محمد صداقت حسن
ہریپور
اگرچہ حکومت اور حزب اختلاف کے مابین آئندہ انتخابات میں الیکٹرونک ووٹنگ نظام کے حوالے سے تاحال اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا ۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کو مستقبل میں ای ووٹنگ نظام رائج کرنے کی دعوت کو بھی تاحال پذیرائی نہیں مل سکی ۔
کیوں کہ اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ ای نظام پاکستان کے سیاسی نظام کیلئے شاید ابھی اتنا مستند اور کامیاب ثابت نہ ہو ۔
لیکن اس کے باوجود وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے مختلف کمپنیوں سے ای ووٹنگ مشینوں کی تیاری کے حوالے سے رابطہ کیا ہے
تاہم حیرت انگیز طور پر ملک میں ٹیلی کام سیکٹر کے اولین ادارے ٹیلی فون انڈسٹریز آف پاکستان (ٹی آئی پی )کا نام ان اداروں کی فہرست میں شامل نہیں ہے ،حالانکہ اس ادارے کی جانب سے ملک میں پہلی بار الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کی تیاری اور کارکردگی کا انتہائی کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے
یہ بھی پڑھیں
ضلع ایبٹ آباد کے ایک گائوںکی رمضان المبارک کے حوالے سے صدیوںقدیم روایت جو آج بھی زندہ ہے
ہریپور،انصاف مانگنے کی پاداش میں مقتول صحافی کی بہن بھی قتل
دو مئی 2011 کی روداد ،صحافیوں کی زبانی
لیکن آئندہ انتخابات کےلئے ای مشینوں کی تیاری کیلئے جن کمپنیوں کی فہرست تیار کی گئی ہے ان میں ٹی آئی پی کا نام شامل نہیں ۔
اگرچہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی ای ووٹنگ نظام کے رائج کرنے کیلئے 2011 سے اس منصوبے پر کام کررہی ہے ۔لیکن عین وقت پر سابق وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور موجودہ وزیر شبلی فراز کے ذریعے مختلف نجی و غیر سرکاری کمپنیوں سے ای مشینوں کے نمونے طلب کئے گئے ہیں
ٹی آئی پی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ٹی آئی پی نے اپنی تیارکردہ ای مشینوں کی کارکردگی کا کامیاب تجربہ 2012 میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ضمنی انتخابات میں کیا تھا
بعدازاں قومی اسمبلی کی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی نے بھی ان مشینوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد انہیں انتہائی مستند اور موزوں قرار دیا تھا
ٹی آئی پی کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر جاوید صفدر کا دعویٰ ہے کہ 2012 میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ضمنی انتخابات میں ٹی آئی پی کی تیارہ کردہ ای مشینوں نے سوفیصد نتائج دیکر اپنی کارکردگی کو ثابت کیا تھا
انہوں نے کہا ٹی آئی پی ضرورت کے مطابق مشینوں کی تیاری کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے ۔ان کی قیمت انتہائی موزوں ہے ،اور اس میں ضرورت کے مطابق ردوبدل کی مکمل صلاحیت موجود ہے ،جس کے تحت امیدواروں کی تعداد 16 سے لیکر 128 تک بڑھائی جاسکتی ہے
اس کے علاوہ یہ مشینیں انتہائی محفوظ ہیں ،جن میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت کا امکان موجود نہیں ،جو ایک ساتھ تصدیق ،بیلیٹ پرنٹنگ اور قومی شناختی کارڈ اور بائیو میٹرک تصدیق تینوں مراحل کو مکمل کرسکتی ہے ،جس سے دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں
ای مشینوں کی تیاری کے منصوبے کے سابق انچارج اور سابق ڈپٹی جنرل منیجر فنانس طاہر عتیق صدیقی نے بتایا کہ 2013۔میں الیکشن کمیشن نے ٹی آئی پی کو 100 مشینیں تیار کرنے کا ورک پلان تشکیل دینے کو کہا ،لیکن بعدازاں منصوبہ پر نامعلوم وجوہات کی بنا پر کام نہ ہوسکا ۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ الیکشن کمیشن اور نادار کے سامنے ای مشین کا مظاہرہ کیا جس میں اس مشین کو تیکنیکی اور لاگت کے لحاظ سے انتہائی موزوں قرار دیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کیونکہ یہ سوفیصد مقامی سطح پر تیار کردہ ہیں جن کی لاگت انتہائی کم ہے ،اور فی یونٹ قیمت 30 سے 34 ہزار روپے تک ہے ،اس لئے ضروری ہے کہ ان مشینوں کی تیاری کے حوالے سے ٹی آئی پی کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کیا جائے ۔
تاکہ ایک طرف مقامی صنعت کو سہارا ملے اور دوسری جانب خسارے کا شکار ادارہ منافع کی طرف جاسکے،چونکہ یہ ایک بڑا منصوبہ ہے جس کے تحت لاکھوں مشینیں تیار ہوں گی اور اگر یہ منصوبہ ٹی آئی پی کے حوالے کیا جاتا ہے تو اس سے انحطاط کے شکار ادارے کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا موقع مل سکے گا
تاہم اس بارےمیں جب ٹی آئی پی کے منیجنگ ڈائریکٹر تیمور خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ای وی ایم منصوبے کی جزئیات کے حوالے سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں ۔تاہم وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دستاویزات کے مطابق ٹی آئی پی کی موجودہ مشینری اور افرادی قوت ای وی ایم کی مطلوبہ تعداد کو تیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی
جب ان سے ادارے کی ویب سائیٹ پر موجود ای وی ایم کی صلاحیت کے دعوئوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا وہ ان معلومات کا جائزہ لیں گے۔البتہ ان کا کہناتھا کہ حکومت ٹی آئی پی کی تجدید اور اسے مزید فعال بنانے کے منصوبے پر کام کررہی ہے ۔
اور ادارے کو پبلک پرائیویٹ اشتراک کے تحت چلانےکیلئے بین الاقوامی سطح پر ٹینڈر رواں ماہ جاری کیا جائے گا۔تاہم انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ای وی ایم مشینوں کی تیاری کا منصوبہ پیپلز پارٹی دور میں ادارے کو فعال بنانے کیلئے تیار کیا گیا تھا
اس سلسلے میں ٹی آئی پی ایمپلائز اینڈ ورکز یونین کےجنرل سیکرٹری عثمان شیرازی نے کہا کہ ٹی آئی پی قومی سطح کا ادارہ ہے جس کی ترقی و بحالی کیلئے صوبائی و مرکزی قیادت کو مل کر کردار ادا کرنا چاہیے ۔
اور اگر ای وی ایم کا منصوبہ بھی اس ادارے کو دیا جاتا ہے جو نہ صرف مکمل تکینکی اور افرادی قوت کا حامل ہے تو اس سے نہ صرف مشکلات کا شکار ادارہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکے بلکہ اس سے ملازمتوں کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
ان حالات میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی جو کہ ٹی آئی پی کی نگراں بھی ہے اس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ادارے کے مفادات کا تحفظ کرے
واضح رہے کہ 50 کی دہائی میں جرمن ادارے سیمنز کے اشتراک سے قائم ہونے والا عالمی شہرت یافتہ ادارہ ٹی آئی پی چند سال قبل تک ٹیلی فون سیٹ ،بجلی کے میٹر ،ڈیجیٹل ایکسچینج اور اس کے پرزے تیار کرنے کی 90 فیصد ضروریات پوری کررہا تھا ۔جہاں مختلف منصوبوں پر پانچ ہزار سے زائد ملازمین کام کررہے تھے،لیکن حالیہ سالوں کے دوران ادارہ کئی وجوہات کی بنا پر مسلسل انحطاط کا شکار ہے ۔