آزادی نیوز
پاکستان افغانستان کے اندرونی مسائل کا ذمہ دار نہیں ،جب کبھی معاملات افغان قیادت سنبھالے نہیں جاتے تو وہ پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے اسے قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کرتے ہیں
افغان نیوز چینل طلوع نیوز کے ساتھ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میزبان کے پاکستان میں طالبان کی موجودگی اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا
یہ صرف ایک مبالغہ آرائی ہے
بدقسمتی سے جب افغانستان میں معاملات درست سمت میں نہیں جارہے ہوتے تو انہیں (اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے )قربانی کے ایک بکرے کی ضرورت ہوتی ہے اور جو پاکستان کو بنادیا جاتا ہے ۔جب کبھی افغانستان کو اپنے اندرونی مسائل میں ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیتے ہیں
یہ بھی پڑھیں
- حقیقی اسلامی نظام کا نفاذ ہی افغانستان کے مسائل کا حل ہے ،طالبان
- ایرانی انتخابات میںقدامت پسند قیادت کی فتح اور دنیا کا ردعمل
- ڈرون حملوںکیلئے پاکستان کے انکار کے بعد امریکا کے پاس متبادل کیا ہے ؟
- ماضی کو بھول جائیں ،اب پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے
شاہ محمود قریشی نے کہا اگر امن مذاکرات کیلئے افغان قیادت ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتی تو اس ناکامی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے
وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا طالبان کی زیادہ ترقیادت پاکستان میں نہیں تھی لیکن اس کے باوجودانہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے اور امن عمل کیلئے ہم نے ہر ممکن تعمیری اور مثبت کردار ادا کیا
دنیا ہمارے اس کردار کو سمجھنا اور تسلیم کرنا شروع ہوچکی ہے ،لیکن افغان قیادت میں بعض لوگ پاکستان کے مثبت کردار کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام ہی پاکستان کے مفاد میں ہے
آگے بڑھنے کیلئے ماضی سے نکلنا ہوگا
جب میزبان نے ان سے ایک بار پھر طالبان کو پاکستان کی جانب سے مالی مدد فراہم کرنے کے حوالے سے سوال دوہرایا تو وزیر خارجہ نے کہا آپ ایک پرانی سوچ میں پھنسے ہوئے ہیں ۔برائے مہربانی اس سوچ سے باہر نکلیں ۔لیکن اگر آپ اسی سوچ کے اسیر رہیں گے تو مجھے یقین ہے کہ آپ طویل سفر نہیں کرسکیں گے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ دور تک جائیں
شاہ محمود قریشی نے اپنے انٹرویو میں ایک بار پھر زور دیتے ہوئے کہا پاکستان ایک خوشحال ،پرامن اور مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے ،کیوں کہ ایسا افغانستان ہی خطے میں تجارت اور روابط بڑھانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے ۔اور ایسا صرف امن کے ذریعے ہی ممکن ہے
انہوں نے مزید کہا ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ پاکستان کچھ افغان دھڑوں پر توجہ دے رہا ہے ،لیکن حقیقت میں افغانستان اور تمام افغانوں کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں
وزیر خارجہ کا پاک افغان امن منصوبہ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہنا تھا دونوں ممالک اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان کچھ مسائل موجود ہیں ،جو ہمیشہ رہیں گے ،لیکن اس کے باوجود ان کے خاتمے کیلئے ادارہ جاتی میکنزم کی ضروت ہے ۔
انہوں نے مزید کہا افغان سیکورٹی اداروں کو تربیت فراہم کرنا ہمارے لئے خوشی کی بات ہوگی ۔لیکن ابھی تک افغان قیادت نے ہماری اس پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ہم یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہم بہتر مدد کرسکتے ہیں ،ہم ایک جیسی زبان بولتے ہیں اور اس کے علاوہ ہماری بہت سی قدریں مشترک ہیں
طالبان بھی امن کے خواہاں
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یقین ظاہر کیا کہ کئی سالوں سے مسلسل حالت جنگ میں رہنے اور نقصانات کے بعد طالبان بھی امن کے خواہاں ہیں ۔لیکن افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کا ذمہ دار صرف طالبان کو ہی قرار دینا بھی مبالغہ ہوگا ۔کیوں کہ اس میں داعش اور کچھ افغان عناصر کا بھی کردار ہے
جب میزبان نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ طالبان کے بزور طاقت قبضے کے خلاف ہیں ؟
تو شاہ محمود قریشی نے کہا ہم نے کبھی بھی کابل پر بزورطاقت قبضہ کی حمایت یا وکالت نہیں کی
امریکی انخلاء کے بعد کی ممکنہ صورتحال کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا ،پاکستان مستقبل میں امن عمل اور افغانستان کی تعمیر اور انسداد دہشت گرد کے حوالے سے کردار ادا کرنے کا خواہشمند ہے ،تاہم پاکستان امریکہ کو فضائی اڈے فراہم نہیں کریگا
تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ایک تقریر میں اسامہ بن لادن کو شہید قراردیا تھا تو وزیر خارجہ نے کہا وزیر اعظم کا یہ بیان کچھ ذرائع ابلاغ نے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا
پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال تشویشناک ہے
پشتون تحفظ موومنٹ کے گرفتار ہونے والے رہنمائوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا پی ٹی ایم کو پاکستان کی پارلیمنٹ نمائندگی حاصل ہے ،لیکن اگر کوئی قانون توڑے گا تو اسے گرفتار کیا جاسکتا ہے
افغانستان بھارت تعلقات کے حوالے سے شاہ محمود نے کہا دونوں ممالک کو دوطرفہ تعلقات استوار کرنے کا حق ہے ،لیکن پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کیلئے افغانستان کی سرزمین کا استعمال قابل تشویش ہے اور اس ہمارے اس دعوے کے ہمارے پاس معلومات موجود ہیں