محمود فیاض
آج میری شادی کو اکیس سال ہو گئے ہیں۔ شادی کو ایک سال پورا ہوا تو میں ابو کے پاس گیا اور ایک رنگروٹ کی طرح تن کر زبردست سیلوٹ کیا۔ ۔ اور کہا
ابو سلام ہے آپ کو ۔ ۔ جیسے میں نے ایک برس گزارا ہے آپ نے سینتیس سال گزار دیے۔ ۔ ۔
ابو ہنس کر خاموش ہو گئے ۔ وہ اپنی "کرماں والی” سے ڈرتے جو بہت تھے۔
بیچ کے بیس سالوں کی کہانی تو پھر سہی، مگر اکیس سال بعد مڑ کر دیکھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس رشتے میں رس پہلے دوسرے سال میں نہیں پڑتا، بلکہ موسموں، طوفانوں، اور برساتوں اور پت جھڑوں کے اپنے اوپر جھیل لینے کے بعد اصل رفاقت کا مزہ ملنے لگتا ہے۔
آنکھ کھلی تو خود کو ابا کے سینے سے چمٹے ہوئے دیکھا…
ساگر جو آخریںدم اپنے گائوںکی ندی میںاترجانے کو ترستا رہا
آج شادی کے بائیسویں سال میں مجھے ابو اور انکی "کرماں والی” اور دادا ابو اور انکی "غلام فاطمہ” کی رفاقتوں کا کچھ کچھ رس محسوس ہونے لگا ہے۔ ۔
برسوں پرانا رشتہ اور پیڑ دونوں کی چھاؤں گھنیری ہوتی جاتی ہے۔ ۔ ۔ مگر اسکو ایک سال کے پودے سے پیڑ بنانے کا حوصلہ دونوں ساتھیوں میں ہونا چاہیے۔
میری منگنی ہوئی تو دادا جی نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر کہا، میں نے تمہارا ساتھی دیکھا ہے، تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ یہ لڑکی کبھی تمہیں شکست نہیں ہونے دے گی۔ ۔ ۔ تب میں دادا جی کی بات کو سمجھ نہ پایا۔
پچھلے بیس برسوں میں ہر موقع پر جب میں کسی مقابلے میں گرنے لگتا، میری ساتھی جن کی طرح میدان میں آتی اور مجھے زندگی کے باکسنگ رنگ سے بچا رفاقت کے ریسٹ کارنر میں لے جاتی۔ ۔ ۔ تب تب مجھے دادا ابو کی یہ بات یاد آتی کہ یہ لڑکی تمہیں کبھی شکست نہیں ہونے دے گی۔
ان بیس برسوں میں ایک آدھ موقع ایسا بھی آیا ہوگا کہ میں اپنی بیوی کے لیے سپر مین بن گیا اور اسکو مشکل سے نکال لایا، مگر بیسیوں دیگر مواقع پر وہ سپر وومن بن کر مجھے بچا لے گئی۔
زندگی کے اسکوربورڈ پر ایک بیس کے اسکور سے وہ مجھ سے جیت گئی۔ ۔ ۔ مجھے نہیں لگتا باقی زندگی میں میں اسکو برابر کر سکوں گا۔ ۔ ۔ اس لیے اب میں اپنی "کرماں والی” سے دب کر رہتا ہوں۔
دیس فرنگ سے صحافت کی سند پانے والے محمود فیاض لکھنے پڑھنے کا شغل رکھتے ہیں ،سوشل میڈیا کے میدان پر کھل کر کھیلتے ہیں ، سیاست سمیت تمام موضوعات پر طبع آزماٸی کرتے ہیں ۔