آزادی ڈیسک
لاہور میں سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والا طلباء کو گورنر ہائوس کے سامنے احتجاج پر بیٹھے آج 27 روز ہوگئے ہیں ،جبکہ تین روزہ بھوک ہڑتال کے دوران حالت نازک ہونے پر دو طالب علموں کو ہسپتال منتقل کردیا گا ہے ۔جن کے نام محسن اور حمزہ ہیں
یہ طالبعلم سلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی آئے روز بدلتی پالیسیوں کے خلاف کئی ہفتوں سے احتجاج کناں ہیں
پس منظر
2014 میں جب پاکستانی فوج نے فاٹا میں آپریشن شروع کیا تو اس کے نتیجے میں ہزاروں خاندان آئی ڈی پیز کی صورت ملک کے مختلف حصوں میں پھیل گئے ،تو اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے صوبے کی تمام یونیورسٹیوں کے ہر شعبے میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلباء کے لئے دو نشستیں مختص کرنے کا اعلان کیا ۔تاہم جب فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کیا گیا تو اس وقت یہ کوٹہ دو سے بڑھا کر 4 کردیا گیا
عمران بنام نریندرا مودی ،وزیر اعظم نے خط میں کیا لکھا؟
پاکستان کی 87 فیصد آبادی تک انٹرنیٹ کی رسائی
مختص نشستوں پر آنے والے طلباء کو ہر یونیورسٹی کی جانب سے بورڈنگ ،ٹیوشن فیس سمیت سو فیصد سکالر شپ دی جارہی تھیں،یہ دس سالہ پالیسی تھی جس کا مقصد فاٹا کے طلباء کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا تھا ،جبکہ اس حوالے سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ پالیسی 2027 تک جاری رہے تھی
تاہم احتجاج کرنے والے ایک طالبعلم آفتاب وزیر کے مطابق یونیورسٹیوں نے بتدریج اس کوٹے اور سہولت کو ختم کرنا شروع کردیا ۔جس کے خلاف جب اسلامیہ یونیورسٹی کے طلباء نے احتجاج کیا تو انہیں انتظامیہ کی جانب سے انتباہ جاری کئے تھے
اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی جانب سے مکمل سکالرشپ کے بجائے نصف فیس طلب کی اور مختص نشستوں کی تعداد بھی چار سے کم کرکے دو کردی گئی
یونیورسٹی کے 123 شعبہ جات میں میں فاٹا کے طلباء کیلئے 492 نشستیں ہونی چاہیں تاہم یونیورسٹی نے ان کی تعداد 63 کرنا چاہتی ہے ،جبکہ ان میں سے 21 نشستیں فاٹا سے تعلق رکھنے والی طالبات کیلئے مختص ہیں
یہ پہلا موقع نہیں جب طلباء اپنے حق کیلئے احتجاج کررہے ہیں بلکہ اس سے قبل گذشتہ سال اکتوبر میں بھی طلباء نے احتجاج کیا تھا جس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے تحریری طور پر یقین دہانی کروائی تھی کہ فاٹا کے طلباء کیلئے معاہدہ کے مطابق 2027 تک پالیسی جاری رہے گی
لیکن اس کے باوجود فروری میں یونیورسٹی نے ایک نیا نوٹفکیشن جاری کیا جس میں نشستوں کی تعداد کم کرکے 2 کردی گئی اور نئے آنے والے طلباء کےلئے نصف فیس جمع کروانا لازمی قرار دیا گیا ۔جس سے پہلے ہی غربت اور بیروزگاری کے شکار سابقہ فاٹا کے علاقوں کے طلباء و طالبات کے لئے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دروازے بند ہونے کا اندیشہ ہے ،اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہے جو فیسیں ادا نہ کرپانے کی صورت میں ڈگری جاری نہ ہوسکیں گی
دوسری جانب احتجاج کرنیوالے طلباء کی جانب سے پولیس پر انہیں ہراساں کرنے اور زبردستی ان کا احتجاج ختم کروانے کی کوشش کا بھی الزام عائد کیا جارہا ہے،جبکہ سیاسی قیادت بھی تاحال احتجاج کرنیوالے طلباء کے مطالبات سننے یا ان پر غور کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے