مولانا تنویر احمداعوان
شاہ جی تحریکی زندگی کا اہم باب شاردا ایکٹ کو ناکام بنانا ہے ،جس کی رو سے اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی اور اکیس سال سے کم عمر لڑکےکی شادی قانوناً جرم قرار دیا گیا تھا ،اس بل کو دہلی سنٹرل اسمبلی میں رکن اسمبلی ہربلاس شاردا نے 23 ستمبر 1929 ء کو پیش کیا
اسمبلی نے 28 ستمبر کو پاس کرکے یکم اپریل 1930 سے نافذ العمل قرار دے دیا تھا ،اس کے ردعمل میں جمیعت علماء ہند نے ملک گیر تحریک شروع کی اور اسے دین میں مداخلت قرار دیا ،آپ کو پنجاب اور سرحد کے اضلاع کی طرف روانہ کیا
آپ نے ہزاروں 18سال سے کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح پڑھاکر عوام کو ترغیب دی کہ وہ اس قانون کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیں ،اورآپ ہی کی شب وروز کی جدوجہد کے بعد بھرپور عوامی حمایت سے شارداایکٹ کو ناکام بنادیا گیا۔
دوسری جانب نہرو رپورٹ اورکانگریس کی مسلسل جانبداری اور مسلمانوں کے حقوق کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے مسلم قائدین نے الگ تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا ،چنانچہ 1929 ء میں چودھری افضل حق کی زیر صدارت مسلم قائدین نے آل انڈیا کانگریس کے پنڈال میں مجلس احرار کی بنیاد رکھی ،اور آپ کو اس کا پہلا صدر منتخب کیا گیا
مجلس احرار نے آزادی ہند کے لیے کانگریس کے موقف کی تائید کرتے ہوئے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا ،13 مارچ 1930 کو گاندھی جی نے ضلع گجرات (کاٹھیاوار)سے سول نافرمانی کا اعلان کیا تو انگریز سرکار نے ان کو گرفتار کرلیا ،جس سے سارے ہند میں نمک سیتہ گر کی تحریک پھیل گئی
شاہ جی نے پنجاب میں سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے امروہہ،الہ آباد ،آگرہ ،بمبئی اور بنگال کے بھرپور انداز میں دورے کئے ،اسی دوران آپ پر دوقاتلانہ حملے بھی کئے گئے تھے،بالآخر ایک بار پھر آپ کو 30 اگست 1930 کو دیناج پور (بنگال )سے انگریز سامراج نے آپ کو گرفتار کرکے چھ ماہ قید بامشقت سنا کر ڈم ڈم جیل بھیج دیا ،
رستم زمان غلام حسین عرف گاما پہلوان نون والے کو آپ کی اسارت کی اطلاع ملی تو اس نے جیل میں آکر ملاقات کی تھی ،جنوری 1931 میں "گاندھی اردن پیکٹ "کے تحت نمک ستیہ گر تحریک ختم کردی گئی اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا جس میں آپ کو بھی رہائی ملی اور آپ نے نئے عزم کے ساتھ مجلس احرار کی تنظیم نو کرنی شروع کی۔(حیات امیرشریعت سے ماخوذ)
یہ بھی پڑھیں
- مذہب و ملت کے انتھک سپاہی سید عطااللہ شاہ بخاری کی حیات وخدمات (حصہ اول)
- اخوندسالاک کابلگرامی مغلیہ سلطنت کےخلاف قبائل کو متحد کرنیوالے صوفی بزرگ
- کابل کے ایک تاجرکا آنکھوں دیکھا حال،طالبان کی آمدکا سنا تو ہر طرف خوف پھیل گیا ،لیکن جو مناظر دیکھے حیران کن تھے
- سلیم قادر عثمان اوغلو،آل عثمان کا آخری شہزادہ جو آج بھی اپنے وطن کو لوٹنے کو بے چین ہے
1936 ء کے عام انتخابات میں مجلس احرار نے بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور ڈسکہ سے چودھری سرظفراللہ خان مرزائی کےبھائی چودھری اسداللہ جے مقابلہ میں چودھری غلام رسول ستراہ کو ٹکٹ دیا ،اورشاہ جی نے پوری قوت کے ساتھ مہم چلائی نتیجتاًمجلس احرار کے نمائندے اور ختم نبوت کے رکھوالے کو عظیم فتح حاصل ہوئی۔
امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ اورمولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمہ اللہ نے انگریز ی فوج میں بھرتی کے خلاف عوام کو ابھارنے کے لیے ضلع میانوالی کاایسا دورہ کیا جس کی وجہ سے یونینسٹ حکومت اور وزیر اعلیٰ سرسکندر کو سخت مشکلات کاسامنا کرنا پڑا
بالآخر ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت 8 دسمبر 1939ءکو ضلع مظفر گڑھ سے زیردفعہ 121،302،124الف اور 153بحکم سیشن جج راولپنڈی گرفتار کرکے لالہ موسیٰ اور گجرات سمیت مزید کئی مقدمات درج کردیئے گے،جن کی تفصیلی سماعتیں مختلف لاہور اورراولپنڈی کی عدالتوں میں ہونے کے بعد 7 جون 1940 کو سیشن جج لاہور مسٹر ڈی فالشا نے باعزت طور پر بری کردیا
اس خبر کو برلن ریڈیو نے الفاظ کے ساتھ نشر کیا کہ "ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے سب سے بڑے باغی مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو صوبے کی سب سے بڑی عدالت نے بری کردیا "۔نیز شعبہ نشرو اشاعت جرمنی نے امیر شریعت کی تصاویر کو ہوائی جہاز کے ذریعے ملک بھر میں تقسیم کیا۔
رہائی کے بعد بھی امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نےانگریزی فوج میں بھرتی ہونے خلاف مہم کو جاری رکھا جب کہ یہ زمانہ جنگ عظیم دوم کا تھا ،آپ کی کوششوں اور تدبیروں سے سینکڑوں نوجوانوں نے انگریزی فوج کو خیر آباد کہا یا انہیں سرکار نے خود ہی نکال دیا ۔
انگریز فوج میں بھرتی کے خلاف مہم اور گرفتاری
مئی 1943 کو آل انڈیا مجلس احرار ورکنگ کمیٹی نے سہارن پور اجلاس میں حکومت الہیہ کی قرارداد منظور کی ،اور اس نعرہ کو اپنا شعار بنایا "خلقت خدا کی ،حکم بھی خدا کا ” ان الحکم الا للہ۔اس قرارداد کے پاس ہونے کی وجہ سے حضرت امیرشریعت رحمہ اللہ کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کا باعث بنی

آپ نے پورے ہند میں بھرپور انداز میں اپنے موقف کو پیش کرکے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی جدوجہد کی ،تاہم اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کو مسلمانوں میں مقبولیت حاصل ہو چکی تھی
شاہ جی کی نگاہ وبصیرت نے بخوبی جان لیا تھا کہ ہند کی آزادی اور تقسیم مقدر ہوچکی ہے ،آپ نے متعدد بار مسلم لیگی قیادت بالخصوص قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ سے تقسیم اور قیام پاکستان سے متعلق اپنے تحفظات و خدشات کے ازالہ اور افہام وتفہیم کے لیے وقت مانگا مگر اس کی کوئی صورت نہ بنائی گئی ۔
نیز 27 مارچ 1946 کو مجلس احرار ورکنگ کمیٹی کے ہنگامی اجلاس لاہور میں امیر شریعت رحمہ اللہ نے قرارداد پیش کی "مسلم لیگ کے نظریہ پاکستان سے مجلس عاملہ کسی صورت اتفاق نہیں کرسکتی ہے،ہم تقسیم ہند کے نظریہ کا تجزیہ محض اقتصادی اور معاشرتی اصولوں پر نہیں کرتے،
مسلم لیگ کے نظریہ پاکستان اور تقسیم ہند کے فارمولے سے اختلاف
پاکستان قبول کرنے کا مطلب ملت اسلامیہ ہندیہ کو تین مختلف حصوں میں منتشر کرنا ہوگا،پنجاب (کا نامکمل صوبہ ،سرحد ،سندھ اور بلوچستان ہندوستان کے دوسرے پر اور بالکل دوسرے سرے پر مشرقی بنگال اور آسام کے کچھ اضلاع کو پاکستان بنایا جارہا ہے
ملت اسلامیہ ان دوحصوں میں بٹ کر نہیں رہے گی ،بلکہ اس سے ایک بڑے حصے پر ہندوستان میں دوامی غلامی مسلط رہے گی،ان دو پاکستانی ریاستوں میں مؤثر غیرمسلم اقلیت رہے گی ،نیز پاکستان کی دونوں ریاستیں جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے کی کسی بیرونی حملے کی صورت میں امداد نہیں کرسکیں گی،اور ان دو ریاستوں کے درمیان ہندوؤں کو دنیا کی سب سے بڑی سلطنت سونپ دی جائے گی،جس میں مسلم اقلیت کی پوزیشن حددرجہ غیر موثر رہے گی۔(حیات امیرشریعت )
پنجاب کی تقسیم پر مجلس احرار نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 19 مارچ 1947 ء کولاہور بریڈ لے ہال میں پنجاب سوشلسٹ پارٹی اور مجلس احرار کےمشترکہ اجلاس میں مسلم لیگ پر زور دیا کہ وہ پنجاب کی تقسیم کو کسی صورت قبول نہ کرے ورنہ مشرقی پاکستان کا مسلمان تباہ ہو جائے گا۔
لیکن ہوا وہی جس کا خدشہ تھا کانگریس نے پنجاب کے فسادات کی آڑ لے کر اعلان کیا کہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم ناگزیر ہے۔22 مارچ 1947 کو لارڈماونٹ بیٹن کووائسرائے ہند بنایا گیا تھا ،جس کی ذمہ داری تقسیم کے عمل کو مکمل کروانا تھا ،چنانچہ 3 جون کو 1947 کو تاریخی خطاب کیا ،جس کی رو سے برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا
اور ساتھ ہی پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر مہر ثبت کردی ،نتیجتاًسکھوں اور ہندووں نے وہاں کی مسلم اقلیت کا قتل عام شروع کرکے ظلم و ستم کی المناک داستانیں رقم کیں ۔قیام پاکستان کے بعد رونما ہونے والے دالخراش واقعات پر امیرشریعت سیدعطا ء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نہایت رنجیدہ رہتے تھے
آپ نے 24 دسمبر 1947کوصدر مجلس احرار ماسٹر تاج الدین انصاری کے نام خط میں پاکستان کے بارے میں اپنے زریں الفاظ تحریر کیے”تقسیم پنجاب کو کانگریس نے پیش کرکے مسلمانوں سے پاکستان کی بہت بڑی قیمت ادا کروائی اور کروا رہی ہے ،ابھی نہ جانے کب تک مسلمانوں کو سوددر سود ادا کرنا پڑے گی۔
ہر مسلمان کو پاکستان کی فلاح و بہبود کی راہیں سوچنی چاہیں ،اور اس کے لیے عملی اقدامات اٹھانا چاہیں ۔مجلس احرار کو ہر نیک کام میں حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چایئے ،خلاف شرع کام سے اجتناب کرنا چاہیے۔
امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی تصوف و سلوک میں اولاً نسبت محافظ ختم نبوت پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ سے قائم ہوئی تھی ،یاد رہے کہ آپ نے ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی،
علوم ظاہریہ مولانا غلام مصطفیٰ صاحب رحمہ اللہ ،مفتی حسن رحمہ اللہ سے اور فن قرات کی تعلیم شیخ عاصم عمر رحمہ اللہ سے حاصل کی تھی ۔بلاشبہ پیکرغیرت وجرات اور حمیت دین سے سرشار امیر شریعت مولانا سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے جہاں جاہلانہ رسومات کا خاتمہ کرنے میں تحریکی کردار ادا کیا وہیں برطانوی سامراج کے پروردہ شدھی و سنگٹھن تحاریک اور مرزاغلام احمد قادیانی کی خودساختہ اور جھوٹی نبوت کے خلاف سینہ سپر ہو کر ان کے گھڑ ربوہ میں کھڑے ہوکر ان کو للکارا اور اسلام کی حقانیت کو بیان کیا۔(حیات امیرشریعت )
فتنہ قادیانیت کےخلاف شمشیر بے نیام
ختم نبوت کے حوالے سے امیرشریعت رحمہ اللہ کی جدوجہد کو جاننے سے پہلے ایک پس منظر کا جاننا ضروری ہے کہ مرزائیت نے جہاں اسلامی عقائد اور بنیادوں پر حملے کئے وہیں انہی قادیانیوں نے ہندوؤں کی سوامی دیانند جیسی مقدس شخصیات کی کردار کشی کرکے انہیں پیغمبر اسلام ﷺکی توہین کا موقع فراہم کیا،
مرزا قادیانی کی طرف سے "براہین احمدیہ” اور ہندومت کی طرف سے پنڈت دیانند نے "سیتارتھ پرکاش "شائع کی گئیں اور اس سلسلے کوقاسم علی مرزائی نےکتاب "انیسویں صدی کا مہا رشی دیانند” لکھ کر آگے بڑھایا جب کہ اس کا جواب آریہ سماجی لیڈر پنڈت چمپادتی نے نعوذ باللہ "رنگیلا رسول ” لکھ کردیا ،جس نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو سخت مجروح کیا اور یوں ہندوستان بھر میں فسادات اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو ا۔
امیرشریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر پر 1920 میں اڑھائی سو سے زائد علماء کے ساتھ متفقہ فیصلہ پر دستخط کرکے حکومت سے آریہ سماج کی کتب کی ضبطی کا بھی مطالبہ کیا ۔
اس متفقہ فتوی میں مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر اور اس کے متبعین کو کافر اور مرتد قرار دے کرہر مسلمان کو ان سے قطع تعلق کرنے کا کہاگیا تھا۔دوسری جانب جمیعت علماء ہند نے "رنگیلا رسول "کے مصنف شاتم رسول کو واجب القتل قرار دے دیا تھا
اور اس کتاب کومہاشہ راجپال نے نہ صرف طبع کروایا تھا بلکہ تصنیف کی ذمہ داری بھی قبول کر لی تھی ۔دوسری جانب عشاق رسولﷺ جذبہ حب خاتم الانبیاء ﷺسے مغلوب ہوکر اس شاتم رسول کے بوجھ سے زمین کو آزاد کرنے اورسبق سکھانے کا فیصلہ کرچکے تھے ،
چنانچہ غازی عبدالعزیز رحمہ اللہ ،غازی خدا بخش رحمہ اللہ ،مولوی عبدالرشید غازی رحمہ اللہ اورغازی علم الدین رحمہ اللہ انہی فدایان نبوت میں سے تھے۔جب کہ علماء ہند نےمؤثر انداز میں عوامی و قانونی جدوجہد کی ،4 اور5 جولائی 1927ء کی درمیانی رات لاہور دہلی دروازے پر دفعہ 144 کے باوجود امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا
"آج مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعیدکے دروازے پرام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اور ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنھاآئیں ،اور فرمایا ہم تمھاری مائیں ہیں،کیا تمھیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دی ہیں؟”۔۔۔۔۔ارے دیکھو تو ۔۔۔!ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا دروازے پر تو کھڑی نہیں ۔۔۔؟
اگر تم خدیجہ وعائشہ رضی اللہ عنھما کی ناموس کی خاطر جانیں دے دو تو فخر سے کم نہیں ہے۔یادرکھو!یہ موت آئے گی تو پیام حیات لے کر آئے گی۔(روزنامہ زمیندار7جولائی 1927)
ڈپٹی کمشنر لاہور نے اس کا انتقام 10 جولائی کو دفتر پنجاب خلافت کمیٹی ،بیرون دہلی دروازہ سے امیر شریعت اور خواجہ عبدالرحمن غازی کو دفعہ 107 اور 108 کے تحت گرفتار کرکے ایک ایک سال قید کی سزا سنا ئی ۔
مدت پوری ہونے پر رہائی کے بعد حضرت امیرشریعت نے قریہ قریہ ،بستی بستی اور شہر شہر ناموس رسالت اور بیداری مسلم کے لیے دیوانہ وار پھرتے رہے ،قادیانیت،شدھی و سنگٹھن تحاریک ،توہین رسالت کے طوفان بدتمیزی کے آگے سد سکندری بننے والا اور انگریزی سامراج کے خلاف نبرد آزما ہونے والا یہ عظیم مجاہد جب خدام الدین کے سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ 1930 بمقام لاہور میں تشریف لایا تو محدث کبیر مولاناسید انور شاہ کشمیری ر حمہ اللہ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے
"دین کی قدریں بگڑ رہی ہیں ،کفر چاروں طرف سے یلغار کرچکا ہے،اس وقت مسلمانوں کو اپنے لیے ایک امیر کا انتخاب کرنا چاہیے،اس کے لیے میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو منتخب کرتا ہوں ،وہ نیک بھی ہیں اور بہادر بھی ،اس وقت تک انہوں نے فتنہ شاتم رسول اور شارداایکٹ کے سلسلے میں جس جرات اور دلیری سے دین کی خدمات انجام دی ہیں ،آئندہ بھی ان سے ایسی ہی توقع ہے۔
پانچ سو علماء کی سید عطااللہ شاہ کے ہاتھ پربیعت
"یہ الفاظ کہہ کر آپ نے اپنے ہاتھ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی طرف بڑھا دیئے ،اس موقع پر پانچ سو کبار علماء کرام نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ،اور آپ کو امیرشریعت کا خطاب عطا کیا گیا جو عنداللہ و عندالناس آپ کی جدوجہد قبولیت کا مظہر تھا ۔
مجلس احرار کے زیرانتظام تین روزہ پہلا اجلاس 21بعنوان "تبلیغ اسلام ” اکتوبر 1934کو لاکھوں مسلمانان ہند نے شرکت کی ،اس کی صدارت اور خصوصی خطاب امیرشریعت رحمہ اللہ نے کیا ،یہ کانفرنس مرزائی خلافت اور ان کے آقاؤں کے لیےانتہائی پریشانی کاباعث بنی
انتقاماً آپ کو اسی کانفرنس کی تقریر کی بنا پر 7 دسمبر 1934 کو مسوری سے دفعہ 143 الف کے تحت گرفتار کرلیا گیا ،بعدازاں ضمانت پر رہائی عمل میں لائی گئی ۔اس مقدمہ کا فیصلہ 20اپریل 1934کو مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور نےآپ کو چھ ماہ قید بامشقت سنایا
تاہم 6جون 1935 کو سیشن جج گورداسپور نے طویل جرح کے بعد سزا میں تخفیف کرکے تااختتام وقت ِعدالت قید تک محدود کردیا تھا ۔ اس خفت کو مٹانے کے لیے مرزا بشیر الدین محمود نے احرار کو مباہلے کی دعوت دی ،جیسے احرار نے قبول کرکے تیاریاں شروع کردیں
مرزائیت نے خائف ہوکر سرکار کے سامنے واویلا کرنا شروع کردیا ،جس کے نتیجہ میں قادیان میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ،مجلس احرار نے قادیان میں امیرشریعت کی امامت میں نماز جمعہ کا اعلان کردیا اور جس کے لیے جاتے ہوئے جنیتی پور ریلوے اسٹیشن پر گرفتار کرلئے گے
مگر نماز جمعہ کا اعلان برقرار رہا اور ہر جمعہ کو گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی رہیں ،بالآخر ایک ماہ بعد دفعہ 144 اٹھا دی گئی اور امیر شریعت کو 15 اپریل 1936کو لاہور جیل سے رہا کردیا گیا ۔(حیات امیرشریعت )
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔