رچرڈ سلورسٹین


ایک جھوٹ معاشرے کیلئے مجموعی طور پر شاید اتنا اثرانداز نہ ہو لیکن مسلسل جھوٹ مجموعی بربادی پر ضرور منتج ہوتے ہیں اور یہ بات تاریخ نے متعدد بار ثابت کی ہے۔اسرائیل اور ہندوستان کی جدید تاریخ میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں ،دونوں قوموں نے برطانوی استعمار کی کوکھ سے جنم لیا ۔

دونوں استعماری طاقت کی لڑائو اور حکومت کرو پالیسی کے نتیجے میں معرض وجود میں آئیں ،جہاں استعماری حکمرانوں نے مذہبی طبقات کو ایک دوسرے کے خلاف لڑایا ،قبائلی عصبتیوں کو ہوا دی تاکہ وہ برسراقتدار قوت کے خلاف متحد ہو کر اٹھ کھڑے نہ ہوں

برطانیہ کو دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بھاری قیمت چکانا پڑی ،یورپ مضمحل تھا ،معیشتیں تباہ ہوچکی تھیں ،جس کے نتیجے میں برطانیہ کو اپنی نوآبادیوں سے دستبردار ہونا پڑا۔یہی وجہ ہے کہ جب برطانیہ کا اپنی نوآبادیوں سے انخلاء ہوا تو وہ اپنے پیچھے مذہب کے نام پر لاکھوں انسانوں کے قتل عام اور ہجرتوں کی خونریز داستان چھوڑ کر گیا

یہاں بھی اسرائیل اور بھارت کے معاملے میں یکسانیت پائی جاتی ہے جب 1947 میں ہندوستان میں مذہب کے نام پر لاکھوں لوگ قتل اور دربدر ہوئے اور یہی کچھ 1948 میں اسرائیل میں بھی ہوا۔جہاں لاکھوں مسلمان اور ہندو ایک مقام سے اٹھا کر دوسرے کسی ایسی جگہ پر منتقل کردئیے گئے جو ان کیلئے اجنبی تھی


یہ بھی پڑھیں

فلسطین اسرائیل تنازعہ اور کشمیری انتفادہ

بھارت میں‌ سمگل شدہ یورینئیم پکڑے جانے پر پاکستان کا اظہارتشویش ،عالمی تحقیقات کا مطالبہ

اسرائیل کے زیراثرمغربی دنیا کا بیانیہ اور مزاحمت کرنے والی فسلطینی تنظیمیں


جبکہ اسرائیل میں بھی 1948 میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی گئی اور 400 گائوں فلسطینیوں سے خالی کروالئے گئے جن میں سے زیادہ تر آج بھی ویران پڑے ہیں ۔اپنے گھروں سے نکالے جانے والے لاکھوں فسلطینی شام،لبنان ،مغربی کنارے اور غزہ کے ان اجنبی شہروں میں جا آباد ہوئے جن کے بارے میں وہ جانتے بھی نہ تھے ۔اور وہ آج بھی ان علاقوں میں پناہ گزیں ہوکر مستقل مہاجرت کا دکھ سہہ رہے ہیں۔انہیں آج تک ان ممالک کی شہریت مل سکی اور نہ آج تک وہ ان معاشروں کا حصہ بن پائے

سیکولرازم کی بنیادسےاٹھان
باوجودیکہ دونوں ریاستوں میں مذہب کے نام پر بدترین خونریزی ہوئی ۔لیکن دونوں ممالک میں سیکولر سیاسی قوتیں اقتدار میں آئیں ۔بھارت میں کانگریس اور اسرائیل میں لیبرپارٹی،بھارت نے غیروابستہ تحریک کی بنیاد پر اپنی خارجہ پالیسی استوار کی جو فلسطینی جدوجہد کی ہمدرد ہوئی ۔بھارت نے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات بڑھائے جو اس کے اسلحہ خانہ کا فراہم کنندہ بنا اور وہی سوویت یونین عرب ممالک کو بھی اسلحہ کا سب سے سپلائر تھا

دوسری جانب اسرائیل نے عسکری و اقتصادی تعاون کیلئے مغرب کی جانب ہاتھ بڑھایا ،جن میں سے امریکہ نے اس کا ہاتھ انتہائی گرمجوشی سے ہاتھ بڑھایا جبکہ یورپ بھی اس کے ساتھ شامل تھا ۔درحقیقت یہ صف بندی سوویت امریکہ سردجنگ کے زیر اثر ہوئی

اسرائیل میں لیبر پارٹی 1948 سے 1977 تک بلاشرکت غیرے اقتدار میں رہی ،اس جماعت پر یورپ سے تعلق رکھنے والے اشکنازی یہودیوں کا غلبہ تھا ۔جبکہ عرب یہودیوں کو یورپی یہودیوں کے مقابلے میں اجڈ اور غیر مہذب تصور کیا جاتاتھا اور ان کا درجہ عرب اسرائیلی سے قدرے اونچا تھا

مذہبی قوم پرستی کا سفر
1977 میں تبدیلی کی ہوا چلنے لگی جس کے نتیجے میں سیکولر نظریات کی حامل لیبرپارٹی منظر عام سے غائب ہوتی دکھائی دینے لگی ۔اس کی جگہ عرب یہودیوں کی حمایت یافتہ دائیں بازو کے نظریات کی حامل لیکوڈ پارٹی 1948 کے بعد پہلی بار اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہوگئی۔

کچھ ایسا ہی منظربھارت میں بھی تھا جہاں آزادی کے بعد سے 1980 ء تک کانگریس پارٹی اقتدار میں رہی ۔تاوقتیکہ جرمنی اور اطالوی فاشزم کی طرز پر مسلم دشمن بیانیہ اور ہندو بالادستی کے نظریات کیساتھ سیاسی منظرنامے پر ابھرنے والی راشٹریہ سیوک سنگھ کے بطن سے جنم لینے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے کانگریس کے قلعہ اقتدار میں رخنہ ڈال دیا

اسرائیل و بھارت دونوں کی پیدائش برطانوی نوآبادیاتی کوکھ سے ہوئی ،جس کے نتیجے میں دونوں ممالک میں لاکھوں افراد مارے گئے اور کئی لاکھ لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے

بھارتیہ جنتا پارٹی 1980 میں قائم ہوئی جس کے نمایاں ترین رہنما نریندرا مودی تھی ۔جنہیں 2002 میں گودھرا ٹرین حادثہ کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے ہندومسلم فسادات کے نتیجے میں شہرت ملی ۔جو اس وقت گجرات کے گورنر تھا ۔

یہ فسادات اس وقت پھوٹ پڑے تھے جب ہندو یاتریوں کی ٹرین میں آگ لگ گئی جس کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا گیا اور اس کے بدلے میں ہندو بلوائیوں نے گجرات اور اس کے گردونواح میں کئی دنوں تک قتل وغارت کا بازار گرم کئے رکھا ۔

ان فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمان مارے گئے ۔لیکن اس تمام عرصہ کے دوران نریندرا مودی خاموش رہے ،حتی کے اس اندوہناک واقعہ کے بعد انہوں نے اس قتل عام کی مذمت اور ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ۔
نریندرا مودی کو 2005 میں مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں بھارت کا تجارتی ویزا جاری کرنے سے بھی انکار کردیا گیا اور یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ تھا

2014 میں نریندرامودی کی بی جے پی نے چھ عشروں سے برسراقتدار کانگریس کو نکال باہر کیا ۔اور جب وہ مرکز میں بھی طاقت میں آگئے تو مودی نے اسلام و مسلم دشمنی پر مبنی حکمت عملی کا کھل کر مظاہرہ کرنا شروع کردیا ۔اور کئی ایسے قوانین متعارف کروائے جن کے نتیجے صدیوں سے ایک جگہ آباد مسلم و ہندو آبادی کے مابین تفریق پیدا ہوئی اور ان کے خلاف اشتعال پھیلا

قبضہ و انضمام
2019 میں مودی نے بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی ،وہاں عملاً مارشل لاء لگادیا ،بھارتی فوجیوں نے شہریوں پر حملے کئے اور ہزاروں افراد بشمول آزادی کے حامی سیاسی رہنمائوں کو قید کرلیا گیا اور دہشت و وہشت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے

اگلا ممکنہ قدم کشمیر کا بھارت میں ممکل انضمام ہوگا جس کے خلاف پاکستان کا ردعمل شدید ہوسکتا ہے ،کیوں کہ وہ کشمیر کو اپنا حصہ مانتا ہے اور خود کو کشمیری مسلمانوں کے حقوق کا محافظ سمجھتا ہے
بالکل اسی طرح اسرائیل میں بھی دائیں بازو کی جماعتیں 1977 تک برسراقتدار رہیں اور انہوں نے فلسطینیوں کی زمین اور وسائل پر بتدریج قبضہ کرتے ہوئے مغربی کنارے کو ضم کرلیا ۔

یہاں امتیازی نظام کے تحت آباکاروں کو مکمل اسرائیلی شہریت دی گئی جبکہ فلسطینی ناپسندیدہ قرار پائے
اسرائیل اور بھارت دونوں خود کو مسلمانوں کا مشترکہ دشمنی سمجھتے ہیں ۔جن میں اسرائیل کیلئے حزب اللہ ،حماس جیسی اسلام پسند تنظیمیں اور ایران جیسے ملک شامل ہیں ۔اسی طرح بھارت کشمیری میں اٹھنے والی تحریک پاکستان کی جہادی سوچ کو اپنے لئے خطرہ بنا کر پیش کرتا ہے۔دونوں ممالک میں مسلمان بڑی اقلیت ہیں جنہیں اکثریت یعنی ہندو اور یہودی اپنے اقتدار اور غلبے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں

حالیہ سالوں کے دوران اسرائیل اور بھارت کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوئی جس کی بنیاد اسلام اور مسلم مخالفت پر رکھی گئی

اور یہی مشترکہ وجوہات انہیں ایک دوسرے سے قریب لے کر آنے کی وجہ بنی ہیں اور نریندرامودی و نتن یاہو برادرانہ جذبے سے ایک دوسرے کیساتھ ہم آغوش ہوگئے ہیں ،گذشتہ سال دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کے ملکوں کا دورہ کیا اور یہ دونوں کی تاریخ کا پہلا موقع تھا جب نریندرا مودی تل ابیب اور نتن یاہو دہلی آئے
اور یہ برادرانہ معاشقہ مسلم مخالفت کی بنیاد پر قائم ہوا
اور پھر یہ برادرانہ محبت فوجی و انٹیلی جنس شعبوں تک پھیل گئی ،اور اسرائیل جو اسلحہ کا ایک ابھرتا ہوا بیوپاری تھا ،بھارت کی مجموعی دفاعی ضروریات کا نصف حصہ پورا کرنے لگا

لابیوں کا کردار
امریکہ میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اسرائیل اور بھارت دونوں کی طاقتور لابیاں موجود ہیں جو اپنے اپنے ملکوں میں مذہبی انتہا پسندوں کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا سبب بن رہی ہیں ۔
اسرائیل کی متعدد لابیاں فلسطین میں یہود آبادکاروں کی نئی بستیوں کیلئے کروڑوں ڈالر کی مدد فراہم کرچکی ہیں جبکہ کئی اسلامو فوبیا کی آڑ میں سیاسی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں ۔

ان میں اینٹی ڈیفمیشن لیگ ،امریکن جیوش کمیٹی ،سٹینڈ ودھ اس اور مڈل ایسٹ فورم اور دیگر شامل ہیں،ان لابیوں کو فنڈنگ فراہم کرنے والوں میں اسرائیل نواز ارب پتی شامل ہیں ۔اسی یہودی ماڈل پر عمل پیرا ہوتے ہوئے امریکی ہندئوں نے بھی امریکہ میں تھنک ٹینکس اور فائونڈیشنز کا ایک نیٹ ورک قائم کرلیا ہے جو ہندوتوا کی ترویج کیلئے کام کررہی ہیں ۔ان میں ہندو امریکن فائونڈیشن (HAF)،دھرما سوئلائزیشن فائونڈیشن اور ایکال ویدلایا فائونڈیشن نمایاں ہیں

اگرچہ ہندو امریکن فائونڈیشن عوام کو ہندو ازم کے بارے میں آگاہی دینے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ہندومت کے فروغ کے ساتھ ساتھ وہ اسلام اور مسلم دشمنی کا فریضہ بھی سرانجام دے رہی ہے۔حال ہی میں ایچ اے ایف کی جانب سے چار بھارتی امریکن تنظیموں کےخلاف 75 ملین ڈالر ہرجانے کے دعویٰ کا اعلان کیا تھا کیوں کہ کولیشن ٹو سٹاف جینوسائیڈ ان انڈیا کے نام سے تنظمیوں کے اتحاد نے امریکی انتظامیہ کو کووڈ ریلیف فنڈ کے تحت 4 لاکھ ڈالر وصول کرنے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا

تنظیموں کے اتحاد نے موقف اختیار کیا تھا کہ امریکی ٹیکس گزاروں کا پیسہ بھارت میں نفرت پھیلانے والے گروپوں کو طاقت فراہم کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔ابھی امریکہ میں ایسے خاندان موجود ہیں جنہیں کووڈ 19 کے نتیجے میں ہونے والے انسانی و مالی نقصان سے نمٹنے کیلئے معاونت کی ضرورت ہے ۔اس لئے ہر شخص جو شفافیت ،انصاف اور حکومتی احتساب پر یقین رکھتا ہے کو اس بارے میں سوچ بچار کرنا چاہیے کہ
ایسے گروپ جو نسل پرست اور متشدد نظریات کی حامل جماعتوں کی فرنٹ مین تنظیموں وفاقی کووڈ فنڈ سے رقم کیوں مل رہی ہے ؟

بھارتی امریکی تنظیموں کے اتحاد کی جانب سے یہ بیان الجزیرہ کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کووڈ 19 فنڈ سے ایچ اے ایف اور ہندوتوا کی حامی تنظیموں کو 800،000ڈالر جاری کئے گئے ہیں ۔
جس پر ایچ اے ایف نے الجزیرہ کی رپورٹ کے لکھاری سے رپورٹ واپس لینے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ۔تاہم الجزیرہ اپنے موقف پر قائم رہا ۔اور اسے واپس کرنے سے انکارکردیاجبکہ تنظیموں کے اتحاد کی جانب سے نائیک جن کا نام ایچ اے ایف کے دعویٰ میں شامل تھا ایک ٹوئٹ میں کہا
اس طرح کی قانونی کاروائی مجھے خاموش کروانے کی کوشش اور آزادی اظہار پر قدغن ہے


کبوترباکبوتر باز با باز
جہاں اسرائیل بھارت کی سرکاری سطح پر گرمجوشی بڑھ رہی ہے وہیں کئی تنظیمیں انفرادی طور پر بھی دوطرفہ تعلقات کو پروان چڑھانے کیلئے کوشاں ہیں ،ایچ اے ایف اور مڈل ایسٹ فورم کے درمیان کئی مواقع پر قریبی تعلق دیکھنے میں آیا ۔

واضح رہے کہ مڈل ایسٹ فورم کے بانی ڈینئل پائپس کا شمار کٹر اسرائیل حامیوں میں ہوتا ہے جو اپنے بیانیے کو سچ ثابت کرنے کیلئے غلط بیانی اور غلو سے کام لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔جو بیت المقدس میں فلسطینی اتھارٹی کے دفاتر اور عمارات کو مسمار کرنے کی وکالت کرچکے ہیں

اس کے ساتھ ساتھ مڈل ایسٹ فورم امریکی یہودیوں کی اسلام مخالف تحریک کا بھی اہم رکن ہے جن کے پوری دنیا میں مسلم مخالف تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ قریبی روابط ہیں ۔جس میں انگلش ڈیفنس لیگ کے ٹومی رابنسن کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف مظاہروں کیلئے باقاعدہ فنڈنگ بھی کی گئی ۔اس کے علاوہ ڈچ پارلیمنٹ کی دوسری بڑی جماعت کے رہنما گیرٹ وائیلڈر کی مالی پشت پناہی بھی ایم ای ایف کرتی ہے
جون 2020 میں ایچ اے ایف نے اپنے ایک پروگرام میں ایم ای ایف کے سٹیفرز کلف فورڈ سمتھ اور سام ویسٹروپ کو بلایا ،سام ویسٹروپ وہ شخص ہے جسے ایک تیونسی شہری پر دہشت گردی کا غلط الزام لگانے پر برطانوی عدالت نے 1لاکھ 40 ہزار پونڈ جرمانہ کیا

اس کے علاوہ ویسٹروپ بھارتی آن لائن میگزین دی پرنٹ میں ایک مسلم مخالف مضمون لکھ چکے ہیں جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ مسلم خیراتی ادارے امداد کی آڑ میں دہشت گرد فوجی تیار کررہے ہیں جن کا مقصد بھارتی حکومت کو ختم کرنا ہے
ڈینئل پائپس اور اس طرح کے کئی دوسرے لوگ نفرت انگیز مہم میں مصروف رہتے ہیں ،جبکہ ان میں سے بعض نے امریکی مسلمانوں کو کیمپوں تک محدود کرنے کی تجویز پیش کی کیوں کہ ان کے نزدیک مسلمان عیسائی اور یہودی طرز زندگی کو تلپٹ کرنا چاہتے ہیں

جبکہ سمتھ نے دوسرے بھارتی جریدے میں شائع ہونے والے ایک اورمضمون میں دعویٰ کیا کہ بی ڈی ایس کی تحریک اسرائیل اور بھارت میں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔اپنے مضمون میں انہوں نے امریکی رکن کانگریس راشدہ طالب کو مسلم غلبہ کی وکیل قرار دیا

اپنے ایک اور مضمون میں سمتھ نے اپنے نظریے کو مزید وسعت دیتے ہوئے لکھا کہ بھارت میں ہندو اور اسرائیل میں یہودی اقتدار کے خاتمے کا مقصد صرف ان ممالک میں اسلام کا نفاذ ہی نہیں بلکہ گزرے ہوئے مسلم دور کی نشاۃ ثانیہ ہے اور اس طرح جہادی ہندو بھارت اور یہودی اسرائیل پر اسلام کو غالب سمجھنا اپنا قانونی حق سمجھتے ہیں

گزرے زمانے کی یادوں کی مشترکہ وراثت
ہندوتوا اور صیہونیت دونوں کی مشترکہ وراثت تاریخی افسانوں پر مشتمل ہے ،جس کے نزدیک مغربی انداز کی جمہوریتوں کو ازکاررفتہ مذہبی نظریات سے خطرہ ہے اور اس طرح بھارت اور اسرائیل جو کہ امن پسند اور جمہوریت نواز معاشرے ہیں جن پر ان کے دشمن اپنے تنگ نظر مذہبی نظریات مسلط کرنا چاہتے ہیں

دیکھا جائے تو ہندتوا اور صیہونیت بالادستی کے نظریے کی وجہ سے دونوں ممالک جمہوریت سے نسل پرست ممالک میں بدل چکے ہیں جہاں مذہبی اکثریت یعنی ہندوئوں اور یہودیوں کو مسلم اقلیت سے خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے

لیکن ہم نے گذشتہ چار سال میں ٹرمپ دور صدارت کے دوران دیکھا کہ ایک جھوٹ معاشرے کو اتنا متاثر نہیں کرتا لیکن پے درپے جھوٹ سب کچھ تباہ کردیتے ہیں اس سے اداروں پر اعتماداور اعتبار ختم ہوجاتاہے،اور اس کے نتیجے میں نفرت انگیزی کو پھیلانے والا معاشرے کا مدافعتی نظام بھی شدید متاثر ہوجاتا ہے

حالیہ سیز فائر کے بعد بڑی تعداد میں فلسطینی جشن منارہے ہیں ،تصویر انٹرنیٹ

شاید دنیا ہندو نسل پرست ریاست کے نظریے کو ابھی قبول نہ کرے لیکن جب انفرادی سطح پر لوگوں کو ان کے مذہب اور نسل کی بنیاد پر تشدد بنائے جائے کے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہونے لگیں اور انہیں دہشت گردی کے نعروں میں ان کے اعضاء سے محروم کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائےتو سیکولر ازم کی بنیادوں سے اٹھنے والے بھارت کی ایک ہندوقوم پرست ریاست میں تبدیل ہونے کی حقیقت چند ہی قدم کے فاصلے پر ہے

2016 میں ایک بھارتی تنظیم ویوک کناڈا انٹرنیشنل فائونڈیشن وی آئی ایف کی دعوت پرایم ای ایف کے بانی ڈینئیل پائپس نے بھارت کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ہندوتوا کے حامی دانشوروں ،صحافیوں ،وزارا اور فوجی افسروں کو عالمی جہاد کے خطرے کے بارے میں لیکچر دیا اور بھارت کو خبردار کیا کہ بالخصوص مشرق وسطیٰ کے حالات سے بھارت بھی متاثر ہوسکتا ہے
اس طرح نفرت انگیزی کی مثالیں ہمیں نازی جرمنی کے حوالے سے ملتی ہیں جہاں یہودی ،خانہ بدوش ،کیمونسٹ ،ہم جنس پرست اور معذور لوگ ان کی نفرت کا نشانہ بنتے تھے ،یا روانڈا جہاں تتسی ،بوسنیا میں مسلمان اور اسرائیل میں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا

لیکن ان سب اقدامات کا مقصد ڈیڑھ ارب سے زائد ایک عقیدے کے لوگوں کو اپنا مطیع بنانے کا ایک خطرناک فریب ہے ،جس کا نتیجہ گجرات کی طرح دو مذہبی گروہوں کے درمیان تصادم نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مذہبی تصادم پر منتج ہوگا جس کا نتیجہ قوموں کے درمیان ایک اور عالمی جنگ ہوسکتا ہے


اس تحریر کے مصنف رچرڈ سلورسٹین ہیں
جو ان کے بلاگ the Tikun Olam blog سے ترجمہ کیا گیا ہے