مولوی کی دوڑ مسجد تک نہیں رہی!
ایک وقت تھا جب مولوی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ملاں کی دوڑ مسجد تک، لوگ کہا کرتے تھے مولوی منبر و محراب سے آگے دیکھ بھی کیسے سکتا ہے؟ اسکی سوچ محدود ہے، غریب گھرانوں سے اٹھے مدارس کے بچے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں، ان کی دنیا پر نظر نہیں ہوتی ، یہ چار لفظ پڑھ کر خود کو توپ چیز سمجھتے ہیں، انکی عقل ناقص ہوتی ہے، یہ زمانے کے انداز و آہنگ سے واقف نہیں ہیں ، یہ زمانے کے عروج و زوال سے بے خبر ہیں، چٹائیوں پر بیٹھنے والے مست فقیر و درویش دور اندیش نہیں ہیں،
ان کی کسمپرسی پر ترس کھایا جاتا تھا بلکہ اب بھی کھایا جاتا ہے، مگر اب ایسا نہیں،
اب مولوی زمانے کو سمجھتا ہے، وہ عالمی زبانوں سے واقف ہے، اس نے نئے میدانوں میں قدم رکھا ہے، کالج ہو یا یونیورسٹی یہاں مولوی آ رہا ہے، میڈیا ہو یا بیوروکریسی، مولوی کی ترجیحات میں شامل ہو رہی ہے، تجارت ہو یا خدمت مولوی نمایاں ہو رہا ہے ،اب مولوی سیاسی رموز سے واقف ہے،
حالیہ دنوں میں دو مولوی بہت زیادہ زیر بحث آئے ،ایک مولانا فضل الرحمن اور دوسرے مولانا طارق جمیل،
آپ دونوں سے اختلاف رکھ سکتے ہیں، انکی سوچ و فکر پر تنقید کر سکتے ہیں، پورے قد سے انکی باتوں کو رد کر سکتے ہیں مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ مولانا فضل الرحمن نے ایک مولوی ہوتے ہوئے نون لیگ و پیپلز پارٹی کی قیادت کی، انہوں نے جبر کے ماحول میں مزاحمتی کردار زندہ رکھا ، مولانا بصیر زماں کہلائے، انکے سامنے کسی اور کا چراغ نہیں جلا، اہل دانش دو لوگوں کی گفتگو کان لگا کر سنتے ہیں ایک نواز شریف اور دوسرے مولانا، ایک ہارے ہوئے مولانا نے اپنی صلاحیتوں سے خود کو وزیر اعظم کے مقابل کھڑا کر دیا ، یہ مولانا کا ہی کمال ہے
مجھے خوشی ہے کہ اکیسویں صدی میں چٹائیوں سے اٹھا ایک مولوی، سیاسی قائدین کا قائد ہے،
میری دوسری خوشی مولانا طارق جمیل کے کاروبار کے ابتداء سے ہے، مولانا طارق جمیل نے بتایا کہ کاروباری لوگ انکے نام کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، مولانا سیلبرٹی ہیں، ایک مولوی برانڈ بنا ہے میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہو گی؟ مولانا طارق جمیل نے کئی نئے کام کیے، کئی کاموں کی بنیاد رکھی، بعد والے انکی تقلید کریں گے، کاش وہ سیاسی معاملات میں الجھنے کی بجائے خدمت، کاروبار اور تبلیغ کو ہی وقت دیں تو وہ مزید کئی اچھے کاموں کا آغاز کر سکتے ہیں
علماء کے وقار میں اضافہ کرنے والے مولانا طارق جمیل ہوں یا سیاسی رہنمائی کرنے والے مولانا فضل الرحمن! یہ اس لحاظ سے داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے زمانے کی یہ بات غلط ثابت کی کہ ملاں کی دوڑ مسجد تک ہے –
عامر ہزاروی منبر و محراب کے پس منظر سے اٹھنے والی ایک آواز جو عصر جدید کے تقاضوں سے شناساہے