صفدرحسین
ہمارے ہاںیہ تصور پایا جاتا ہے جو کسی حد تک ممکن ہے درست بھی ہو کہ پاکستان میںصحافت پابندہے اور صحافیوں کو کھل کر کام کرنے کی اجازت نہیںدی جاتی ،یا جو کھل کر بولتا یا لکھتا ہے وہ اٹھ جاتا ہے یا اٹھالیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن یہ خبر پوری پڑھنے کے بعد شاید آپ کی رائے یہ نہ رہے البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ آئندہ بولنے یا لکھنے سے پہلے یہ فیصلہ ضرور کرلیںکہ آپ نے بولنا یا لکھنا کس کے خلاف ہے
لیکن چلیںاس سے پہلے آپ کو ایک لطیفہ سناتے ہیں
یہ اس زمانے کی بات ہے جب روس پر کمیونزم کا پوری طرحغلبہ تھا اور امریکہ (جس کاباطن بھی اتنا پاک صاف نہ تھا )پوری دنیا میںانسانی حقوق اور آزادی اظہار کا تن تنہا علمبردار بنا دندناتا پھرتا تھا
کسی ہوٹل میںایک روسی اور امریکی شہری کی ملاقات ہوئی اور دونوںاپنے اپنے ملکوںکی خوبیاںبیان کرنے لگے
امریکی نے کہا بھئی ہمیںتو اتنی آزادی حاصل ہے کہ ہم اپنے صدر کو بھی سرعام گالیاں دے سکتے ہیں
لے یار یہ کون سی بڑی بات ہے ،روسی فورا بولا ،گالیاںتو ہم بھی دے سکتے ہیں لیکن صرف امریکی صدر کو
یہ بات پاکستانی یا دیگر کسی ملک کے میڈیا پر بھی صادق آتی ہے جہاںآپ کو گالی دینے کی اجازت تو ہے لیکن کس کو دینی ہے ؟ اس کاتعین ممکن ہے آپ خود نہ کرپائیں
ارطغرل رزم و بزم کا نیا عنوان کیسے بنا ؟
آئین و حلف کی پاسداری اور مشکوک اعتماد
کیلاش تہذیب کو زندہ رکھنے والے رحمت ولی کون ہیں؟
میڈیا یعنی اخبارات ،ٹی وی یا اب سوشل میڈیا کو شخصیت کا عکس اور معاشرے کا آئینہ تصور کیا جاتا ،جہاںہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنےالفاظ اور انداز سے کوئی ایسا تاثر نہ چھوڑے جس سے دوسرے لوگ اس کے بارے میںمنفی رائے قائم کریں
باوجودیکہ اخبارات یا دیگر زراٸع ابلاغ کیلیے خبروں کی تیاری کے مراحل انتہائی محتاط انداز میںمکمل کئے جاتے ہیں،لیکن بہرحال کہیںنہ کہیںکمی کوتاہی کا احتمال ضرور باقی رہتا ہے لیکن اگرجان بوجھ کر ہی ایسا کیا جائے تو اس پر کیا کہاجاسکتا ہے؟
حال ہی میںسوشل میڈیا پر ایک اخبار کی تصاویر شیئر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ،جو اکثر لوگوںکےلئے تفریحکا سبب بن گیا ،کیوںکہ اس طرح کا زبان و بیان کبھی کسی اخباریا میڈیا کے کسی دیگر پلیٹ فارم کی زینت نہیںبنا تھا .
فیصل آباد سے شائع ہونے والےپرچم نامی ایک ہفت روزہ اخبار میںبھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کےخلاف خاصی سخت زبان استعمال کی گئی ہے
اس اخبار کے مالک و چیف ایڈیٹر عمار احمد یاسر ہیں جو 1995 سے اخبار کی ادارت سنبھالے ہوئے ہیں،اس اخبار کی بنیاد 1948 میںان کے دادا شاکرعروجی نے رکھی پہلے یہ ایک ادبی ماہنامہ ہوتا تھا ،پھر ان کے والد اس اخبار کو چلاتے رہے
لیکن 1995 میںوالد کی وفات کے بعد وہ گذشتہ تقریبآ 26 سال سے یہ اخبار چلا رہے ہیں .
عمار احمد کے بقول میںاپنے اخبار کا انداز منفرد رکھنا چاہتا ہوں اس لئے ایسی خبریں اور شہ سرخی بناتا ہوںتاکہ میںاپنے دشمن ملک کے وزیر اعظم کو بدنام کرسکوں
کچھ لوگ ایسی سرخیوںپر اعتراضبھی کرتے ہیںاورکہتے ہیںکہ یہ کیسی سرخیاںیاخبریںلگائی ہیں
لیکن میرا اپنا ایک مقصد ہے اس لئے مجھے کسی کی تنقید یا تعریف کی ضرورت نہیں
عماراحمد یاسر کے بقول بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے ان کے اخبار کی اشاعت پر بھی اثر پڑرہا ہے ،لیکن وہ اپنے والد اور دادا کی نشانی کو قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھیںگے
ان کے بقول جب بھارت یا کشمیر میںمسلمانوںپر ظلم ہوتا ہے تو انہیں شدید غصہ آتا ہے جسے وہ اپنے اخبار میںاور اپنے الفاظ میںبیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں،یہ چونکہ میرا اپنا اخبارہے اور میری رائے ہے اس لئے مجھے کسی کی پرواہ نہیںکہ اس کے بارے میںکوئی کیا رائے رکھتا ہے .
الفاظ کیا اور کیسے ہونے چاہیے؟
اخبارات کی مانیٹرنگ کے ذمہ دار ادارے محکمہ اطلاعات کے ایک اعلیٰعہدیدار کا کہنا ہے کہ 2005 کے بعد محکمہ اطلاعات صرف اخبارات کی سرکولیشن کی باقاعدگی سے اشاعت کو دیکھتا ہے یا اشتہارات کی تقسیم کا ذمہ دار ہے ،اب کسی اخبار میںکون کیا چھاپتا ہے اس حوالے سے ہمارا کردار انتہائی محدود ہوتا ہے
البتہ مشرف دور سے قبل اخبارات میںشائع ہونے والی خبروںیا کالمز کی باقاعدہ مانیٹرنگ ہوتی تھی اور کسی قابل اعتراضبات کی صورت میںاس کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی تھی
لیکن اب اگر کوئی غلط بات چھاپتا ہے توجس شخص یا ادارے کےخلاف خبر شائع ہوئی ہو وہ عدالت کے ذریعے اس اخبار کےخلاف کاروائی کرسکتا ہے .البتہ مذہب یا ملکی سلامتی کا کوئی معاملہ ہوتو ایسی صورت میںادارہ خود بھی ایکشن لے سکتا ہے
قدیر تنولی گذشتہ دودہائیوںسے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں،ان کے بقول ایسا بعضاوقات ایک طرحکی اندرونی فرسٹریشن کا اظہار بھی ہوتا ہے ،کیوںکہ قومی یا علاقائی صحافت میںبھی الفاظ کے انتخاب کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے ،یہ ایک طرحکی سیلف سنسر شپ قرار دی جاسکتی ہے ،لیکن اگر کوئی صحافی بے احتیاطی کا مظاہرہ کربھی دیتا ہے تو ڈیسک پر بیٹھے لوگ اس کی کاٹ چھانٹ کے مجاز ہوتے ہیں.
ان کے بقول اس طرحکی سرخیاں جو وقتی طور پر قاری کو اپنی جانب متوجہ کرلیںزیادہ پائیدار نہیںہوتیں،بلکہ اس کے نتیجے میںسنجیدہ قاری اس سے خود فاصلہ اختیار کرلیتا ہے .اور کوئی بھی مستند ادارہ یا صحافی اپنی ساکھ کو دائو پر لگانے کا متحمل نہیںہوسکتا .اگر کہیںکسی کو ایسی کوئی بات کرنی بھی ہوتی تھی تو وہ بین السطور بیان کی جاتی تھی انہوں نے بتایا کہ کراچی یا چند دیگر شہروںمیںچند ایسے اخبارات ضرور شائع ہوتے تھے جن کی سرخیاںیاخبریںعام اخبارات کے برعکس زیادہ شوخ ہوتی تھیں ،اور ان کے قارئین کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوتی تھی ،لیکن ان اخبارات کو ئی شخص اپنے گھر لے جانا یا اپنے بچوںکو پڑھانا پسند نہیںکرتا تھا .
کیونکہ اخبار ایک طرح سے مجموعی طور پر معاشرے کی تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوتے ہیں،اس لئے انہیںایسے الفاظ کا انتخاب کرنا چاہیے جو ہر عام خاص کےلئے قابل قبول ہوں.