عمران حیدر تھہیم
بہت مشہور بات ہے کہ ایران میں جاڑے کے موسم میں جب بھیڑیوں کو شکار نہیں ملتا اور برف کی وجہ سے خوراک کی قِلّت پیدا ہو جاتی ہے تو بھیڑیے ایک دائرے میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو گُھورنا شروع کردیتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی بھیڑیا بُھوک سے نِڈھال ہو کر گِرتا ہے تو باقی سب مِل کر اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اُس کو کھا جاتے ہیں۔
اِس عمل کو فارسی میں ’’گُرگِ آشتی‘‘ کہتے ہیں۔ اِس عمل کا گہرائی سے تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ رُجحان بھیڑیوں کے ساتھ ساتھ کافی حد تک انسانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
قومی یکجہتی کا استعارہ،محمد علی سدپارہ
کے ٹو حادثہ نیپالی کوہ پیماؤں کی مُجرمانہ غفلت ؟
پاکستان میں گُزشتہ ماہ کوہ پیمائی کی تاریخ کا عظیم سانحہ ہُوا اور پاکستان کے عالمی شُہرت یافتہ کوہ پیما مُحمّد علی سدپارہ کے۔ٹو کی انتہائی بُلندیوں پر اپنے دیگر دو ساتھیوں سمیت لاپتہ ہوگئے۔ ہر ممکن تلاش کی گئی لیکن ناکامی ہوئی اور بالآخر حکومت نے اُنہیں مُردہ قرار دے دیا۔
بس پھر کیا تھا عین اُسی دن پاکستانی کوہ پیما کمیونٹی میں گُرگِ آشتی جیسا عمل شروع ہوگیا ۔ سب سے پہلے پاکستان کے مشہور اور اعلیٰ درجے کی مہارت رکھنے والے نوجوان کوہ پیما سرباز خان نے اعلان کیا کہ وہ نیپال میں دُنیا کی دسویں بڑی چوٹی ” اَنّا پُورنا ” سر کرنے کےلیے جارہے ہیں اور اب مُحمّد علی سدپارہ کے بعد وہ اُن کے مشن کو پُورا کریں گے اور تمام 14 چوٹیاں سر کریں گے۔
سربازخان بہت اعلیٰ درجے کے کوہ پیما ہیں، مَیں ذاتی طور پر اُن کا بہت بڑا مدّاح ہوں لیکن مُجھے مُحمّد علی سدپارہ کے حقیقی بیٹے ساجد علی سدپارہ کے زندہ سلامت ہوتے ہوئے سربازخان کا خُود کو علی سدپارہ کا جانشین قرار دے کر اُنکی “ماؤنٹینیئرنگ لیگیسی” کے وارث ہونے کا دعویٰ انتہائی عامیانہ لگا۔ بطور ایک پاکستانی مُجھے سربازخان کے مشن۔14 پر یا اُس کےلیے فنڈز حاصل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی اُسکی کوہ پیمائی کی مہارت پر کوئی شک ہے۔
اعتراض ہے تو صرف اُنکی حکمتِ عملی اور طریقہء کار پر۔ سربازخان جو کہ خُود ایک نہایت شریف النفس نوجوان ہے اُسے سوچنا چاہییے کہ جس طرح سے اُسکی صلاحیتوں کو اپنے مقصد اور اپنی جھوٹی شہرت کےلیے کچھ لوگ استعمال کرکے اُسے علی سدپارہ کا جانشین کہلوائے جانے پر اُکسا رہے ہیں وہ “گُرگِ آشتی” جیسا عمل ہی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ مُحمّد علی سدپارہ کا حقیقی بیٹا ساجد علی سدپارہ وہ نوجوان ہے جس نے سال 2019 میں کے۔ٹو کو محض 21 سال کی عُمر میں سر کرکے دُنیائے کوہ پیمائی کو ورطہءحیرت میں ڈال دیا تھا اور پھر اِس سال کی سرمائی کوشش میں کے۔ٹو کے ڈیتھ زون تک پہنچنا اور انتہائی مُشکل حالات میں اپنے باپ کے لاپتہ ہونے کا دُکھ سمیٹ کر نیچے بیس کیمپ تک اُترنا ایک ایسا جُرآت مندانہ اور بہادری والا کام ہے کہ آنے والے دور میں اِس لازوال داستان پر کتابیں لکھی جائیں گی، فلمیں اور ڈاکیومینٹریز بنائی جائیں گی۔
میرے قائین یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ مَیں نے اپنی اکثر تحریروں میں نیپالی شرپاؤں کے بارے میں کُھل کر لکھا ہے اور اِس رویّے پر اُنکا سخت مخالف ہوں کہ اُنہوں نے کوہ پیمائی کو کمرشلائز کرکے اور پہاڑوں کے قُدرتی حُسن کو مصنوعیت سے آلودہ کر کے پیسہ کمانے کا جو رُحجان شروع کیا ہے وہ دراصل ایڈونچر کی موت اور کوہ پیمائی کے مستقبل پر ایک کاری ضرب ہے۔
اب اگر یہی کام ہمارے اوّل درجے کے کوہ پیما بھی شروع کردیں گے اور پیسے کی دوڑ اور جھوٹی شُہرت کے پیچھے بھاگیں گے تو یہ پاکستان میں کوہ پیمائی کے کھیل کے فروغ کےلیے اِنتہائی نُقصان دہ عمل ہوگا۔ اگر سرباز خان نے واقعی کوہ پیمائی میں اپنا نام بنانا ہے تو بہتر ہے کہ چند مفاد پرستوں کے ہتّھے چڑھ کر صرف فنڈنگ کےلیے خُود کو مُحمّد علی سدپارہ کا جانشین اور اُسے مشن کا وارث قرار دینے کی بجائے صرف اپنی مہارت، صلاحیت اور سابقہ فتوحات کے بَل بُوتے پر ہی اپنا مشن جاری رکھے۔
مُحمّد علی سدپارہ کی ماؤنٹینیئرنگ لیگیسی کا وارث صرف ساجد علی سدپارہ ہے۔ چونکہ ساجد سدپارہ خُود ایک کوہ پیما ہے لہٰذا مُحمّد علی سدپارہ کے نام کیساتھ جُڑی ہر سہولت اور ہر طرح کی فنڈنگ ساجد سدپارہ کو بلاشرکتِ غیرے ملنی چاہییے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ساجد سدپارہ نے تینوں کوہ پیماؤں کی لاشوں کو ڈُھونڈنے اور کے۔ٹو پر ماؤنٹینئرنگ ہارڈویئر سے پیدا شُدہ آلودگی ختم کرنے کی غرض سے جس کلین۔اپ مشن کا اعلان کیا ہے ہم سب کو مل کر اُسکی حوصلہ افزائی کرنی چاہییے اور اس کام کےلیے فنڈز جمع کرنے میں بھی ساجد سدپارہ کی مدد کرنی چاہیے۔ مقامِ افسوس ہے کہ سربازخان سے چند مفاد پرست لوگ انتہائی غیراخلاقی حرکت سرزد کروا رہے ہیں۔ دُنیا کے تمام بڑے 14 پہاڑ تو سرباز خان اِن شاء اللہ ضرور سر کر لیں گے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ وہ مُحمّد علی سدپارہ کے مشن کے وارث کہلانے کی بجائے ساجد سدپارہ کو سپورٹ کریں اور اعلان کردیں کہ میری بجائے سب سے پہلے مُحمّد علی سدپارہ کی لاش ڈُھونڈنے والے اُنکے بیٹے ساجد سدپارہ کے اعلان کردہ SAR مشن کےلیے فنڈنگ کی جائے۔
اس سے پُوری دُنیا کو یہ پیغام ملے گا کہ پاکستانی کوہ پیما نیپالیوں سے مُختلف ہیں اور لالچی نہیں ہیں۔
پاکستان کی تمام ایڈونچر کمیونٹی اور کوہ پیمائی میں دلچسپی رکھنے والے تمام پاکستانی مُخیّر حضرات سے میری گُزارش ہے کہ وہ ساجد سدپارہ کو مُحمّد علی سدپارہ کی ماؤنٹینیئرنگ لیگیسی کا واحد وارث سمجھتے ہوئے اُسکی دل کھول کر سپورٹ کریں، اُسے فنڈز دیں تاکہ وہ نہ صرف اپنے والد کی لاش ڈُھونڈ کر نیچے لاسکے بلکہ آئندہ مستقبل میں اپنی کوہ پیمائی بھی جاری رکھ کر دُنیا بھر میں مُلک کا نام روشن کر سکے۔
یہاں مَیں ایک اور اہم بات کی بھی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ پاکستان میں اب کوہ پیمائی سے متعلقہ بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں، گروپس، پیجز اور انڈیپنڈنٹ کوہ پیما اُٹھیں گے مُحمّد علی سدپارہ کی لاش تلاش کرنے والے سرچ مشن کےلیے فنڈز جمع کرنے کی مُہم شروع کردیں گے۔ آپ کو پریزینٹیشنز دیں گے کہ وہ کوئی بہت بڑے کوہ پیما ہیں اور صرف وہی کے۔ٹو پر جا کر مُحمّد علی سدپارہ کی لاش ڈُھونڈ کر نیچے لاسکتے ہیں تو یاد رکھیے یہ سب ڈرامے بازی اور نوسربازی ہوگی۔
کے۔ٹو ایسا پہاڑ ہے جس پر کوئی سرچ یا ریسکیو مشن تب تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک وہاں انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ کوہ پیما نہ بھیجے جائیں۔ میری رائے میں پاکستان کے اندر اسوقت کے۔ٹو پر سرچ مشن کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے کرنل عبدالجبار بھٹی، بہترین انٹرنیشنل سرٹیفائیڈ ماؤنٹینیئرنگ انسٹرکٹرز اور ریسکیو ٹرینرز سکردو کے زاہد راجپوت اور لاہور کے افضل شیرازی صاحب جبکہ گلگت۔بلتستان کے 20 کے قریب ایسے کوہ پیما،موجود ہیں جنہوں نے ماضی میں کے۔ٹو کو سر کیا ہوا ہے۔ صادق سدپارہ، رحمت اللہ بیگ، حسن جان، علی روزی، غلام مہدی ہوشے اور علی رضا بھی اس مقصد کےلیے بہترین انتخاب ثابت ہو سکتے ہیں۔
آپ کو چاہییے کہ اگر آپ واقعی مُحمّد علی سدپارہ کو اپنا قومی ہیرو تسلیم کرتے ہیں اور اُس کے جسدِ خاکی کو تلاش کرکے کے۔ٹو سے نیچے لانے کے مشن کی فنڈنگ میں حصّہ لینا چاہتے ہیں تو براہِ مہربانی ایسے کسی مشن کےلیے فنڈ مانگنے والے نوسربازوں سے بچیے۔ سب سے بہتر یہ ہوگا کہ ایسے کسی مشن کے باقاعدہ اعلان کے بعد ساجد علی سدپارہ سے ڈائریکٹ یا اُنکی ٹیم کے آفیشل ایکسپیڈیشن مینیجر کے ذریعے اِن ڈائریکٹ رابطہ کرکے مالی مدد پہنچائی جائے۔ اسلام آباد میں کچھ نوسرباز کوہ پیما بھی ہیں جو اس مشن کےلیے نوسربازی کرکے فنڈز جمع کرنے کےلیے پَرتول رہے ہیں اُن میں سے ایک صاحب ایسے بھی ہیں جنہوں نے سال 2017 میں ماؤنٹ ایورسٹ پر کرنل عبدالجبار بھٹی صاحب کے ریسکیو کے متعلق ایسا جھوٹ بولا تھا کہ جس سے پاکستان کی دُنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی تھی۔ موصوف نے 7000میٹر پر بیٹھ کر یہ ٹویٹر پیغام دے دیا کہ مَیں کرنل عبدالجبّار بھٹی صاحب کو ریسکیو کرنے کی خاطر اپنی ایورسٹ مُہم جُوئی ترک کررہا ہوں۔ حالانکہ کرنل بھٹی اُسوقت ڈیتھ زون میں 8650 میٹر کی بُلندی سے ریسکیو ہو کر نیچے آ چُکے تھے اور ہیلی ریسکیو کے انتظامات کیے جا چُکے تھے۔
اُن صاحب موصوف کا مقصد صرف یہ تھا کہ اُنہوں نے پاکستان میں نوسربازی سے جو سپانسر شپ حاصل کی تھی اُسکو کسی طرح جسٹیفائی کیا جا سکے کیونکہ ماؤنٹ ایورسٹ تو اُن سے سر ہو نہیں رہا تھا اور موقع کی مناسبت سے یہی نوسربازی اُنکی ساکھ کو بچا سکتی تھی سو وہی اُنہوں نے کیا۔
کرنل عبدالجبار بھٹی صاحب کے ریسکیو سے اُنکا دُور دُور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اگر اُنہیں خُود یا اُنکے کسی چاہنے والے کو میری اس بات پر اعتراض ہے تو مَیں اس موضوع پر مناظرے کےلیے تیّار ہوں۔ وہ ماؤنٹینیئر صاحب سوشل میڈیا خصوصاً ٹویٹر پر بہت ایکٹو ہیں اور باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وہ اب دوبارہ نوسربازی کرکے کے۔ٹو کےلیے فنڈز جمع کرنا چاہ رہے ہیں۔ اُمید ہے مُخیّر حضرات مُحمّد علی سدپارہ کے نام پر ایسے تمام نوسربازوں کی حوصلہ شکنی کریں گی اور ہر قسم کی اخلاقی و مالی امداد صرف ساجد سدپارہ کو ڈائریکٹ فراہم کریں گے۔
اِس ضمن میں ساجد علی سدپارہ سے بھی میری یہی گُزارش ہوگی کہ وہ اس عظیم سانحے کے صدمے سے جب بھی باہر نکلیں تو سب سے پہلے مُنظّم انداز میں اپنے SAR مشن کا اعلان کریں اور فُول پروف طریقے سے مالی و انتظامی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیکر ہمارے قومی ہیرو مُحمّد علی سدپارہ سمیت تینوں بہادر کوہ پیماؤں کی لاشیں تلاش کرنے کےلیے ایک بہترین ٹیم کو لیکر کے۔ٹو پر جائیں تاکہ اللہ کی رضا سے اِس عظیم سپوت کا جسدِ خاکی کے۔ٹو سے نیچے لاکر اس حادثے کے اسباب سامنے لائے جانے کے ساتھ ساتھ مُحمّد علی سدپارہ کو قومی اعزاز کیساتھ سپردِ خاک کیا جا سکے۔
عمران حیدر تھہیم گذشتہ دس سال سے کوہ پیمائی اور مہم جوئی کے شعبہ سے وابستہ ہیں ،اور اس حوالے سے اپنی ایک منفرد اور مستند رائے رکھتے ہیں