عمران حیدر تھیہم
ابتدائے آفرینش سے ہی بنی نوع انسان اس خواہش کا پُجاری رہا ہے کہ وہ لامحدود زندگی جیے۔ اِس خواہش کی تکمیل کےلیے وہ ابتدا سے ہی ایسے جَتن کرتا رہا جس سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے زندہ رہنے کے اسباب پیدا کر سکے۔ وہ کسی ایسے آبِ حیات کو صدیوں تلاش کرتا رہا جو اُسے حیاتِ جاودانی دے سکے۔
لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔
انسانی شعور تھوڑا مزید ارتقاء پذیر ہوا تو انسان نے اپنی اِس خواہش کا رُخ بدلا۔
کتنی ہی تہذیبوں کے مِٹنے اور کتنے ہی تمدّن خاک ہو جانے کے بعد خالقِ کائنات کی طرف سے بھیجے جانے والے پیغمبروں، اُن پر اُترنے والے صحیفہ ہائے آسمانی، آسمانی کتابوں اور سب سے بڑھ کر نبیِ آخر الزّماں حضرت مُحمّد صل اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیمات نے انسان کو سکھایا کہ صرف اچھے اعمال ہی آپ کو حیاتِ جاودانی دے سکتے ہیں۔
"Man does not live in years, man lives in deeds.”
عہدِ جدید کا ہر مہذّب اور امن پسند انسان آج صرف اِسی انداز میں حیاتِ جاودانی حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ کسی طرح وہ کوئی ایسا کام ضرور کر جائے جس سے رہتی دُنیا تک اُس کا نام زندہ رہے۔
اللہ ربّ العزت نے انسان کے اندر چند ایسی خصوصیات اُسکی بُنیادی جینیاتی ساخت یا بُنَت کاری میں رکھی ہوئی ہیں جو اُسے باقی تمام مخلوقات سے مُمتاز بنا کر اشرف المخلوقات کا درجہ دیتی ہیں۔اُن میں سے ایک حُبّ ِ جمال، جمالیاتی ذوق ہے۔
جمال یعنی حسن کا سب سے بڑا ماخذ فطرت خُود ہے۔
کے ٹو حادثہ کےکونسے پہلو فوری اور مستند تحقیق کے متقاضی ہیں ؟
کے ٹو سد راہ ،سدپارہ کی واپسی کی امیدیں دم توڑنے لگیں
تمام فطرتی و قدرتی مناظر اور مظاہرِ قدرت اِس کُرّہ ارض پر جمالیات کی سب سے بڑی نشانی ہیں۔ سمندروں، ریگستانوں، جنگلوں اور پہاڑوں پر مشتمل اِس ارضیاتی ڈھانچے یعنی لینڈ سکیپ میں اللہ نے انسان کی رُوحانی ضروریات سے کہیں زیادہ جمالیاتی حُسن چُھپا کر رکھ دیا ہے اور اُسے مُسخّر کرنے کی تجویز بھی قرآنِ پاک میں دے دی گئی ہے۔
چنانچہ ہر وہ انسان جو self actualization کی کیفیّات کے مختلف مراحل سے گُزرتا ہے سب سے پہلے وہ فطرت پسند بنتا ہے چنانچہ ایڈونچر ٹورازم کی تمام اقسام اور اِس سے جُڑے تمام کھلاڑیوں کا فطرت پسند ہونا اُنکی بُنیادی سرِشت کا اظہار ہے۔
کسے خبر تھی کہ پاکستان کے شمال میں واقع گلگت۔بلتستان کے علاقے سکردو کے ایک چھوٹے سے گاؤں سدپارہ کا ایک عام محنت کش مُحمّد علی سدپارہ پاکستان میں فطرت پسندی کے اِس انسانی وَصف کا روشن اِظہار بن کر اُبھرے گا۔
آج سے ایک ہفتہ قبل یعنی 6 فروری تک کوہ پیمائی پاکستان میں نظر انداز کی جانے والی کھیلوں میں پہلے نمبر پر تھی۔ لیکن جیسے ہی اِس کھیل میں پاکستان کی عہدِ حاضر کی پہچان عالمی شُہرت یافتہ کوہ پیما مُحمّد علی سدپارہ کی ٹیم سے متعلق K2 پہاڑ پر سرمائی مُہم جُوئی کے دوران لاپتہ ہو جانے کی خبر سوشل میڈیا کے رستے قومی میڈیا پر بریک ہوئی تو چشمِ زدن میں مُلک بھر میں ایک بھونچال برپا ہوگیا۔ ہر دل بے چین اور ہر ہاتھ دُعا کےلیے بُلند ہُوا۔ قومی یکجہتی کا یہ عالم تھا کہ میدانی علاقوں میں رہنے والا ایک عام پاکستانی بھی جس نے کبھی اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے پہاڑ تک نہیں دیکھا تھا وہ بھی علی سدپارہ کی سلامتی کےلیے دُعاگو تھا۔ سیروسیاحت، ہائیکنگ/ ہچ ہائیکنگ، ٹریکنگ، ماؤنٹینیئرنگ، ایکسپلوریشن، ایڈونچر بائیکنگ، پیرا گلائیڈنگ اور ٹور آپریٹنگ پر مُشتمل پاکستان کی ایڈونچر کمیونٹی تو خیر گُزشتہ 10 سال سے فیس بُک اور دیگر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے تمامتر اختلافات اور ناراضگیوں کے باوجود تقریباً ایک ہزار سے پندرہ سو کی تعداد پر مشتمل ایک خاندان کی طرح ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہے اور کسی حکومتی ادارے کی سرپرستی کے بغیر ہی بقائے باہمی کے اُصولوں کے مطابق اپنی مدد آپ کے تحت اپنے شوق کی تکمیل میں لگی ہوئی ہے لیکن K2 کے حادثے نے یہ مُعجزہ رُونما کیا کہ اِس ایڈونچر کمیونٹی کو پاکستانی عوام کے باقی تمام طبقوں کے ساتھ جوڑ کر قومی یکجہتی کی ایک مثال قائم کردی۔ آج ہر گھر، ہر پبلک مقام اور ہر سرکاری و پرائیویٹ دفتر میں کم دن بھر میں کم از کم ایک بار کوہ پیماؤں کےلیے کیے جانے والے سرچ آپریشن کا ذکر ضرو ہوتا ہے۔
پاکستانی ایڈونچر کمیونٹی کے جن شوقین افراد کو آج سے پہلے ابنارمل، پاگل یا جنونی کہہ کر نظر انداز کیا جاتا رہا آج اُنہی کے دوست اور عزیز و اقارب اُن سے اس کھیل اور K2 واقعہ سے متعلق معلومات اور ماہرانہ رائے لے رہے ہیں۔ آج سے پہلے شاید ہی کسی کو K2 پہاڑ کی بُلندی یعنی 8611 میٹر معلوم ہوگی لیکن علی سدپارہ نے سب کو مجبور کر دیا ہے اور اب پاکستانی عوام کوہ پیمائی سے متعلق اصطلاحوں، K2 کے کلائمبنگ رُوٹس، ابروزی رُوٹ کی کیمپ سائیٹس کے نام اور سب سے بڑھ کر ڈیتھ زون اور باٹلنَیک سیکشن کے بارے میں انٹرنیٹ کھول کھول کر آرٹیکلز پڑھ رہے ہیں، تصویریں دیکھ رہے ہیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔
مُحمّد علی سدپارہ K2 پہاڑ کی انتہائی بُلند و بالا برف زار میں اَبدی نیند سو چُکا ہے۔ فی الحال نہیں معلوم کہ اُسکا جَسدِ خاکی کبھی اُسکے چاہنے والوں کو دیکھنا نصیب ہوگا بھی یا نہیں تاہم اِس لمحہء موجود میں وہ بحیثیتِ انسان نہ صرف فطرت پسندی کی معراج پا کر امر ہو چُکا ہے بلکہ اپنی ارضِ پاک یعنی پاکستان میں قومی یکجہتی کا اِستعارہ بن چُکا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں گی، ایک دن ہم لوگ بھی مَر جائیں گے لیکن اس دھرتی پر یقیناً قیامت تک K2 پہاڑ قدرت کی صنّاعی کے ایک خُوبصورت اِظہار کے طور پر موجود رہے گا اور تب تک مُحمّد علی سدپارہ کی K2 کے ساتھ لازوال مُحبّت کی کہانی زندہ و جاوید رہے گی۔
تاہم اب ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مُحمّد علی سدپارہ کی رُوح کو خُوش کرنے کےلیے اُن کی mountaineering legacy کو زندہ رکھا جائے۔
لہٰذا میرا بطور ایک جونیئر کوہ پیما کے مطالبہ ہے کہ علی سدپارہ کو باضابطہ قومی ہیرو قرار دے کر اُنکی فیملی کی کفالت حکومتِ وقت اپنے ذمّے لے لے۔ علاوہ ازیں گلگت۔بَلتستان حکومت کو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پاکستان میں کوہ پیمائی کے فروغ کےلیے پہلا باقاعدہ سکول آف ماؤنٹینیئرنگ قائم کر کے اُسکا نام علی سدپارہ کے نام سے موسوم کرنا چاہییے۔ کچھ احباب نے مُحمّد علی سدپارہ اور اُنکے بیٹے ساجد سدپارہ کےلیے قومی اعزاز یا ایوارڈ کا مطالبہ کیا ہے میرا اِس کے علاوہ بھی ایک مطالبہ ہے اور وہ یہ کہ گلگت۔بلتستان حکومت علی سدپارہ کے نام سے ایک ایسے ایوارڈ کا اعلان کرے جو ہمارے مُلک میں کوہ پیمائی کے میدان میں لازوال خدمات اور کارنامے سرانجام دینے والے پاکستانیوں کو دیا جاتا رہے۔ تاکہ ہماری نوجوان نسل کا اِس کھیل کی طرف رُحجان بڑھے۔
پاکستان کے نوجوان طبقے کےلیے یہ بہترین موقع ہے کہ اگر وہ واقعی مُحمّد علی سدپارہ کو قومی ہیرو سمجھتے ہیں اور اُن کے دِلوں میں قوم کے اِس سپوت کے قوم سے بِچھڑ جانے کا غم ہے تو پھر بجائے اس کے کہ آپ اپنی تعلیم کے دوران غیر تعمیری سرگرمیوں کا حِصّہ اور نشے کا عادی بن کر بے راہ روی کا شکار ہوں، بہتر ہے کہ آپ علی سدپارہ کی اس وراثت کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کریں۔ یقین مانیے اِس کھیل سے بڑھ کر فِٹنس اور ایڈونچر اور فتح کا احساس آپکو کسی کھیل میں نہیں مِلے گا۔
پاکستان کی ایڈونچر کمیونٹی، میدانی اور پہاڑی علاقوں کے تمام کمرشل اور نان کمرشل ٹور آپریٹرز، ٹور کمپنیوں، تمام نان پرافٹ آرگنائزیشنز اور سب سے بڑھ کر گلگت۔بلتستان کے تمام نامور کوہ پیماؤں سے گُزارش ہے کہ وہ گلگت۔بلتستان کی حکومت کے ساتھ مِل کر ایسا میکانزم ترتیب دیں جس کے تحت پاکستان کے میدانی علاقوں کے نوجوانوں میں ایڈونچر ٹورازم کا رُحجان پیدا ہو۔
ہمالین کوہ پیمائی کی مُہمات کے ایک ادنیٰ سے محقّق کی حیثیت سے مَیں ذاتی طور پر کوشش کرونگا کہ اس کھیل کی ترویج کےلیے جتنی بھی آگاہی دی جاسکتی ہے مَیں دوں اور قومی زبان میں اپنی تحریرات کے ذریعے عام فہم انداز میں نوجوانوں کو کوہ پیمائی کی بُنیادی تھیوری سے آگاہ کروں۔ عملی تربیت کےلیے گلگت۔بلتستان کی ایڈونچر کمیونٹی کو آگے آنا ہوگا۔
مُحمّد علی سدپارہ کا جَسدِ خاکی تو ہائی آلٹیٹوڈ کلائمبرز اور پورٹرز کی مدد سے مقامی انتظامیہ اور پاکستانی فوج اِن شاء اللہ تلاش کر ہی لے گی لیکن ہم پاکستانیوں کو چاہیے کہ ہم اپنے اور اپنی نوجوان نسل کے اندر علی سدپارہ کی رُوح کو تلاش کریں تاکہ spirit of the game زندہ و جاوداں رہے۔
عمران حیدر تھہیم گذشتہ دس سال سے کوہ پیمائی اور مہم جوئی کے شعبہ سے وابستہ ہیں ،اور اس حوالے سے اپنی ایک منفرد اور مستند رائے رکھتے ہیں