آزادی ڈیسک
مقبوضہ کشمیر میں‌مجاہدین کے پاس نئے ،موثر اور تباہ کن ہتھیار کی موجودگی نے بھارتی فوج کی نیندیں‌اڑا کر رکھ دیں‌،عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کیمطابق حال ہی میں‌مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں‌میں‌کاروائیوں‌کے دوران بھارتی فوج کے ہاتھ‌مقناطیسی بم لگے ہیں‌،جس کے نتیجے میں‌غاصب بھارتی فوج کو نئی پریشانی کا سامنا ہے .کیوں‌کہ یہ بم حجم میں‌چھوٹے ہونے کی وجہ سے کہیں‌بھی بآسانی لے جائے جا سکتے ہیں اور انہیں کسی بھی گاڑی پر نصب کیا جاسکتا ہے .جبکہ یہ ہتھیار افغانستان میں‌برسرپیکار جنگجو گروپوں‌بالخصوص طالبان کا ایک پسندیدہ اور موثر ہتھیار رہا ہے ،جس کی مدد سے انہوں‌نے اپنے اہداف کو بہت آسانی سے نشانہ بنایا .

بھارتی پولیس کے ایک اعلیٰ‌افسر وجے کمار کے بیان کے مطابق یہ ہتھیار حجم میں‌چھوٹے ہونے کی وجہ سے بآسانی چھپائے جاسکتے ہیں اور انہیں‌کہیں بھی اور کسی بھی مقام پر نصب کیا جاسکتا ہے ،لیکن کارکردگی کے لحاظ یہ چھوٹے بم بھی انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں‌جو بالخصوص گاڑیوں‌کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‌.
جس کی وجہ سے وادی میں‌موجود بھارتی فوجیوں‌کی بھاری اور کثیر تعداد میں‌موجودگی کیلئے ایک نیاخطرہ پیدا ہوگیا ہے ،کیوں‌کہ کشمیر کو دنیا بھر میں‌سب سے زیادہ فوجی موجودگی کا حامل علاقہ سمجھا جاتا ہے ،جبکہ 2019 میں‌بھارتی آئین میں‌ترمیم کے بعد خطے کی آئینی اور جغرافیائی ہیت کو تبدیل کرنے کے بعد یہاں‌بھارتی فوجیوں‌کی تعداد پہلے سے زیادہ ہے اور علاقے پر اپنا موثر کنٹرول برقرار رکھنے کےلئے ان کی نقل و حمل بھی زیادہ ہورہی ہے.

غلام مصطفی شاہ ،تحریک آزادی کشمیر کا اہم کردار،جو اپنوں‌بیگانوں‌کی بے اعتنائی کا شکار ہوا

ننھے بچوں کی پاک فوج سے اظہار محبت کی ویڈیو واٸرل

بھارتی پولیس حکام کے مطابق گذشتہ ماہ فروری کے دوران چھاپوں‌میں‌برآمد ہونے والے بموں‌کی تعداد 15 تھی ،جنہیں‌ممکنہ طور افغانستان سے لایا گیا ہے جہاں‌طالبان ان بموں‌کی مدد سے اپنے مخالفین کو انتہائی آسانی سے نشانہ بناتے رہے ہیں‌
تاہم مقبوضہ کشمیر میں‌ان بموں‌کی موجودگی نے بھارتی حکام کو بھی خوفزدہ کردیا ہے ،جنہیں اندیشہ ہے کہ ایسے مقناطیسی بموں‌کی مدد سے وادی میں‌گشت کرنے والے فوجی قافلوں یا اعلیٰ‌حکام کو باآسانی نشانہ بنایا جاسکتا ہے .اس لئے نئے خطرے سے نمٹنے کیلئے بھارتی فوج اور سیکورٹی ادارے نئی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں‌جس میں‌نقل و حرکت کے دوران سول اور فوجی گاڑیوں‌کے درمیان زیادہ فاصلہ رکھنا ،شہر بھر میں‌مختلف مقامات پر سیکورٹی کیمروں‌کی تعداد بڑھانے سمیت دیگر اقدامات شامل ہیں‌.
تاہم ماہرین کے مطابق افغانستان کے مقابلے میں‌جہاں‌طالبان کو شہری اور دیہی علاقوں‌میں‌وسیع رسائی حاصل ہے ،کشمیر کی صورتحال اس سے قدرے مختلف ہے کیوں‌کہ فوج کی بھاری تعداد میں‌موجودگی اور سخت سیکورٹی اقدامات مزاحمت کاروں‌کی آزادانہ نقل و حمل میں‌بڑی رکاوٹ ہیں‌.


واضح رہے کہ8 جولائی 2016 کو نوجوان حزب کمانڈر برہان وانی کی غاصب بھارتی فوج کے ہاتھوں‌شہادت کے بعد وادی میں‌مسلح مزاحمت ایک بار پھر تیز ہوئی اور عوامی سطح‌پر بھی مزاحمت کا سلسلہ تیز ہوا ،لیکن 2019 میں‌بھارتی کی جانب سے ریاست کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور ریاست کو دو انتظامی حصوں‌میں‌تقسیم کرنے کے فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر ردعمل کے خدشے کے پیش نظر وادی اور جموں‌میں‌فوج کی تعداد بڑھا دی گئی اور اب بھی پوری ریاست عملی طور پر کرفیو کا شکار ہے .اور وادی میں‌اب تک انٹرنیٹ سروسز بھی مکمل طور بحال نہیں‌ہوسکی ہیں‌.