آزادی ڈیسک
روسی وزیر خارجہ کا دورہ السلام آباد اور مخدوم شاہ محمود قریشی کی چھتری موضوع بحث
افغان جنگ کے دوران ایک دوسرے کے حریف سمجھے جانے والے پاکستان اور روس کے دوران حالیہ سالوں کے دوران کافی قربت دیکھنے میں آرہی ہے ،اور نو سال بعد روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف پہلی بار پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچے
جہاں ہوائی اڈے پر ان کے پاکستانی ہم منصب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ان کے کا استقبال کیا،
عمران بنام نریندرا مودی ،وزیر اعظم نے خط میں کیا لکھا؟
ترکی سے جنگی ہیلی کاپٹروںکی خریداری پرامریکی پابندی اورنئے امکانات
اگرچہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق دوطرفہ ملاقاتوں اور بات چیت کا اصل محور و مرکز تو افغانستان امن عمل ہے
لیکن سرگئی لاروف کے پاکستان میں اترتے ہی شاہ محمود قریشی اصل موضوع کے بجائے سوشل میڈیا کا عنوان بنے ہوئے ہیں جہاں ان کے حامی و ناقدین ان کی چھتری پر نکتہ اعتراض اٹھائے نظر آتے ہیں
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف پاکستانی ہم منصب کیساتھ ملاقات کے علاوہ اعلیٰ پاکستانی قیادت سے بھی ملے
شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات کے بعد انہوں نے کہا ہمیں افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر تشویش ہے ،بالخصوص ملک میں داعش کی بڑھتی ہوئی موجودگی پر
انہوں نے کہا پاکستان اور روس افغانستان کی متحارب جماعتوں کے درمیان امن معاہدہ کیلئے ہر ممکن تعاون پر پر تیار ہیں تاکہ افغانستان میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوسکے
اس کے علاوہ ہم نے مارچ 2018 میں ہونے والے ماسکو سہ فریقی مذاکرات کے حوالےسے بھی بات چیت کی اوراگلے ممکنہ مذاکرات کیلئے دونوں طرف کی سفارتی کوششوں کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے
اس سے قبل ایک اخباری انٹرویو میں روس کے وزیر خارجہ نے کہا افغانستان کے معاملے پر پاکستان اور روس کی سوچ میں کافی مماثلت ہے
واضح رہے کہ روسی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان ایسے وقت میں ہورہا ہے جبکہ واشنگٹن اور طالبان
کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی انخلاء کی تاریخ قریب آرہی ہے ،لیکن اس کے باوجود افغانستان میں تشدد بڑھ رہا ہے
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوحا میں براہ راست مذاکرات کے باوجود امن کا عمل سست اورتشدد میں اضافہ ہوا ہے
اس سے قبل روس کی میزبانی میں مارچ 2018 میں مذاکرات ہوئے جس میں افغان حکومت ،طالبان کے علاوہ پاکستان ،چین اور امریکہ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی
دورے میں اور کیا شامل ہے ؟
افغانستان کے علاوہ روس پاکستان کے ساتھ دفاعی و تجارتی تعلقات بھی بڑھانے کا خواہاں ہے
سرگئی لاروف جو کہ گذشتہ نو سال کے دوران پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے وزیر خارجہ ہیں نے کہا
دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون بڑھانے پر بھی بات چیت ہوئی ہے اور روس پاکستان کو فوجی سازوسامان دینے کا خواہاں ہے
انہوں نے کہا ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں ،اوراس سلسلے میں پاکستان کی استعداد بڑھانے کیلئے ہر ممکن تعاون پر تیار ہیں اور یہ خطے کے تمام ممالک کے لئے فائدہ مند ہوگا اس کے علاوہ دو طرفہ تجارت کو بڑھانے بھی دونوں ممالک کی سرفہرست ترجیح ہے
جبکہ روس پاکستان میں بڑے تعمیراتی منصوبوں میں بھی شامل ہے ،
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا حالیہ سالوں کے دوران دو طرفہ تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے ،بالخصوص تجارت اور توانائی کے شعبوں میں ،جبکہ دونوں ممالک نے کراچی اور لاہور کے درمیان بچھائی جانے والی گیس پائپ لائن پر کام شروع کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ،اس منصوبے پر 2015 میں دستخط ہوئے تھے تاہم عملا یہ منصوبہ تعطل کا شکار رہا ،لیکن شاہ محمود قریشی کے بقول حالیہ بات چیت میں اس منصوبے کے حوالے سے بہت سی مشکلات دور ہوئی ہیں
دوسری جانب روس کے وزیر خارجہ نے بتایا کہ روس نے پاکستان کو روسی ساختہ 50 ہزارکووڈ ویکسین فراہم کردی ہیں ،جبکہ مزید ڈیڑھ لاکھ ویکسین جلد فراہم کردی جائیں گی اس کے علاوہ مقامی سطح پر روسی ویکسین کی تیاری کے حوالے سے بھی دونوں ممالک کےدرمیان بات چیت ہوئی ہے
شاہ محمود قریشی کی چھتری پر اعتراض کیوں ؟
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کی پاکستان آمد پر ہوائی اڈے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ان کا پرجوش خیرمقدم کیا ،لیکن اس منظر کی ویڈیو سامنے آنے پر سوشل میڈیا پر ایک نیا طوفان بپا ہوگیا
کیوں کہ اس ویڈیو اور تصاویر میں ماضی کی ایک سپر پاور اور اب بھی عالمی سیاست کے اہم کھلاڑی کے وزیرخارجہ نے بارش سے بچنے کی لئے جہاز سے اتر کر گاڑی پر بیٹھنے تک اپنی چھتری خود پکڑ رکھی تھی
لیکن اس کے برعکس پاکستانی وزیر خارجہ پر ایک اہلکار سارے وقت چھتری اوڑھے رہا اور ان کے پیچھے چلتا رہا
اس رویے کو بہت سے صارفین نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر اچھی خاصی بحث ہوتی رہی
کسی نے نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا تو کسی نے ایک مقروض ملک کے امیر حکمرانوں کا رویہ سے اسے تشبیہ دی