سدھیر آفریدی
پشاور
دو نگران وزراء اعلیٰ پر مشتمل قومی مالیاتی کمیشن کا مردم شماری کے نتائج جاری کرناغیر آئینی
قبائلی اضلاع کی نشستیں بارہ سے کم ہو کر محض چھ رہ گئی:سمینار سے مقررین کا خطاب
انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس)پشاور کے زیر اہتمام ”قومی مردم شماری 2023 اور اس کے خیبرپختونخوا پر اثرات“ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے قومی مردم شماری 2023 کے نتائج پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اس مردم شماری میں خیبر پختون خوا کی آبادی اصل سے کم دکھائی گئی ہے
جس کااثر نہ صرف قومی اسمبلی میں صوبے کی نشستوں میں کمی کی صورت میں صوبے کی نمائندگی پرپڑے گا بلکہ اس کا ایک اور بڑا نقصان این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم میں خیبرپختونخوا کا حصہ دو کھرب روپے سے زائد نقصان بھی برداشت کرنا پڑے گا۔
سیمینار سے آئی آر ایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل، جماعت اسلامی (جے آئی) کے سابق سینئر صوبائی وزیر عنایت اللہ خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق ممبر صوبائی اسمبلی احمد خان کنڈی، عوامی نیشنل پارٹی کے سابق ممبر صوبائی اسمبلی صلاح الدین،ماہر شماریات جاوید خلیل اور پروفیسر ڈاکٹرفضل الرحمان قریشی نے خطاب کیا۔
مقررین نے کہا کہ نئی مردم شماری کے خیبرپختونخوا پر منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ صوبے کی آبادی میں اضافہ ملک کی آبادی میں اوسط اضافے سے کم دکھایا گیا ہے جبکہ بعض اضلاع میں آبادی میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نامکمل ہے اور نگران حکومت کے پاس مردم شماری کے نتائج کی منظوری کا اختیار نہیں ہے۔
مقررین نے محسوس کیا کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی نگراں حکومتوں نے مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے کر اپنے مینڈیٹ اور آئین سے تجاوز کیاہے جبکہ سی سی آئی کو نتائج کی منظوری کا کوئی حق نہیں ہے۔انہوں نے سیاسی قوتوں پر زور دیا کہ وہ اپنی سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر صوبے کے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔
یہ بھی پڑھیں
- سیاسی مداخلت ،خیبرپختونخواہ میں شعبہ صحت کی تباہی کا سبب
- خیبرپختونخواہ کا بلدیاتی نظام ،وسائل کے بغیربے معنی اختیارات
- ایوبیہ نیشنل پارک کی حدود میں نئی تعمیرات پر اعتراضات
- پرویز خٹک کی نئی تحریک انصاف اور معجزے کی منتظر ہزارہ کی قیادت
عنایت اللہ خان نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج پر صوبے کے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔کے پی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ بیرون ملک مقیم ہیں اور ان کی گنتی کے لیے قوانین میں نرمی کی جانی چاہیے۔ جے آئی رہنما نے کہا کہ صوبے کے متعدد علاقوں میں خاندانوں کی تعداد میں اضافے کے بجائے کمی واقع ہوئی ہے جو ناقبل فہم اور قابل تشویش ہے۔انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے حلقوں کی حد بندی آبادی کی بنیاد پر کی جائے گی جس سے خیبر پختونخوا بالخصوص ضم شدہ قبائلی اضلاع کی نشستوں میں کمی کا خدشہ ہے۔
عنایت اللہ خان نے کہا کہ قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے 82 فیصد شیئرز آبادی کی بنیاد پر تقسیم کیے جاتے ہیں اور حالیہ مردم شماری میں مبینہ خامیوں سے کے پی کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔احمد خان کنڈی نے کہا کہ مردم شماری پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ زیادہ تر وسائل آبادی کی بنیاد پر تقسیم کیے جاتے ہیں۔
پی پی پی رہنما نے کہا کہ حالیہ مردم شماری کے نتائج کو نظر انداز کرنا مجرمانہ غفلت کے مترادف ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ کے پی میں خاندانوں کو افراد سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر ہر پلیٹ فارم پر صوبے کا یہ دیرینہ مسئلہ اٹھائیں گے۔احمدکنڈی نے کہا کہ سانحہ مشرقی پاکستان بھی آبادی اور وسائل میں عدم توازن کے نتیجے میں وقوع پزیر ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
صلاح الدین نے کہا کہ کے پی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتیاں ہوتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کو اس کے آئینی حقوق نہیں دیے جا رہے اور اے این پی اس معاملے پر خاموش نہیں رہے گی۔اے این پی کے آئندہ ورکنگ کمیٹی اور صوبائی کونسل کے اجلاسوں میں اس اہم مسئلے کو شدت کے ساتھ اٹھایاجائے گا۔
جاوید خلیل نے سیمینار سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر حیران کن ہے کہ ستر کی دہائی میں بھی قبائلی اجلاع کی قومی اسمبلی میں چھ نشستیں تھیں اور اب 2023میں بھی ان کے لیئے چھ نشستیں مختص کی گئی ہیں جو پختون قبائل کے ساتھ ایک بھونڈامذاق ہے۔
انہوں نے کہا ترقی یافتہ ممالک تو ایک طرف بھارت،ملائشیا اور کوریا جیسے ترقی پزیر ممالک میں بھی مردم شماری اور آبادی کی بنیا دپر وسائل کی تقسیم کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں مردم شماری جیسے حساس معاملات کا فیصلہ بھی بند دروازوں کے پیچھے ایسے اجلاسوں میں کیاجاتا ہے جن کی آئینی حیثیت مشکوک ہے۔
انہوں نے کہاکہ عبوری حکومتوں کو صوبوں کے عوام کی قسمتوں سے جڑے اس اہم مسئلے میں فیصلے کااختیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ستر کی دہائی میں بلوچستان کی نشستیں سات سے بڑھ کر اب سترہ ہو چکی ہیں جب کہ قبائلی اضلاع کی نشستیں بارہ سے کم ہو کر محض چھ رہ گئی ہیں جو ناانصافی ہے۔
ڈاکٹر اقبال خلیل نے کہا کہ کے پی کی آبادی میں اضافے کی شرح سب سے کم دکھائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کے پی اور سندھ میں قومی اسمبلی کی نشستوں کا فرق صرف ایک ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح صوبے سے خواتین کی مخصوص نشستوں میں بھی ایک کم کی جائے گی۔ کے پی سے لی گئی قومی اسمبلی کی چھ نشستیں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو دی جائیں گی۔ ہر صوبے کو دو دو نشستیں ملیں گی۔
یہ کے پی کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور اس کے خلاف متحدہ آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی آر ایس صوبے کا واحد مستند تھنک ٹینک ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے صوبے اور سارے خطے کے مسائل اجاگر کررہاہے اور مسقتبل قریب میں ان سرگرمیوں کومذید وسعت دی جائے گی۔