دیگر پوسٹس

تازہ ترین

!!!مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے

سدھیر احمد آفریدی کوکی خیل، تاریخی اور بہادر آفریدی قبیلے...

حالات کی نزاکت کو سمجھو!!!

سدھیر احمد آفریدی پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کو غریبوں...

ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات!!

کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے

متبادل پر سوچیں!! سدھیر احمد آفریدی کی تحریر

یہ بلکل سچی بات ہے کہ کوئی بھی مشکل...

محبت:پاکستان اور بھارت کے درمیان نیا میدان جنگ

محمد جبران ، پشاور

ان دنوں پاکستانی اور بھارتی میڈیا پر ایک اور میدان جنگ سجا ہوا ہے لیکن اس جنگ کا ایک خوبصورت پہلو یہ ہے کہ یہاں پہلی بار توپوں کی گھن گرج اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ کے بجائے عشق و محبت کے قصے سنائے جا رہے ہیں ۔چند ہفتے قبل جب سندھ کی رہائشی خاتون سیما اپنے چار بچوں کے ہمراہ سچی محبت کی تلاش میں بھارت جا پہنچی تو گویا بھارتی میڈیا کیلئے ایک لاٹری کھل گئی ۔

کئی روز تک سیما بھارتی ذرائع ابلاغ کی زینت بنی رہی جسے کم و بیش ہر بھارتی چینل خوب مصالحہ دار بنا کر ایک اور مہابھارت کا میدان سجائے بیٹھا رہا ۔ یوں اگلے کئی ہفتوں کیلئے ان کی ریٹنگ کا سامان بھی پیدا ہو گیا اور اس کی آڑ میں میڈیائی سورمائوں کو پاکستان کیخلاف اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع بھی میسر آگیا

اس دوران پاکستانیوں اور پاکستانی میڈیا کا مجموعی کردار وہی رہا جو ہمارے مشرقی معاشرے میں عموماً لڑکی والوں کا ہوتا ہے یعنی بات کرنی بھی ہے تو کیا کرنی ہے البتہ کئی جگت باز سوشل میڈیائی صحافیوں اور یوٹیوبرز نے کچھ نہ کچھ تفریح کا سامان کر ہی لیا

ابھی بھارتی میڈیا کے چھپے اور کھلے طنز کی گولہ ماری مزید کچھ دن جاری رہتی لیکن وہ تو بھلا ہو بھارتی شہری لڑکی انجو کا جنہیں ضلع دیر کے رہائشی نصراللہ نامی لڑکے سے فیس بک پر محبت ہوئی اور وہ اس محبت کے فریضے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے دیر کے دور افتادہ گائوں آن پہنچیں ۔

اب گویا پاکستانی میڈیا کو اپنے بھارتی ہم منصبوں سے حساب برابر کرنے کا موقع میسر آ گیا تاہم چیخ دھاڑ کے بجائے پاکستانی میڈیا نے اس خبر کو عمومی انداز میں پیش کیا البتہ سوشل میڈیا پر ضلع دیر کے بہادر جوان کو بھارت کیساتھ اتنی جلدی حساب برابر کرنے اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر خوب خراج تحسین پیش کیا جانے لگا ۔

یہ بھی پڑھیں

کچھ دیر قبل ریجنل پولیس آفیسر مالاکنڈ ناصر محمود ستی ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ پولیس نے بھارتی خاتون انجو سے ابتدائی پوچھ گچھ کی ہے تاہم ان کے پاس تمام ضروری دستاویزات موجود ہیں وہ ایک ماہ کے ویزے پر پاکستان آئی ہیں

انہوں نے بتایا کہ بھارتی خاتون واہگہ کے راستے پاکستان آئیں جہاں سے انہوں نے راولپنڈی کا سفر کیا جہاں نصراللہ ان کے استقبال کیلئے موجود تھے وہ پھر ان کے ساتھ دیر بالا آئی ہیں ۔تاہم ان کے پاس ایک ماہ کا ویزہ موجود ہے جس کی مدت ختم ہونے پر وہ واپس چلی جائیں گی

تاہم ان کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے سیکورٹی فراہم کردی گئی ہے ۔آرپی او کا کہنا تھا کہ نصراللہ اور بھارتی خاتون کی شادی کا معاملہ ان کا ذاتی معاملہ اس بارے میں وہ کوئی رائے نہیں دے سکتے ۔

دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انجو اور نصراللہ نے نکاح کرلیا ہے جس کی تصدیق نصراللہ اور نکاح خوان نے کی ہے جبکہ بعض لوگوں کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بھارتی خاتون نے اسلام قبول کرلیا ہے اور ان کا اسلامی نام فاطمہ رکھا گیا ہے

 تاہم خاتون نے شادی کی خبر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں اور وہ جلد بھارت واپس جانے والی ہیں

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اترپردیش سے تعلق رکھنے والی انجو شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہیں جن کی دو سال قبل دیر کے رہائشی نصراللہ نامی نوجوان سے فیس بک پر بات چیت ہوئی جو بعدازاں دوستی میں اس حد تک بدل گئی کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنے دوست سے ملنے پاکستان کے دور دراز علاقے دیر بالا جاپہنچیں ۔

اہل علاقہ خوش اور روایتی مہمان نوازی

ایک بھارتی خاتون کے دیر بالا پہنچنے پر مقامی لوگوں میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے اور روایتی مہمان نوازی کا بھرپور مظاہرہ کیا جارہا ہے ۔ایک مقامی شخص فرید کا کہنا تھا ’انجو پختونوں کی مہمان اور بہو ہے۔ وہ جب تک رہنا چاہے، رہ سکتی ہے۔ اس کو کوئی تکلیف، کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ ہم اس بات کو ہر صورت میں یقینی بنائیں گے کہ اس کو ہمارے پاس کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کو ساری سہولتیں میسر ہوں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں خوشی کا سماں ہے۔ ہمارے گھروں کی خواتین جوق در جوق انجو کو ملنے جا رہی ہیں، اس کو تحفے تحائف بھی دے رہی ہیں اور اس کو یہ یقین بھی دلا رہی ہیں کہ وہ کسی بات کی فکر نہ کرے۔‘