مولانا تنویراحمداعوان


برصغیر کے سینےپر اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا پھریراصدیوں لہراتا رہا ،جو مسلم سلاطین نے کثیر الاقوام و مذاہب کی اس سرزمین پر بھرپور انداز میں حکمرانی کی ،خوشحالی ،تعلیم ،مساوات ،مذہبی آزادی اور عدل وانصاف کی بہترین مثالیں قائم کیں،

فاتح سندھ محمد بن قاسم رحمہ اللہ سے شروع ہونے والا عہد زریں جب ٹیپوسلطان رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد آخری مغل فرمانروابہادر شاہ ظفر رحمہ اللہ کی بے بسی پر اختتام پذیر ہونے کے ساتھ ہی توحید کے علمبردار وں کو اس دھرتی کا سب سے بڑا مجرم قرار دے کر ظلم و ستم ،تشدد اور سفاکیت کی تمام حدیں عبور کرلی گئیں

معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ نظام تعلیم اور زبان کو یکسر تبدیل کر کے پوری قوم کو جاہل قرار دے دیا گیا ،انگریزی کوسرکاری زبا ن قرار دے کر اہل ہند کے لیے انتظامی امور چلانے کے لیے تمام مواقع مسدود کردیئے گے۔

انگریز سرکار نے "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کے اصول کے تحت ہندو مسلم سماجوں کے درمیان نفرتوں کو ہوا دینے کے لیے شدھی اور سنگٹھن تحریکوں کو پروان چڑھایا جب کہ مسلمانوں کی قوت کو پارہ پارہ کرنے اور جذبہ جہاد کو مجروح کرنے کے لیے مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کا نہ صرف ڈھنڈورہ پیٹا گیا بلکہ مکمل پشت پناہی اور افرنگی سرپرستی بھی کی گئی

الغرض غلامی کے اس زمانے میں ہوا کا ہر جھونکا مسموم تھا اوریاس و ناامیدی کی گھنگھور گھٹائیں ہر سو چھائی ہوئی تھیں۔ایسے ماحو ل میں جنم لینے والی چندعبقری اور عظیم شخصیات میں سے ایک امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ہیں ،

جنہوں نے افرنگی سامراج اور اس کے پروردہ کذاب مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف مسلم قوم کو بیدار اور متحد کیا ،مسلمانوں میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ جدوجہد آزادی کے روح رواں کی حیثیت سے جیل اور ریل کی زندگی گزار کر نہ صرف ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا بلکہ مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت اور اس کی فریب کاریوں سے امت کو آگاہ کرکے کروڑوں مسلمانوں کے ایمان کی بھی حفاظت کی۔

1857ء کی جنگ آزادی کے 34 سال بعد 1891ءبمطابق یکم ربیع الاول 1310ھ ضلع بہار کے علاقہ پٹنہ میں حافظ سید ضیاء الدین کے گھر ایک باسعادت بچے نے آنکھ کھولی ،جس کا نام ددھیال کی طرف سے عطاء اللہ اور ننھیال کی طرف سے شرف الدین احمد رکھا گیا۔

آپ نجیب الطرفین سید تھے ،والدہ محترمہ سیدہ فاطمہ اندرابی بھی حضرت باقی باللہ کے خاندان سے تھیں ۔ آپ کی عمر ابھی چار سال کی تھی کی والدہ محترمہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ،گھر میں علمی و مذہبی ماحول ہونے کی وجہ سے قرآن کریم سے قلبی لگاؤ ہو گیا اور بچپن میں ہی قرآن پاک حفظ کرلیا


یہ بھی پڑھیں


جب کہ عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کے معلم خاص شیخ عاصم عمر رحمہ اللہ سے حجازی لَے سیکھی اورفن قرات میں معراج پائی،1914ء میں امرتسر میں مولانا مفتی غلام مصطفیٰ رحمہ اللہ سے مدرسہ نصرت العلوم میں صرف و نحو اور کتب فقہ کی تعلیم حاصل کی،

1919ء میں شاہ جی کو مولانا مفتی غلام مصطفی ٰ رحمہ اللہ سے محلہ کوچہ جیل خانہ کی عوام نے اپنی مسجد کی خطابت کے لیے مانگ لیا ،جس فرمائش کو استاد محترم نے بادل ناخواستہ قبول کرلیا،آپ کی خطابت کے روز اول سے ہی مسجد باوجود اپنی وسعتوں کے کم پڑنی شروع ہوگئی اور چہار سو آپ کی خطابت کا شہرہ بلند ہونے لگا ،

جب کہ آپ نے اپنی تعلیم مولانا نور محمدرحمہ اللہ اور مفتی محمد حسن رحمہ اللہ سے مکمل کی ۔امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عملی زندگی کی ابتداء غیر اسلامی وغیر شرعی رسومات کے خاتمے کی تحریک سے کی ،جس کے نتیجے میں امرتسر میں جاہلانہ رسومات کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ دروس قرآن کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو عام کیا۔(ماخوذ از حیات امیرشریعت)

امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی تبلیغی و تحریکی زندگی کو مرکزی دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ،پہلا حصہ تحریک آزادی اور انگریزی سامراج کے خلاف جدوجہد سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ کذاب و منکرختم نبوت مرزاغلام احمد قادیانی کے فتنہ کے خلاف جدوجہد کرنا ہے

تحریک آزادی میں امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کا کردار

پہلی جنگ عظیم کے اختتام پرانگریزی سامراج اہل ہند کے بارے میں نوآبادیات جیسے اعلانات سے عملا ً انکاری ہوئی تو شدید عوامی ردعمل نے جدوجہد آزادی مذہبی و گروہی تفریق سے بالا تر ہوتے ہوئے نئے عزم سے شروع ہوئی

نتیجتا ً امرتسر میں مارشل لاء اور جلیانوالہ باغ جیسے سفاکانہ واقعات رونما ہوئے ،جب کہ برطانیہ نے ترکی سے بھی عہد شکنی کی تھی ،جس پرمسلمانان ہند نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اسی مناسبت سے دسمبر 1919میں خلافت کانفرنس گول باغ امرتسر میں مولانا شوکت علی کی زیر صدارت منعقد ہوئی ،

جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خطابت کے جوہر دیکھائے ،اور ہر عام و خاص کو اپنا گرویدہ بنالیا ۔اسی طرح 1920 میں تحریک ترک موالات شروع کی گئی تو 1921 کو کلکتہ کانگریس کے سیشن فروری کے اجلاس میں بھرپور انداز میں ترک موالات کی تائید کرکے اسے کامیاب بنانے میں شاہ جی رحمہ اللہ نے کلیدی کردار ادا کیا

یہاں تک کہ بچوں نے سکول ،نوجوانوں نے کالج اور وکلاء نے عدالتوں میں حصہ لینا چھوڑ دیا ،ولائیتی مال کے بائیکاٹ کی تحریک زور پکڑنے لگ گئی۔یہی موقع تھا جب حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی شہرت امرتسر کے حدود اربعہ سے نکل کر پورے ہند میں پھیل گئی ،

خلافت کمیٹی اور تحریک ترک موالات کو کامیاب بنانے اور آپ کی مقبولیت سے خائف ہوکر اور اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دباتے کیلئے انگریز نے شاہ جی کو باغی قرار دے کر دن رات آپ کی نگرانی شروع کر دی ،

بالآخر27 مارچ 1921 ء کو رات کے آخری پہر میں کوچہ موہر کنداں کرمو ں ڈیوڑھی امرتسر سے تحریک آزادی کے عظیم مجاہد کو دفعہ 124ایف کے تحت گرفتار کرلیا گیا ،طلوع آفتاب کے ساتھ ہی یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی ،سارا شہر سراپا احتجاج تھا،

جب کہ احتجاج کا یہ سلسلہ دوسرے شہروں تک پھیلتے ہوئے انگریز سرکار کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن رہا تھا ،حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی تحریکی زندگی میں یہ پہلی گرفتاری تھی ،آپ کو 2 اپریل مسٹر الف اے کانر ایڈیشنل ڈسٹرک مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا

جہاں آپ نے ان الفاظ میں اپنا موقف پیش کیا ،”میں ترک موالات کا حامی ہوں،قرآن میری صفائی ہے ،قرآن میرا گواہ ہے،قرآن ہی میرا مذہب ہے اور قرآن ہی میرا دین ہے ،اس کے علاوہ میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ہوں "۔چنانچہ 8 اپریل 1921 ءکو جج نے تین سال قید بامشقت جن میں تین ماہ قید تنہائی بھی شامل ہے کی سزا سنا کر آپ کو لاہور سنٹرل جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا

11 اپریل کو انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے اپنے محبوب قائد ،برطانوی سامراج کے اہم مجرم ،آزادی ءوطن کے نڈر سپاہی ،قرآن کے داعی اور تحریک آزادی کے سرخیل کو ریلوے اسٹیشن پر الوداع کہا ۔(حیات امیر شریعت )

اسی اسیری کے دوران شاہ جی رحمہ اللہ کو میانوالی جیل میں منتقل کیا گیا جہاں مشاہیر تحریک آزادی کے ساتھ زندگی کے ناقابل فراموش لمحات گزارے،جب آپ 21 اکتوبر 1924کو میانوالی جیل سے رہا ہوئے تو برصغیر کا منظر نامہ تبدیل تھا

زمیندار اور عطاء اللہ شاہ بخاری

طاغوتی سازشوں کی بدولت شدھی اور سنگنھ کی تحاریک نے ہندو مسلم فسادات کو جنم دے دیا تھا ،اور 5فروری 1923کو گاندھی جی نے تحریک ترک موالات کو ختم کرکے انگریزی تسلط کو قوت فراہم کی تھی جب کہ تحریک خلافت 21 نومبر 1922ء کو برطانیہ اور ترکیہ کے درمیان معاہدہ طے پانے کی وجہ سے ختم ہو چکی تھی۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ شدھی جیسی تحاریک نے غیر ملکی تسلط کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ،اوراس حقیقت سے امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ بخوبی واقف تھے ،

آپ نے کھلم کھلا ان فرقہ وارانہ فسادات کو انگریزی اقتدار کی سازش قرار دیتے ہوئے اہل ہند میں شعور وآگہی کی بیداری کا سلسلہ شروع کیا اور آپ نے مسلم بیزار تحاریک کے مقابلے میں جرات مندانہ انداز میں اسلام اور مسلمانوں کا بھی خوب دفاع کیا

اس موقع پر مسلم اخبار "زمیندار ” نے آپ کا بہت زیادہ ساتھ دیا تھا،اس کی پاداش میں جنوری 1925 کو حضرت امیر شریعت کو دفعہ 108 کے تحت گرفتار کرکے چھ ماہ قید یا پانچ سو روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ،اہل محلہ نے جرمانہ کی رقم ادا کرکے آپ کی رہائی ممکن بنائی

جرمانہ ادا کرنے پر شاہ صاحب اہل محلہ سے ناراض ہوئے کہ آپ نے پاک کمائی فرنگی خزانہ میں کیوں دی۔اس میں دو رائے نہیں کہ اگر شاہ جی کی تقاریر اور مولانا ظفر علی خان کی تحاریر نہ ہوتیں تو من حیث القوم مسلمان خسارہ میں ہوتے ۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔