"” ان قبائل کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں حیران ہوں کہ قبائلی عوام کو کیوں دیوار سے لگایا جا رہا ہے بار بار فوجی جنرلوں اور حکمرانوں سے سنا کہ انہوں نے قبائلی علاقوں سمیت پورے پاکستان میں دہشت گردوں کمر توڑ دی ہے ان کا نیٹ ورک ختم کر دیا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ سب دعوے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی باتیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں.”

— سدھیر احمد آفریدی


یہ تحریر آڈیو میں بھی سن سکتے ہیں

جب سے عقل وشعور کی آنکھیں کھلی ہیں تب سے ہی اب تک اس بات کو سمجھ چکا ہوں کہ قبائلی عوام کے حوالے سے جس کا جتنا اختیار چلتا ہے اتنا ہی ظلم اور استحصال کرتا ہے یہ بیچارے قبائلی عوام خود بھی حیران و پریشان ہیں کہ ان کے انسان ہونے،مسلمان ہونے یا پاکستانی ہونے میں کسی کو شک ہے یا پھر کونسی اور وجوہات ہیں جن کی بناء پر ان کو زندگی کے ہر شعبے میں ذلیل کیا جاتا رہا ہے

یا پھر ان قبائلی عوام کو اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ ان کے مرحوم مشران نے سنہ 2 ہزار تک افغانستان کے ساتھ لگی طویل مغربی سرحد کو محفوظ رکھا ہے اور اس چوکیداری کی کبھی کوئی قیمت وصول نہیں کی ہے یا پھر ان کو اس بات کی سزا مل رہی ہے کہ قبائلی عوام کے آباواجداد نے کانگریس کے رہنماء نہرو کی بے عزتی کرتے ہوئے غیر مشروط طور پر قیام پاکستان کے حق میں اپنا فیصلہ سنا دیا اور یا تو پھر ان کو آدھے کشمیر کی آزادی کی سزا بھگتنا پڑ رہی ہے

یہ بھی پڑھیں

جب ایک فوجی جنرل نے قائد اعظم کے حکم پر مارچ انٹو کشمیر کی ہدایت کو جوتے کی نوک پر رکھ کر انکار کیا تو اس وقت قبائلی مردوں نے قائداعظم کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے جہاد کے لئے کمربستہ ہوئے اور آج جو کشمیر آزاد ہے یہ انہی قبائلی مجاہدین کے شوق شہادت اور جذبہ جہاد کی بدولت آزاد ہوا تھا جب روسی افواج افغانستان کے اندر داخل ہوئیں تب بھی قبائلی عوام نے فرنٹ پر کھیل کر ہر ممکن تعاون کیا تھا اور لاکھوں افغانوں کو مفت جگہیں دیکر پاکستان پر بوجھ نہیں پڑنے دیا پھر جب امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان میں لنگر انداز ہوئیں تو دہشتگردی کی ایک خوفناک لہر شروع ہوئی

جس میں سب سے زیادہ مالی اور جانی نقصانات قبائلی عوام نے برداشت کئے ہیں، پرائی مسلط کردہ جنگ میں بدنام ہوئے اور اب تک دہشتگردی کی عفریت کے مضمرات سہہ رہے ہیں یہ وہ چند موٹی موٹی باتیں ہیں جن کا زکر کرکے قبائلی عوام کی لازوال قربانیوں کو یاد دلانے کی کوشش کی تاکہ وقت کے حکمران اور پالیسی ساز سمجھ سکیں کہ جن قبائلی عوام کو انہوں نے تمام تر بنیادی، انسانی،مالی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا ہے، ترقی اور خوشحالی سے دور رکھا ہے

ان قبائل کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں حیران ہوں کہ قبائلی عوام کو کیوں دیوار سے لگایا جا رہا ہے بار بار فوجی جنرلوں اور حکمرانوں سے سنا کہ انہوں نے قبائلی علاقوں سمیت پورے پاکستان میں دہشت گردوں کمر توڑ دی ہے ان کا نیٹ ورک ختم کر دیا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ سب دعوے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی باتیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں

قبائلی علاقوں میں ایک بار پھر دہشتگردی کا آغاز برق رفتاری سے ہو چکا ہے وزیرستان سے لیکر باجوڑ تک بم دھماکے، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے کسی بھی قبائلی علاقے میں حالات پرامن نہیں ماسوائے چند ایک کے آئے روز قبائلی اضلاع میں کہیں نہ کہیں کوئی افسوس ناک واقعہ رونما ہوتا ہے ضلع کرم میں شروع فسادات اور جھگڑوں کی جو بھی نوعیت ہے افسوسناک ہے

ان تمام تر برے حالات کو ایک طرف رکھ کر اگر کاروبار اور روزگار کا جائزہ لیں تو بہت دگرگوں حالات سامنے آتے ہیں قبائلی علاقوں میں انڈسٹریز کا وجود تو نہ ہونے کے برابر ہے زراعت اور کھیتی باڑی کے میدان میں جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے جدید ٹیکنالوجی،مہارت اور پانی کی فراہمی کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی اور دلچسپی نظر نہیں آرہی اس کے علاوہ جو تھوڑا بہت کاروبار سرحد پر چل رہا تھا وہ بھی بے پناہ مشکلات اور پابندیوں کی وجہ سے تقریباً ختم ہو چکا ہے حالانکہ بارڈر کے آر پار بسنے والے لوگ آزادانہ نقل و حمل اور کاروبار کرتے ہیں

قبائلی عوام کو بارڈر کے آس پاس کاروبار اور روزگار کرنے سے منع کرنا تعجب کی بات ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ قبائلی عوام ہندوستان جیسے ازلی دشمن کے ساتھ بارڈر پر آباد نہیں بلکہ افغانستان کے ساتھ بارڈر پر آباد ہیں جن کے ساتھ خون، مذہب، عقیدے اور ثقافتی رشتے ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جا سکتا

مجھے اس وقت بڑی حیرانگی ہوتی ہے جب قبائل کے سرکردہ لوگ ہر محفل میں کہتے ہیں کہ ہم محب وطن ہیں بھائی کس سے حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹس لیتے ہیں قبائل سے زیادہ محب وطن اور اس دھرتی پر سب کچھ قربان کرنے والا شاید ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا ہے قبائلی علاقوں میں غربت اور بے روزگاری کی شرح پورے پاکستان سے زیادہ ہے یہاں تعلیم اور ہنر کی کمی ہے ترقی کا کوئی نشان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ہر طرف بےچینی اور مایوسی ہے کبھی حکمرانوں نے قبائلی عوام کی مفلسی اور پسماندگی کو ترجیح ہی نہیں

یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے ،ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں