مزمل احمد فیروزی
کراچی
ہمیں بچپن کے وہ دن ابھی تک یاد ہیں جب مہمانوں کی آمد پر ہم کولا ڈرنک کی شیشے والی بوتل دکان دار کے پاس لینے جاتے تھے اور وہ کہتا تھا کہ بقایا پیسے جب بوتل واپس لاؤ گے تب ملیں گے۔
اکثر و بیشتردکاندار رقم پیشگی لے کر بوتل دیا کرتے تھے اور بوتل واپس ملنے پر رقم واپس کیا کرتے تھے اس زمانے میں بوتل دس روپے کی اور اس کی پپیشگی پانچ روپے تک ہوا کرتی تھی۔
مگر جیسے جیسے وقت بدلتا گیا زندگی کے اطوار بھی بدلتے گئے۔ شروع شروع میں جب پلاسٹک کی بوتلیں آنا شروع ہوئیں تو ہم ان کو جمع کیاکرتے تھے اور گھر کے دیگر کاموں میں بروئے کار لایا کرتے تھے
مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہونے لگا او ر پھر ایک وقت ایسا آیا کہ کچرے میں سب سے نمایاں پلاسٹک کی بوتلیں ہی نظر آنے لگیں، بھانت بھانت کی پلاسٹک کی بوتلیں کسی میں کیچپ ہوتا تھا تو کسی میں شربت تو کسی میں پانی، ابتداء میں تو ان خالی بوتلوں کو کباڑے والا بھی نہیں خریدتا تھا اس لیے یہ کچرے میں اضافے کا سبب بننے لگیں
اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کو کچرے کا ڈھیر بنانے میں اہم کردار ادا کرنے لگی اسی کچرے کے باعث لوگ کراچی کو کچرانچی بھی کہنے لگے جو باعث تاسف ہے!
کچرے کی اگر بات کریں تو کراچی میں لاکھوں ٹن کچرا روازنہ کی بنیاد پر نکلتا ہے، اور کچرے میں بھی سب سے خطرناک پلاسٹک کا کچرا مانا جاتا ہے، پلاسٹک کے کچرے کو ”عالمی خطرہ” قرار دیا جاچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
- لیاری کی نئی شناخت کےلئے کوشاں مہرگھر کا منصوبہ کیا ہے ؟
- 10 رمضان المبارک ،سندھ کے دروازے پر اسلام کی دستک
- 20 پاکستانی کمپنیوں کا پاک آسٹریا انسٹیٹیوٹ کیساتھ تحقیق و مہارت میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
- پہاڑوں کی ننھی شہزادی 12 سالہ کوہ پیما سیلینہ خواجہ نیا عالمی ریکارڈ بنانے کی راہ پر گامزن
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ہر منٹ میں 15 ٹن پلاسٹک دنیا کے سمندروں میں پھینک دیا جاتا ہے، جو سمندری حیات کے لیے خطرے کا باعث ہے اوراسی وجہ سے کئی قسم کی سمندری حیات ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
بڑھتے ہوئے اس خطرے کی وجہ سے عالمی برادری پلاسٹک کی ری سائیکلنگ یا دوبارہ سے قابل استعمال بنانے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ یورپی کمیشن نے پلاسٹک سے بنی بوتلوں کو ری سائیکلنگ کی شرح 90 فی صد تک کرنے کے لیے 2029 کی تاریخ مقرر کی ہے
جبکہ ناروے میں پلاسٹک کی بوتلوں کی ری سائیکلنگ کی شرح 97 فی صد ہے۔ یعنی ناروے مقررہ تاریخ سے 10 سال قبل یہ ہدف حاصل کر چکا ہے۔کیونکہ ناروے میں سافٹ ڈرنک خریدنے کے بعد بوتل واپس وینڈنگ میشن میں ڈالنے پر اس عمل کی حوصلہ افزائی کے لئے لاٹری کا ٹکٹ بطور انعام صارف کو دیا جاتا ہے۔
ناروے کے بعد فرانس اور برطانیہ کا نمبر ہے جہاں 60 فی صد پلاسٹک بوتلیں ری سائیکل ہوتی ہیں۔ جبکہ امریکہ کی کچھ ریاستوں میں پلاسٹک کی خالی بوتلیں اور سافٹ ڈرنکس کے کینز مشین میں واپس جمع کرانے پر پیسے ملتے ہیں۔
امریکہ میں یہ نظام 1970کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھا، اس وقت امریکہ کی پچاس میں سے دس ریاستوں میں پلاسٹک کی بوتلوں کے حوالے سے قوانین موجود ہیں کہ جس میں عوام الناس کو خالی کینز اور پلاسٹک کی بوتلیں واپس کرنے پر صارف کو پانچ سے دس امریکی سینٹ فی عدد کے حساب سے دئے جاتے ہیں۔
امریکہ میں پلاسٹک بوتلیں واپس جمع کروانے کی شرح 90 فیصد ہے
امریکہ کی کئی ریاستوں میں پلاسٹک کی بوتل اور کینز واپس کرنے کا تناسب نوے فیصد تک ہے اور جن کمپنیز کی بوتلیں اور کینز ری سائیکل مشین تک نہیں پہنچتے تو وہ پیسہ کمپنی اس ریاست میں ہونے والے صفائی ستھرائی کے کاموں میں لگاتی ہے۔
بات یہاں یہ سمجھنے کی ہے کہ جو پیسے صارف کو واپس کئے جارہے ہیں وہ پہلے ہی مشروب کیساتھ بوتل کی مد میں وصول کرلئے گئے تھے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ نجی کمپنیاں شہر کی صفائی میں اپنا حصہ ملا رہی ہیں۔
بات یہاں یہ سمجھنے کی ہے کہ جو پیسے صارف کو واپس کئے جارہے ہیں وہ پہلے ہی مشروب کیساتھ بوتل کی مد میں وصول کرلئے گئے تھے۔جیسا کہ نوے کی دہائی میں ریگلولر ڈرنک جو کانچ کی بوتل میں ملتی تھی وہ سستی اور ڈسپوزل ڈرنک مہنگی ہوا کرتی تھی۔
یورپ کے بعد دوسرے ممالک نے بھی اس ضمن میں کام کرنا شروع کردیا اسی طرح ”ریورس وینڈنگ مشین” کی ایک ویڈیو گزشتہ برس ہمارے وزیراعظم عمران خان کو سنگاپور سے موصول ہوئی جس میں لوگ خالی بوتل ڈال کر کوپن حاصل کررہے تھے۔
جو انہوں نے معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم کو بھیجی اور ہدایات جار ی کی کہ اس حوالے سے کام کیاجائے پھر رواں برس کے آغاز میں معروف مشروب کمپنی نے وزیراعظم کے ”کلین گرین پاکستان پروگرام ”کے تحت پلاسٹک جمع کرنے اور ملک کے سب سے بڑے ری سائیکلنگ منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کی پہلی آزمائش شہر اقتدارمیں ہوئی۔
پاکستان میں پلاسٹک بوتل ری سائیکلنگ کا نظام متعارف کروائے جانے کا خوش آئند اقدام
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے والی” ریورس وینڈنگ مشین” اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون کی گول مارکیٹ میں نصب کی گئی جس میں کوئی سی بھی پلاسٹک کی خالی بوتل ڈالنے پر آپ کو ملے گا 100روپے کا کوپن جو اسلام آباد اور راولپنڈی میں کے ایف سی کی کسی بھی برانچ پر آپ کو سو روپے کا ڈسکاونٹ دلوائے گا۔

تفصیلات کے مطابق وقتا فوقتا اس کی لوکیشن تبدیل کی جائے گی تاکہ شہر کے ہر علاقے کے لوگ اس سہولت سے مستفید ہوسکیں اور جڑواں شہروں میں پانچ مذید مشینیں لگانے کی اطلاعات ہیں۔
گوکہ یہ ابھی ایک پائلٹ پراجیکٹ ہے جس کا ہدف دس ہزار ٹن پلاسٹک ری سائیکل کرنا ہے اگر یہ ہدف پورا ہوجاتاہے اور عوام اس ماحول دوست منصوبے کو کامیاب بناتے ہیں تو اسطرح کی مشینیں دوسرے شہروں میں بھی نصب کی جائیں گی۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ پلاسٹک ملٹی نیشنل کارپوریشنز استعمال کرتی ہیں،پلاسٹک کے خلاف عالمی تحریک ”بریک فری فرام پلاسٹک“ کی مہم باقاعدہ طور پر ستمبر 2016ء میں شروع ہوئی تھی جس کی کامیابی کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں 97 فیصد پلاسٹک کچرا صنعتوں کا پیدا کردہ
جہاں تک پلاسٹک عام شاپرز کا تعلق ہے تو اس کا حصہ مجموعی مصنوعات کے تناسب میں شاید دو یا تین فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا جب کہ باقی کا اٹھانوے 97 فیصد پلاسٹک کچرا ملٹی نیشنل کارپوریشنیز اور بین الاقوامی کمپنیوں کی مصنوعات کا پیداکردہ ہے۔
جن میں مشروبات اور پانی تیار کرنے والی کمپنیاں سرفہرست ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کام کرنے والوں کا کہنا ہے پلاسٹک کا ہزاروں لاکھوں ٹن کچرا انھی سے پیدا ہوتا ہے۔ ان کمپنیوں کو پابند بنایا جانا چاہیے کہ جتنا پلاسٹک کچرا وہ دنیا میں پھیلاتی ہیں اس کو صاف کرنے کی ذمے داری بھی ان پر عائد کی جانی چاہیے۔
پلاسٹک کے بے دریغ استعمال کے بارے میں رپورٹ منیلا میں تیار کی گئی ہے۔ واضح رہے چین‘ انڈونیشیا‘ فلپائن‘ ویتنام اور سری لنکا اپنا زیادہ تر پلاسٹک کچرا گہرے سمندروں میں غرق کرتے ہیں
اشتہارات پر کروڑوں اربوں روپے کے اخراجات لیکن تحفظ ماحولیات میں حصہ نہ ہونے کے برابر
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایشیا میں پلاسٹک کی مصنوعات برآمد کرنے والوں کے عالمگیر کارخانے یورپ اور امریکا میں قائم ہیں بالخصوص ان کے صدر دفاتر یورپ اور امریکا میں ہی ہیں۔پاکستان میں ایک بڑا منافع کمانے والی پانی و مشروبات کی کمپنیاں ہیں جو صرف اشتہارات پر کروڑوں روپے سالانہ خرچ کرتی ہے مگر حکومت کے ساتھ عوامی مفادات کے منصوبوں میں ان کا اشتراک اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
اگر ان مشروبات بنانے والی کمپنیز اور مینوفیکچرز کو پابند کیا جائے کہ وہ اس طرح کے منصوبے کا حصہ بنے کیونکہ بوتل کی قیمت جو وہ مشروب کے ساتھ وصول کرچکے ہوتے ہیں اگر پلاسٹک ری سائیکل کیلئے واپس کرتے ہیں تو آگے چل کر اس میں ان ہی کا فائدہ ہوگااور ان کو پلاسٹک بنانے کا خام مال کم نرخوں پر دستیاب ہوگا۔
مشروبات بنانے والی ایک کمپنی کی طرف سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام 2019 میں ترتیب دیا گیا تھا جو ایک معروف مشروب کمپنی اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اشتراک سے تھا جس میں عوام سے خالی بوتلیں لے کر انہیں انعامات دیئے گئے تھے جس سے خالی بوتلوں کی ری سائیکلنگ کو فروغ دیا گیا تھا اور عوام نے بڑی تعداد میں خالی بوتلیں اس” پلاسٹک ہٹ” میں لاکر جمع کروائی تھی۔

ضرورت اس امر کی ہے حکومت وقت ہنگامی بنیادوں پر اس منصوبے پرکام کرے اور تمام مشروبات بنانے والی کمپنیوں اور مینوفیکچرز کو اس نظام کا حصہ بنائے اور سردست پاکستا ن کے بڑے شہروں میں شاپنگ مالز اور سپر اسٹورز کے پاس ”ریورس وینڈنگ مشین” یا پھر ” پلاسٹک ہٹ” طرز کے کیمپپ لگائے جائیں
جہاں پر لوگ ہفتے میں ایک بار آکر اپنی خالی بوتلوں اور کینز کے عوض دوسری اشیاء لے سکیں یا پھر کچھ نقد رقم دی جائے۔اگر اس نظام کو ایک منظم طریقے سے نافذ کیا جائے تو ہم ماحول کے بچاؤ اور اس کی بحالی کیلئے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
تحفظ ماحولیات سندھ تاحال ٹک ٹک دیدم کی مثال
ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ نے بھی پلاسٹک کے کچرے سے متعلق کوئی خاص حکمت عملی نہیں اپنائی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ پلاسٹک کے کچرے کا ” جن”بے قابو ہے۔ماہرین کے مطابق پلاسٹک کی بوتلوں کی وجہ سے زہریلے کیمیکل مٹی میں داخل ہوجاتے ہیں جو زمین اور پانی کو آلودہ کردیتے ہیں
پلاسٹک کی بوتلوں کو ری سائیکل کرنا ایک بہترین عمل ہے کیونکہ پلاسٹک کے ذرات ہزاروں سال تک زمین میں رہ سکتے ہیں۔پلاسٹک کی بوتلوں کی ری سائیکلنگ کی وجہ سے لینڈ فلز میں کچرا کم ہوگا،
قدرتی وسائل کا تحفظ اور گرین ہاوس گیس کا اخراج کم ہوپائے گا جبکہ توانائی کے تحفظ اور آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔ ری سائیکلنگ کا عمل سڑکوں اور گلی محلوں میں بھی گندگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا
جبکہ فضائی آلودگی میں کمی آئے گی۔ اگر اس طرح کے منصوبوں میں نجی کمپنیوں کی ذمہ داری لگائے اور عوام ساتھ دیں توہم سب مل کر پاکستان میں ماحول کی آلودگی کو ختم کر سکتے ہیں۔