شفیق سید،مظفر آباد
تحریک آزادی کشمیر کا استعارہ قرار پانے والے سید علی گیلانی کی وفات کے بعد آزادی کیلئے سرگرم سیاسی جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز حریت کانفرنس نے بھارتی جیل میں قید مسرت عالم بھٹ کو چیئرمین جبکہ حریت پسند رہنما شبیر شاہ اور غلام احمد گلزار وائس چیئرمین منتخب کرلیا ہے جبکہ مولوی بشیر احمد عرفانی بدستور جنرل سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے
اگرچہ مسرت عالم بھٹ ،شبیر شاہ سمیت متعدد حریت رہنما کئی سالوں سے بھارتی جیلوں میں قید ہیں ،اور نئی قیادت کے انتخاب کے حوالے سے کوئی باقاعدہ اجلاس منعقد نہیں ہوا ،لیکن حریت کانفرنس میں شامل تمام جماعتوں اور ان کے سرکردہ رہنمائوں نے نئی قیادت کے نام پر اتفاق کیا ہے
سید علی گیلانی جنہوں نے بھارتی قبضہ کےخلاف جدوجہد کے نتیجے میں اپنی زندگی کا پچاس سال سے زائد عرصہ جیلوں میں گزارا اور گزشتہ 11 سال سے وہ اپنی رہائش گاہ پر نظر بند تھے ،جہاں یکم ستمبر کو وہ طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے ۔اگرچہ سید علی گیلانی کو آل پارٹیز حریت کانفرنس کا تاحیات سربراہ چنا گیا تھا لیکن گذشتہ سال وہ اپنی صحت کے مسائل کی وجہ سے اس ذمہ داری سے علیحدہ ہوگئے تھے
مسرت عالم بھٹ اور شبیرشاہ دونوں رہنما تحریک آزادی کشمیر کے سرگرم اور فعال کارکن ہیں ،لیکن دونوں رہنمائوں کی زندگی کا زیادہ تر حصہ بھارتی جیلوں کی نذر ہوا ،کیوں کہ مسرت عالم بھٹ گذشتہ 25 سال سے جبکہ شبیر احمد شاہ 33 سال سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں
2019 کے بعد حریت کانفرنس کی زیادہ تر قیادت بھارت کی مختلف جیلوں میں بند ہے ،جبکہ امکان یہی ہے کہ بھارتی حکومت دیگر بہت سے کشمیری سیاسی جماعتوں کی طرح آل پارٹیزحریت کانفرنس کو بھی خلاف قانون قرار دیکر اس پر پابندی عائد کرسکتی ہے
مسرت عالم بھٹ کون ہیں ؟
سید علی گیلانی کی طرح 51 سالہ مسرت عالم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے شدید مخالفین میں شامل ہیں ،ان کے اسی غیر متزلزل موقف کی وجہ سے اپنی زندگی کے 25 سال بھارتی جیلوں میں گزار چکے ہیں ۔جسے ایشیا میں طویل ترین سیاسی اسیری قرار دیا جاتا ہے
یہ بھی پڑھیں
- جہدواستقامت کی علامت سید گیلانی کے آخری سفر کی طویل شب
- سید علی گیلانی کے اہلخانہ کے خلاف آزادی کے نعرے لگانے کا مقدمہ درج
- سید علی گیلانی کی وفات کادوسرا روز،مقبوضہ وادی میںنمازجمعہ پر بھی پابندی
- کابل ،تہران میں پاکستان مخالف مظاہرے اور ایران کا بدلا لہجہ چہ معنی دارد؟
جن کے خلاف بھارتی حکومت نے پبلک سیفٹی ایکٹ جس کے تحت کسی بھی شخص کو ضمانت کے بغیر چھ ماہ سے زائد وقت کےلئے گرفتار کرسکتی بے کا دریغ استعمال کیا ،اور کئی بار ان کی گرفتاری ایسے الزامات کے تحت ہوئی جو باہم آپس میں ہی متصادم تھے ،مثلاً 2003 میں انہیں حریت کانفرنس میں اختلافات پیدا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جبکہ 2008 میں انہیں حریت کانفرنس میں اتحاد کا ملزم قرار دیا گیا
اس کےعلاوہ پولیس نے ان پر 50 کے قریب دیگر مقدمات میں بھی شامل کررکھا ہے ،جن میں ملک کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کا الزامات بھی ہیں،لیکن آج تک کسی ایک کیس میں بھی انہیں نامزد نہیں کیا گیا ،2015 میں جب بھارتی سپریم کورٹ نے ان کی رہائی کا فیصلہ دیا تووزیراعظم نریندرامودی نے ان کی رہائی کو قوم کو اشتعال دلانے کے مترادف قرار دیا
2015 میں مسرت عالم بھٹ کو ایک مظاہرے کے دوران پاکستان کے حق میں نعرے لگانے اور پاکستان کا پرچم لہرانے کے جرم میں دوبارہ گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا،جہاں وہ ابھی موجود ہیں اور بالخصوص نریندرا مودی کی حکومت میں ان کی رہائی کا امکان نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے
ابتدائی حالات زندگی
مسرت عالم بھٹ 1971 میں مقبوضہ کشمیر کے ایک متمول تاجر خاندان میں پیدا ہوئے ،کم عمر ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ،دادا اور چاچائوں نے ان کی پرورش کی ،انہوں نے ٹائنڈل بسکوئے مشنری سکول سے تعلیم حاصل کی ۔عملی زندگی میں ابھی قدم نہیں رکھا تھا لیکن کشمیر کے حالات انتہائی دگرگوں اور جبر کاشکار تھے ۔
1980 ء کی دہائی میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد آزادی کا آغاز ہو تو وہ سیاسی طور پر اس کا حصہ بن گئے ۔اور 17 سال کی عمر میں پہلی بار قابض انتظامیہ نے انہیں جیل بھیج دیا جہاں ان کی جوانی کے ابتدائی سال بیت گئے
2008 اور بعدازاں 2010 میں انہیں بڑے پیمانے پر کشمیر میں ہونے والے بھارت مخالف مظاہروں کا بنیادی محرک بتایا جاتا ہے جنہوں نے کشمیر کی نوجوان نسل کو بھارت مخالف مظاہروں کیلئے متحد ہونے اور انہیں گھروں سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا اور یہی وجہ ہے کہ ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ ہمیشہ کیلئے ان کا مقدر بن گیا ۔
اگرچہ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ اپنے مربی سید علی گیلانی کی طرح قیدو بند کی نذر ہوا لیکن وہ بھی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے مطالبہ سے ایک انچ بھی متزلزل نہیں ہوئے
افغانستان کی صورتحال سے بھارت کی بڑھتی الجھن
دوسری جانب افغانستان کی صورتحال سے پریشان قابض بھارتی حکومت کو کشمیر کے حوالے سے نئی تشویش لاحق ہوچکی ہے ،جس کا اظہار وہ طالبان حکومت کے قیام کے بعدروزانہ کی بنیاد پر کررہی ہے ۔جبکہ مسرت عالم بھٹ ،شبیر احمد شاہ اوران کے ہمراہ دیگر سخت گیر موقف کی حامل قیادت کے سامنے آنے پر اس کی پریشانی مزید دوچند ہوچکی ہے
یہی وجہ تھی کی یکم ستمبر کی شب کو حریت قائدسید علی گیلانی کی وفات کے فوراً بعد قابض انتظامیہ نے پوری وادی میں بلیک آئوٹ کردیا اور رات کی تاریکی میں ہی ان کے اہلخانہ سے میت زبردستی چھین کر رات کے تیسرے پہر حیدرپورہ میں ہی ان کی تدفین کردی حالانکہ سید علی گیلانی نے شہداء کشمیر قبرستان میں تدفین کی وصیت کررکھی تھی
کیوں کہ بھارتی قابض انتظامیہ کو خدشہ تھا کہ سید علی گیلانی کے جنازہ میں شرکت کیلئے لاکھوں لوگ امڈ پڑیں گے اور حالات ان کے قابو سے باہر ہوجائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کے ایک ہفتہ بعد بھی مقبوضہ وادی اور کشمیر کے کئی دیگر علاقوں میں سخت پابندیاں برقرار ہیں ،مواصلات کے ذرائع مسدود ہیں اور شہریوں کی نقل وحرکت انتہائی محدود کردی گئی ہے
بھارت کیلئے پریشانی کیا ہے ؟
اگر دیکھا جائے تو افغانستان میں بدترین ہزیمت کا شکار ہونے والی مودی سرکار کیلئے کشمیر کا معاملہ ہر گزرتے دن کے ساتھ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا جارہا ہے اور اس کی پریشانی بڑھ رہی تو بے جا نہ ہوگا ۔کیوں کہ 5 اگست 2019 کو مودی سرکار کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے بھارتی وفاق کا حصہ بنالیا اور یوں اپنے تئیں اس معاملے کو ختم سمجھ بیٹھا تھا ۔
لیکن بھارتی انتظامیہ کو اس حقیقت اچھی طرح احساس ہے کہ اس کا یہ قدم عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ،عوامی حمایت کے برعکس اور غیراخلاقی و غیر قانونی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اپنے اردگرد اور خطے میں ہونے والے ہر واقعہ کو کشمیر کے تناظر میں دیکھتا ہے جہاں سیاسی عمل مفلوج ہونے کے بعد اسے ایک بار پھر مسلح مزاحمت کا خطرہ ہے
بھارتی ذرائع ابلاغ نے حریت کانفرنس کی نئی قیادت کے انتخاب میں بھی پاکستان کا کردار ڈھونڈنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور سخت گیر موقف کے حامل مسرت عالم بھٹ کی بطور حریت چیئرمین انتخاب کو پاکستان کی پسند کا نتیجہ اور بھارت کے حوالے سے پاکستان کے بدلتے تیورقرار دیا ہے
اور آنے والے دنوں میں وادی میں ایک بار پھر کسی بڑے عوامی ردعمل کا خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔کیونکہ قابض انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ مسرت عالم بھٹ جو کہ نوجوانوں میں خاصے مقبول ہیں اور عوام کو متحرک کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں ،اپنی بطورقائد حیثیت کو منوانے کیلئے کسی وقت بھی کال دے سکتے ہیں
اور کئی بیرونی عناصر کو کشمیر میں ایک بار پھر مداخلت کا موقع مل جائے گا اور اس طرح حالات بھارت کے قابو سے باہر ہوجائیں گے اور چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق قابض بھارتی انتظامیہ کی رات کی نیند اور دن کا چین ختم ہو کررہ چکا ہے