احمد کمال ،اسلام آباد
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کیساتھ جنگ بندی کےمعاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے ،البتہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ ٹی ٹی پی ایک تنظیم کے طور پر امارت اسلامیہ کا حصہ ہیں اور نہ ہی ہمارا اہداف ایک جیسے ہیں
انہوں نے پاکستانی طالبان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ملک میں امن واستحکام پر توجہ دیں اور پاکستان میں دشمن قوتوں کی مداخلت کے کسی امکان کو ختم کریں ۔ ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان حکومت سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ ملک اور خطے کی بہتری کیلئے تحریک طالبان کے مطالبات پر غور کریں ۔
جبکہ سوشل میڈیا کی مختلف ویب سائٹس پر زیر گردش ٹی ٹی پی کے امیرنور ولی محسود کی ایک ویڈیو جس میں اپنے حامیوں سے خطاب کررہے ہیں ،میں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان امارت اسلامیہ کی ایک شاخ ہیں ،اپنی سرزمین پر اس چھتری کا حصہ ہیں ،اگر آپ اسلامی نظام کے خواہاں ہیں تو اس کیلئے چند اسباب کی ضرورت ہے ،ان میں سب سے بڑا سبب اجتماعیت ہے ،تحریک طالبان پاکستان اجتماعیت کا نام ہے ،طالبان پاکستان کا وجود ،اس کا منشور اعلائے کلمۃ الحق کیلئے سامنے آیا ہے ،ہم پاکستان میں اللہ کا نظام قائم کریں اور اس کے مقابلے میں جو باطل نظام جسے جمہوریت کا نام دیا گیا اس کے خلاف جہاد کریں
واضح رہے کہ نومبر میں پاکستان حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کیساتھ ایک ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق ہوچکا ہے جس میں فریقین کی باہمی رضامندی سے توسیع ہوسکتی ہے
یہ بھی پڑھیں
- تحریک لبیک اور حکومتی معاہدہ ،اپنوں کا خون بہانے سے گریز
- افغانستان،طالبان اور داعش کی تکون اورخطے کیلئے طویل مدتی خطرات
- دنیاافغانستان کے حالات پر پاکستان کو الزام نہ دے ، عمران خان
البتہ گذشتہ روز سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز میں تحریک طالبان کے ذمہ داروں نے حکومتی رویے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے جنگ بندی کے معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا
ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے جمعرات کو جنگ بندی میں توسیع سے انکار کرتے ہوئے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ حکومت پاکستان طے پانے والے معاہدے کے کچھ حصوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور افغان سرحد پر صوبہ خیبر پختونخوا میں ان کے ٹھکانوں پر چھاپے و گرفتاریاں جاری ہیں۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے گذشتہ ماہ اعتراف کیا تھا کہ افغان طالبان پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں تاہم ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا ’اندرونی معاملہ‘ ہے۔
انہوں نے کہا: ’اسلامی امارات کا موقف ہے کہ ہم دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ ہم پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔‘
واضح رہے کہ 2007 سے پاکستان میں دہشت گردی کی درجنوں کاروائیوں میں ملوث کالعدم تحریک طالبان اور حکومت کے درمیان 9 نومبر کو ایک ماہ کیلئے جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا ۔
لیکن یہ مدت مکمل ہونے کے بعد کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا موجودہ حالات میں جنگ بندی پر کاربند رہنا ممکن نہیں رہا
حکومت نے 102 جنگجوئوں کو رہا نہیں کیا ،محمد خراسانی
کیوں کہ حکومت پاکستان کیساتھ جن ابتدائی چھ نکات پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا ،حکومت انہیں پورا کرنے میں ناکام رہی ،کیوں کہ معاہدے میں تحریک طالبان کے 102 اراکین کی رہائی کی یقین دہانی کروائی گئی جو پوری نہیں ہوئی ،اس کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں لکی مروت ،سوات ،باجوڑ ،دیر اور صوابی سے تحریک کے مزید جنگجوئوں کی گرفتاریاں کی گئی ہیں جو کہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے
کالعدم تنظیم اور حکومت کے درمیان جنگ بندی کا اعلان اس وقت ہوا تھا جب افغانستان پر 20 سال بعد دوبارہ طالبان کی حکومت قائم ہوگئی تھی اور امریکہ و یورپ کی چھتری تلے قائم افغان حکومت ایک ماہ سے بھی کم وقت میں زمین بوس ہوگئی تھی

تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کو ایک دوسرے کا قریبی حلیف اور نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے قریب تصور کیا جاتا ہے ،تاہم دونوں کی اندرونی تنظیمی ساخت طریقہ کار مختلف ہے ۔
دوسری جانب 2001 میں افغانستان پر امریکی جارحیت اور نئے سیٹ اپ کی تشکیل کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے پاکستان کو افغان طالبان کی جدوجہد اور مزاحمت کی وجہ قرار دیا جاتا رہا ،جس کی پاکستان نے ہمیشہ تردید کی
حالیہ پیش رفت کے بارے میں دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے جنگ بندی اور مذاکرات ہمیشہ سے جنگی حکمت عملی کا حصہ رہے ہیں ،اگرچہ اس سے نہ تو کالعدم تنظیم کا مکمل خاتمہ ممکن ہے اور نہ جنگ کا ۔
یادرہے کہ 2007 میں اپنے قیام کے بعد سے کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی کی کئی بڑی کاروائیاں کی ،جن میں خودکش حملوں میں سیاسی شخصیات ،سیکیورٹی اہلکاروں سمیت عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا