سوشل میڈیا کی ترویج سے انسانی خوبیوں کے ساتھ خامیوں کے عیاں ہونے کی رفتار ہر گزرتے دن کے ساتھ تیز تر ہوتی جارہی ہے ،جس کے نتیجے میں معاشرے میں آئے دن ساتھ ہیجان اور افراتفری بڑھتی جارہی ہے ۔ان حالات میں ہر مذہبی و سیاسی معاملے میں قائدانہ کردار کے حامل افراد کی دانستہ بے بسی اور خاموشی پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں
یہ بھی پڑھیں
حالیہ دنوں کے دوران لاہور میں ایک مدرسہ کے مدرس کی اپنی طالبعلم کے ساتھ نازیبا ویڈیو سوشل میڈیا پر موضوع بحث ہے ۔جس کی وجہ سے اہل مدرسہ و منبر نشانہ تضحیک ہیں
اگرچہ ہرگناہ اپنی شدت اور ہیت میں گناہ اور ناقابل دفاع ہے ۔لیکن جب معاشرے کے کسی ایسے حصہ کی جانب سے ایسی حرکات منظر عام پر آئیں جو خود کو مذہبی تعلیمات اور اقدار کا مامور من اللہ محافظ گردانیں اور ان کےتحفظ کیلئے گردنیں اتارنے پر بھی ہمہ وقت آمادہ ہوں تو ایسی صورت میں یہ جرم اور بھی قابل گرفت ہوجاتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مدرسہ ہو یا یونیورسٹی ان کا بنیادی مقصد تعلیم و تربیت فراہم کرنا اور انسانوں کے ایک بے ہنگم ہجوم کو معاشرے کیلئے ایک کارآمد اور مفید پرزہ بنانا ہے
لیکن بعض اوقات کسی ایک انسان کی بشری کمزوری اپنے پورے طبقے کیلئے باعث شرمندگی اورذلالت بن جاتی ہے ۔اور یہی کچھ اس وقت اہل مذہب کیساتھ بھی ہورہا ہے اگرچہ نجی محافل اور سوشل میڈیا کے صفحات پر آئے روز بڑھتے ہوئے افسوسناک واقعات کے بارے میں کھل کر بحث مباحثہ ہورہا ہے ،
لیکن حالیہ دنوں میں لاہور کے ایک مدرسے کے مفتی اور طالبعلم کے معاملے جس انداز میں قومی سیاسی و مذہبی قیادت کی جانب سے چشم پوشی و خاموشی اختیار کی جارہی ہے وہ قابل مذمت اور قابل افسوس ہے اور اس بات کا اظہار بھی ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم پر بولنا نہ تو ہمارے مذہبی قیادت کی ترجیح ہے اور نہ ہی سیاسی قیادت کو اس پر بات کرنے کی فرصت
اس واقعہ پر مذہبی قیادت کی خاموشی بھی افسوسناک ہے کیوں کہ ہر چھوٹے بڑے واقعہ پر گھنٹوں پریس کانفرنس کرنے اور مدارس کے حقوق کے علمبردار بڑے بڑے علماء کرام کی جانب سے تاحال کوئی ایک لفظ بھی سامنےنہ آسکا۔
سب سے بڑا تعلیمی جال لیکن کوئی نظام عمل موجود نہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان میں مدارس کی بڑی تعداد موجود ہے ،جہاں لاکھوں طلباء زیر تعلیم ہیں لیکن اخلاقی برائیوں کے حوالے سے مدارس ابھی تک کوئی ایسا ٹھوس اور قابل عمل میکنزم تیار نہیں کر پائے جہاں ایسی شکایات کا ٹھوس بنیادوں پر ازالہ ہوسکے یا مستقبل میں ان کے تدارک کیا جاسکے ۔
اور نہ ہی تواتر کےساتھ منظر عام پر آنے والے واقعات پر کوئی ایسی موثر کاروائی ممکن ہوسکی جو بعدمیں آنے والوں کی لئے عبرت کی مثال بنے یا انہیں سبق حاصل ہو ۔
اب یہ اہل مدرسہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی صفوں میں چھپے ایسے سیاہ بخت عناصر کے خلاف ازخودکوئی ایسا نظام تشکیل دیں جو ان کی ساکھ اور وقعت پر آنچ نہ آنے دے ۔
سیاسی و مذہبی قیادت کو اس حوالے سے اب کھل کربات کرنا ہو گی لیکن اگر ماضی کی طرح وہ ہر دو واقعات کے درمیان مہربہ لب بیٹھے رہے تو اس سے اہل مدرسہ کو وہ ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ جس کا ازالہ شاید کبھی ممکن نہ ہو