سمیت بحیثیت بیٹے کے ہم نے اپنے داجی گل کوکچھ معاملات میں بہت زیادہ سخت پایا
لیکن یہ ان کی تربیت اور دعائوں کا اثر ہے کہ اللہ تعالی آج ہر طرح سے مہربان ہے .
لکھنے کیلئے بہت کچھ ہے لیکن کچھ یادیں ‘ کچھ باتیں اپنے داجی گل کے نام جنہیں سوچ کر ہمیں آج بھی محبت کا احساس ہوتا ہے .بے شک والد سخت ہوتے ہیں لیکن والد ہی وہ شخصیت ہوتی ہے جن کی چھاپ اپنے بچوں پر زیادہ ہوتی ہے اور وہ اپنے بچوں کی کامیابی کیلئے ہروقت دعاگو ہوتے ہیں.سو..اپنے والد ین کی قدر کیجئے ‘


25 سال سے قلم قافلے میں شامل مسرت اللہ جان نے پشاور یونیورسٹی کے آئی پی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ جرنلزم میں 2014 میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی ۔خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے واحد صحافی ہیں جنہوں نے ایشین کالج آف جرنلزم چنائی بھارت سے موبائل جرنلزم کی تربیت حاصل کی ،مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس صحافی کام کررہے ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھے ان کے کالمز تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں ،پاکستان فیڈریشن کونسل آف کالمسٹ کے صوبائی نائب صدر ہیں