6 اگست سے طالبان کی افغانستان میں شروع ہونے والی پیش قدمی کو حیرت انگیز طور پرکابل میں اختتام پذیر ہوئے آج ایک ہفتہ مکمل ہوچکاہے ۔دنیا اور بالخصوص مغربی ممالک اور ان کے ذرائع ابلاغ کے دکھائے طالبانی تصور اور تصویر حقیقت میں اتنی مختلف نکلی کہ اب کے تمام ترتبصرے اور تجزیہ صرف اور صرف مفروضوں تک محدود دکھائی دیتے ہیں
کابل میں طالبان کی واپسی کو ایک ہفتہ مکمل ہوچکا ہے ،شمالی اتحاد کی محدود سے حصے کے سوا افغان سرزمین کی زیادہ تر سیاسی و عسکری شخصیات یا تو طالبان کی صفوں میں شامل ہوچکی ہیں یا مذاکرات کا عمل جاری ہے جس سے امید یہی ہے کہ طالب قیادت اب بندوق سے زیادہ بات کو بہتر اور پائیدار حل سمجھنے لگی ہے
جو کہ طویل عرصہ سے جنگ اور خانہ جنگی کے شکار ملک کے لئے نیک شگون اور پائیدار امن کیلئے امید کی کرن ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تادم تحریر طالبان کا طرز عمل سمجھداری پر مبنی نظر آیا تاہم مغربی دنیا اور اس کے زیر اثر ذرائع ابلاغ جو بڑے پیمانے پر خون ریزی اور خانہ جنگی کی پیشن گوئیاں کررہے تھے اپنے اندازوں اور تخمینوں کے غلط ثابت ہونے پر افواہ سازی کے کارخانہ بن کررہ چکے ہیں
بالخصوص چند بین الاقوامی میڈیا اداروں کی تمام تر رپورٹنگ اور خبریں زمینی حقائق سے دور مستقبل کے ان دیکھے خدشات اور مفروضوں پر مبنی ہے جس کے زیر اثر مایوسی کا شکار نوجوان افغان نسل ہیجان کاشکار ہو رہی ہے ،جس کی واضح مثال گذشتہ ایک ہفتے کے دوران کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے اردگرد کے مناظر ہیں
جہاں اب تک ڈیڑھ درجن کے قریب افراد گولیوں اور بھگڈر کا نشانہ بنتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جن میں معصوم بچے اور نوجوان مردوخواتین بھی شامل ہیں اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے ،جس کی بنیادی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا مبہم اور غیر واضح رویہ شہریوں کوایئرپورٹ کی طرف لے جانے کا باعث بن رہا ہے
یہ بھی پڑھیں
- کابل انتظامیہ کا نوشتہ دیوار اور ملاہیبت اللہ بمقابلہ جنرل ہیبت اللہ
- طالبان اورترکی معاملات کیا نہج اختیارکرسکتے ہیں؟
- مہربہ لب کیوں ہو ؟
- داستان اردو،بزبان اردو
کیوں کہ ان ممالک کی جانب سے بارہا اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ افغان شہریوں کو وہاں سے نکالنے میں مدد دیں گے ،لیکن ابھی تک کوئی واضح طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا کہ کون امریکہ یا یورپی ممالک جانے کا اہل ہے اور کون نہیں
جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں نوجوان مردوخواتین طالبان کے خوف سے زیادہ بہتر مستقبل کیلئے ایئرپورٹ کی جانب رواں دواں ہیں ،جہاں نہ تو کوئی انتظامات موجود ہیں اور نہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کیلئے سہولتیں دستیاب ہیں ۔جس کی وجہ سے ہر جانب افراتفری اور بے یقینی کا عالم ہےاس پر مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا اور خلاف حقائق واقعات کی رپورٹنگ جلتی پر تیل کا کام کررہی ہے
علاوہ ازیں کابل کے ہوائی اڈے کے علاوہ چندروزقبل افغانستان کے یوم آزادی کے موقع پر قومی پرچم کے حوالے سے جو صورتحال پیدا ہوئی تھی وہ بھی تقریباً اب دم توڑ چکی ہے ،حالانکہ بین الاقوامی میڈیا نے ان واقعات کو طالبان کے خلاف عوامی بغاوت کا رنگ دینے کی پوری کوشش کی لیکن یہ کوشش زیادہ کامیاب ثابت نہ ہوسکی
جہاں تک افغانستان کے سیاسی مستقبل کا سوال ہے تو اس حوالے سے طالبان کا روزاول سے واضح اور ٹھوس موقف سامنے آچکا ہے کہ وہ امارات اسلامیہ کے قیام سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹ سکتے تاہم اس میں معاشرے کے دیگر عناصر کو کیسے ساتھ چلنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے اس پر گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ اگلے ہفتہ دس روز میں صورتحال واضح ہوجائے گی
سارے منظرنامے میں دنیا کی بڑی طاقتوں اور پڑوسی ممالک کے کردار کا تعلق ہے تو صاف اور واضح دکھائی دیتا ہے کہ کل تک جو ممالک افغانستان پر جارحیت کے وقت امریکہ کے کاندھے سے کاندھا ملا کر ایک کمزور اور بے بس ملک پر چڑھ دوڑے تھے
آج ان کی ساری توجہ صرف اور صرف اپنے شہریوں کو وہاں سے نکالنے پر مرکوز ہے افغان شہری کس حال میں ہیں انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی ان کے حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی موجود ہے
مشکل ترین صورتحال میں پاکستان کے مدبرانہ کردار کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی ،جس کی قیادت نے اب تک افغانستان میں تصادم کے ہر ممکنہ امکان کو ختم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ،گذشتہ ہفتے کے دوران شمالی اتحاد کا اہم وفد پاکستان میں موجود رہا ۔
جو اس بات کا اظہار ہے کہ شمالی اتحاد کی قیادت اور طالبان سمیت دیگر تمام اہم شخصیات نہ صرف امن کیلئے ٌپاکستان کی کوششوں کی سمجھتی ہیں بلکہ وہ اس پر اعتباربھی کرتی ہیں ۔جبکہ پاکستان بھی ماضی کی پالیسیوں سے سبق سیکھتے ہوئےکسی ایک فریق کےساتھ چلنے کے بجائے تمام فریقین کو مل بیٹھنے کے فارمولے پر عمل پیرا ہے اور یہی فارمولا افغانستان میں دیرپا امن کا ضامن ہے