سیدعتیق
سوشل میڈیا پر ان دنوں مذہبی و تاریخی مباحث سے دلچسپی رکھنے والوں میں انجینئیر محمد علی مرزا صاحب اور مفتی طارق مسعود صاحب کے مابین اس ٹاکرے کے چرچے ہیں جو عوام کی خوش قسمتی سے نہ ہو سکا ۔
انجینیئر صاحب کا تعلق جہلم سے ہے۔ ناقدین انہیں پیار ، اختصار اور حقارت سے انہیں مرزا جہلمی کہتے ہیں ۔ آپ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم و مغفور کے شاگرد ہیں ۔ جب کہ مفتی صاحب حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب کے شاگرد ہیں اور دارالعلوم کراچی کے معتبر عالم ہیں ۔
دونوں حضرات کے مابین یوٹیوب پر ایک دوسرے کو چیلنج تو پہلے سے موجود تھا مگر اس میں اہم موڑ پانچ اکتوبر کو اس وقت آیا جب مفتی طارق مسعود صاحب نے جہلم پہنچ کر اپنے ویڈیو چینل پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ میں جہلم کے مرکزی چوک میں موجود ہوں اور میری یہاں آمد کا مقصد انجینئیر صاحب سے گفتگو ہے ۔ اور یہ کہ ہم المھند علی المفند پر گفتگو کریں گے ۔
یہ بھی پڑھیں
- 8 سو پیروکار رکھنے والادنیا کا قدیم ترین مذہب سماری
- کینیڈا میں مذہبی منافرت کی بنیاد پر پاکستانی خاندان کے چار افراد قتل
- توہین مذہب کیس میںقید مسیحی نوجوان ضمانت پر رہا
- مذہب و ملت کے انتھک سپاہی سید عطااللہ شاہ بخاری کی حیات وخدمات (حصہ اول)
یہاں وضاحت ضروری ہے کہ المھند علی المفند مولانا خلیل احمد سہارن پوری متوفی 1926ء کی تصنیف ہے جو عقائد علماء اہلسنت دیوبند پر مشتمل ہے ۔ یہ کتاب بریلوی مکتب فکر کے بانی مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب کی تصنیف حسام الحرمین کے جواب میں لکھی گئی تھی ۔
حسام الحرمین 1906ء میں دارالعلوم دیوبند کے علماء کے خلاف لکھی گئی جس پر سعودی عرب کے علماء سے تصدیقی فتوے بھی موجود تھے ۔ 1907ء میں المھند لکھی گئی جسے لکھنے کے بیس پچیس سال بعد شائع کیا گیا ۔
انجینئیر صاحب نے قبل ازیں اپنے ایک ویڈیو بیان میں یہ چیلنج دے رکھا تھا کہ کوئی دیوبندی میرے ساتھ اس بات پر مناظرہ کرنے کبھی نہیں آئے گا اور یہ کہ المھند علی المفند میں فلاں فلاں باتیں درست نہیں۔ مگر مفتی طارق مسعود صاحب جہلم پہنچ کر اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر مناظرے کے وقت کا تعین چاہتے تھے ۔
ان کے چیلنج سے اگلے روز انجینئیر صاحب نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر خبر دی کہ جہلم انتظامیہ مفتی صاحب کو ڈھونڈ رہی ہے اور وہ روپوش ہو چکے ہیں اور یہ کہ ان کا فون بند ہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے مناظرے سے بھی انکار کر دیا ۔
سوشل میڈیائی مناظرے
اڑتالیس گھنٹے مکمل ہونے کے بعد مفتی طارق مسعود نے جہلم سے واپسی کا اعلان کرتے ہوئے اپنا نمبر بند ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ جو نمبر ہم نے دیا تھا وہ کسی مقامی عالم کا تھا وہ نمبر بند نہیں ہوا ۔ یوں ایک سو سال سے جاری دیوبندی بریلوی جھگڑا مناظرے کی نوبت آنے سے پہلے ہی ایک بار پھر ٹھنڈا پڑ گیا۔
جاتے جاتے مفتی طارق مسعود نے خود کو فاتح جہلم سمجھتے ہوئے انجینیئر محمد علی مرزا کی رسوائی اور فرار پر طعنہ زنی کر کے انہیں دوبارہ فرعونیت سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔
تھی خبر گرم کہ غالب کہ اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر یہ تماشا نہ ہوا
اس پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ علماء کا ایک دوسرے کے ساتھ عزت احترام کا تعلق ہونا چاہیئے۔ کیا کبھی مولانا تقی عثمانی صاحب نے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو چیلنج دیا؟ یا کبھی ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے کراچی جا کر تقی عثمانی صاحب کو للکارا؟
حالانکہ ہر دو صاحبان اپنے شاگردوں سے زیادہ بڑے اور معتبر عالم ہیں ۔ مفتی صاحب کے مطابق مرزا صاحب کو اصلاح کی ضرورت ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مفتی صاحب کو اصلاح کی ضرورت نہیں ۔ مفتی صاحب کو بھی اصلاح کہ ضرورت ہے ۔
انہیں بھی چاہیئے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو یوں مناظرے بازیوں میں ضائع نہ کریں ۔ مرزا صاحب کو بھی چاہیئے کہ یا تو وہ دوسروں کو للکارنا بند کریں یا پھر عین وقت پر چھپ کر خواہ مخواہ کی رسوائی نہ مول لیں ۔ آخر کو ان کے پرستاروں نے بھی مخالفین کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
ایک تاریخی حکایت،سنیئے اور سر دھنیئے
عباسی حکومت کے آخری دور میں ایک وقت وہ آیا جب دارالخلافہ بغداد میں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی مسئلہ پر مناظرہ ہونے لگا ۔ ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ مناظرے ہو رہے تھے دروغ بر گردن راوی پہلا مناظرہ اس بات پر تھا کہ ایک وقت میں سوئی کے نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟ دوسرا مناظرہ اس موضوع پر تھا کہ کوا حلال ھے یا حرام؟
تیسرے مناظرے میں یہ تکرار چل رہی تھی کہ مسواک کا شرعی سائز کتنا ہونا چاہیے؟ ایک گروہ کا کہنا تھاکہ ایک بالشت سے کم نہیں ہونا چاہیے اور دوسرے گروہ کا یہ ماننا تھا کہ ایک بالشت سے چھوٹی مسواک بھی جائز ھے
یہ مناظرے چل ہی رہے تھے کہ تاتاری فوج بغداد میں داخل ہوئی اور سب کچھ تہس نہس کر دیا
مسواک کی حرمت بچانے والے لوگ خود ہی بوٹی بوٹی ہو گئے
سوئی کی نوک پر فرشتے گننے والوں کی کھوپڑیوں کے مینار بن گئے جنہیں گننا بھی ممکن نہ تھا ۔
کوے کے گوشت پر بحث کرنے والوں کے مردہ جسم کوے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے
اسی کو آج کے حالات پر قیاس کر لیجیئے سمجھ آ جائے گی کہ کرنے کا کام کیا ہے اور کیا جا رہا ہے ؟
انجنیئر محمد علی پر قاتلانہ حملہ
اکتوبر 2017ء اور مارچ 2021ء میں دو مرتبہ انجینئیر محمد علی مرزا پر قاتلانہ حملہ بھی ہو چکا ہے جس میں وہ زخمی ہوئے ۔
جب کہ مئی 2020ء میں ان کے خلاف تھانہ سٹی جہلم میں مذہبی منافرت پھیلانے کا پرچہ بھی درج ہو چکا ہے ۔ وہ خود کو کسی فرقے سے نہیں جوڑتے بلکہ خود کو علمی اور کتابی مسلمان کہتے ہیں جب کہ ان کے مخالفین انہیں گمراہوں کا ایجنٹ کہتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر فرقہ انہیں دوسرے فرقے کا ایجنٹ کہتا ہے ۔