آزادی نیوز
ایک غیرملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر پاکستان کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان افغانستان میں کسی طرح کی کاروائی کیلئے امریکہ کو اپنی سرزمین کے استعمال کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دیگا
ایچ بی او نامی ایک نیوز چینل کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو کے جاری ہونے والے ٹریلر میں عمران خان کے انداز اور بے باک جواب پر میزبان کے مضطربانہ انداز واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے
پروگرام کے میزبان جوناتھن سوان نے جب سوال کیا کہ کیا آپ امریکی حکومت کو پاکستان میں سی آئی اے کی موجودگی کی اجازت دینگے تاکہ وہ سرحد پار القاعدہ اور دیگر شدت پسندتنظیموں کے خلاف آپریشن جاری رکھ سکے
تو عمران خان نے دو ٹوک اور واضح انداز میں جواب دیا ہرگز نہیں ،ہم کسی بھی صورت اپنے اڈے استعمال کرنے یا افغانستان میں کسی کاروائی کیلئے پاکستانی سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت دینگے
جس پر میزبان نے اپنی تسلی کے لئے دوبارہ سوال دوہرایا کیا واقعی ؟
واضح رہے کہ حالیہ چند ماہ کے دوران قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں یہ بات گرماگرم موضوع بنی ہوئی ہے ،اور ہر گزرتے دن کے ساتھ قیاس آرائیاں زور پکڑتی جارہی ہیں
یہ بھی پڑھیں
- ڈرون حملوںکیلئے پاکستان کے انکار کے بعد امریکا کے پاس متبادل کیا ہے ؟
- بھارت نے افغان طالبان قیادت کیساتھ روابط بڑھانے کی کوششیں تیز کردیں
- ملالہ یوسفزئی پرحملے کی دھمکیاںدینے والا مفتی سردارحقانی گرفتار
- امریکی انخلاء اور افغان طالبان کیلئے فیصلے کی گھڑی
2001 میں جب امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کیخلاف ایک اتحاد قائم کرتے ہوئے القاعدہ کے بہانے افغانستان پر جارحیت کا آغاز کیا اور اگلے چند ماہ میں افغانستان میں طالبان حکومت کو اکھاڑ باہر کیا تو اس وقت پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی بن گیا ۔
اور اگلے کئی سالوں کے دوران پاکستان اہم اتحادی رہا ،پاکستان میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے بعدازاں پاکستان کے تعاون کے بدلے ڈالر وصول کرنے کا اعتراف اپنی کتاب میں بھی کیا
ماضی کی پرچھائیاں
تاہم گذشتہ دوعشروں کی سرتوڑ کوششوں اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بالاآخر گذشتہ سال امریکا طالبان کیساتھ انخلاء کے معاہدے پر رضامند ہوگیا ،اگرچہ امریکہ کی کوشش رہی کہ وہ افغانستان میں محدود حد تک نگرانی کیلئے موجودگی پر طالبان کو آمادہ کرلے ،لیکن اس معاملے میں اسے شدید ناکامی کا سامناکرنا پڑا
اس وقت افغانستان سے امریکی انخلاء اختتامی مراحل میں ہے ۔لیکن اس وقت انخلاء کے بعد امریکہ کیلئے سب سے پریشان کن سوال یہ ہے کہ وہ مستقبل میں افغانستان کی سرزمین پر اپنی موثر نگرانی کیسے برقرار رکھے گا
دو روز قبل ترک خبررساں ادارے ٹی آرٹی ورلڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں امریکہ کےلئے مستقبل کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لیا تھا ،جس میں ماہرین کی روشنی کی آراء میں ڈرون اڈوں کیلئے مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا کے چند ممالک کو ممکنہ امریکی انتخاب قرار دیا تھا ۔
اس رپورٹ میں انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کی 2 مئی کی ایک خبر کا حوالہ بھی دیا گیا تھا جس کے مطابق پاک فضائیہ کے حکام بلوچستان کے علاقے نصیر آباد میں فوجی اڈے کیلئے کسی موزوں مقام کی تلاش میں ہیں ،
انہی دنوں میں سی آئی اے چیف کے غیر اعلانیہ دورے اور ایئر بیس کیلئے مناسب جگہ کی تلاش کی خبروں کو یکجا کرکے یہ تاثر پیش کیا جانے لگا کہ پاکستان ممکنہ طور پر افغانستان میں کاروائیوں کیلئے امریکہ کو ایک بار پھر اپنا کاندھا پیش کرنے کیلئے تیار ہے
لیکن پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت بشمول وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس تاثر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ
عمران خان کی موجودگی میں امریکہ کو پاکستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
یاد رہے کہ اقتدار میں آنے سے قبل بھی عمران خان پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون کاروائیوں کے شدید مخالف رہے ہیں اور ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کی حدود میں کوئی ایک بھی ڈرون حملہ نہیں کیا گیا
ڈرون حملے ہمیشہ سے ناپسندیدہ
دوسری جانب پاکستانی عوام میں بھی ڈرون حملوں کے خلاف شدید ردعمل پایاجاتا ہے ،کیوں کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2004 سے لیکر 2018 کے درمیان 4 سوسے زائد حملے کئے تھے ، جن میں شہری ہلاکتوں کی تعداد زیادہ تھی
اگرچہ پاکستان کے واضح انکار کے باوجود امریکہ کی جانب سے اس بات کی تصدیق نہیں کی جارہی کہ پاکستان نے انہیں اڈے فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے
تاہم وزیر اعظم عمران خان کے تازہ انٹرویو نے ایک بار پھر پاکستان کے موقف کو واضح طور پر دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے
اس کے علاوہ حال ہی میں سینیٹ میں اپنے خطاب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لیے امریکا کو فوجی اڈے فراہم کرنے کے امکان کو مسترد کردیا تھا۔
انہوں نے اسے بے بنیاد اطلاعات قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور واضح کیا تھا کہ حکومت کبھی بھی امریکا کو فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گی اور نہ ہی پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کی اجازت دے گی۔
کابینہ کی بریفنگ میں وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے پاکستان میں امریکا کے کسی بھی فوجی اڈے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی تمام تر سہولیات پاکستان کے اپنے استعمال میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی کی زیر قیادت حکومت ہے جس نے ماضی میں امریکا کو دی جانے والی ’ڈرون نگرانی‘ سہولت ختم کردی تھی۔
انہوں نے کہا کہ تمام ایئر بیس پاکستان کے زیر استعمال ہیں، اس وقت اس سلسلے میں کوئی بات چیت جاری نہیں ہے کیونکہ پاکستان (کسی بھی ملک) کو کوئی ایئربیس نہیں دے سکتا
سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ AbsolutelyNot#
پاکستان میں اس وقت وزیر اعظم عمران خان کے انٹرویو کے دوران کہے الفاظ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ٹوئٹر اور فیس بک پر #AbsolutelyNot ٹاپ ٹرینڈ ہیں ،جہاں ہزاروں صارفین اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں
ڈاکٹر نعمان ملک نے عمران خان کے انٹرویو کی تصویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ایک خودمختار ملک کا واضح پیغام #AbsolutelyNot
جبکہ وسیم مغل نامی ایک شہری نے ٹوئٹر پر عمران خان کی 23 سال قبل کی ایک ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا
آج ہر پاکستانی فخر محسوس کررہا ہے ۔ عمران خان نے 23 سال واضح طور پر کہا تھا ،بالکل بھی نہیں
محمد زمان نے لکھا
عمران خان کے کہے الفاظ پاکستان کی عظمت کو بحال کرنے کیلئے کافی ہیں ،اگرچہ اس بیان کے بیان کے بعد دنیا عمران خان کو پسند نہیں کرتی ،اللہ عمران خان کی حفاظت فرمائے
شکریہ وزیر اعظم عمران خان
شبیلیہ نامی ٹوئٹر صارف نے کہا ماضی کو بھول جائیں ،اب پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے اور یہ دنیا کیلئے واضح پیغام ہے
قابل فخر لمحہ
پہلا وزیر اعظم جس نے کھل کر موقف بیان کیا
محمد اسد نے وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر کی تصویروں کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ،اس حکومت سے تمام تر اختلافات کے بعد میں تسلیم کرتا ہوں کہ گذشتہ چند عشروں کے دوران پاکستان کو ایسی قیادت کی اشد ضرورت تھی
اس موقع پر منصور جاوید نامی ایک ٹوئٹر صارف نے مسلم لیگ ن کی قیادت سے سوال کا موقع ہاتھ جانے دینا مناسب نہ سمجھا
اور سابق وزیر اعلی پنچاب میاں شہبازشریف کی واپس جاتے ہوئی تصویر کے ساتھ لکھا
ہیلو وزیر اعلیٰ شہباز کیا آپ کی پارٹی عمران خان کی طرح کا موقف اختیار کرسکتی ہے ؟