جبران شنواری ،لنڈی کوتل
2018 میں وفاق اور صوبہ کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات یعنی فاٹا اور پاٹا کو صوبہ خیبرپختونخواہ کیساتھ ضم کئے جانے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے فاٹا کی حیثیت بدلنے اور کئی حکومتی وعدوں کے ایفاء نہ ہونے کا گلہ کیا جارہا ہے ،اور اس سلسلے میں 14 ستمبر کو تمام قبائلی اضلاع کی سیاسی جماعتوں اور عمائدین علاقہ کا ایک گرینڈ جرگہ منعقد کیا جارہا ہے
خیبرقومی جرگہ نامی تحریک اس حوالے سے کافی متحرک ہے جو قبائلی اضلاع کی پرانی حیثیت بحال کروانے کی حامی ہے ۔خیبرقومی جرگہ کے چیئرمین بسم اللہ خان آفریدی کا کہنا ہے کہ جہاں تک فاٹا انضمام کا مطالبہ تھا کسی نے بھی نہیں کیا تھا قبائلی عوام نے جتنی تنظیمیں بنائی تھی ان کا مقصد ہر گز یہ نہیں تھا کہ وہ انضمام کے حامی تھے جبکہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ 40 ایف سی آر اور ان کے ظالمانہ دفعات میں اصلاحات کی جائیں ہم نے جرگہ کے خاتمے قبائلی روایات کی پامالی کی بات ہر گز نہیں کی اور نہ مطالبہ کیا تھا بلکہ ہم نے ظالمانہ دفعات میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے.
دوسرا یہ کہ آرٹیکل 247کے سب آرٹیکل 6 میں فاٹا کی حیثیت کی تبدیلی کا اپنا ایک طریقہ کار موجود ہے اس آرٹیکل کی رو سے فاٹا کی حیثیت کی تبدیلی کا اختیار نہ تو وزیر اعظم کے پاس ہے اور نہ ہی آرمی چیف کو حاصل ہے اسی طرح قومی اسمبلی اور اعلی عدالتوں کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ فاٹا کی تبدیلی یا انضمام کا فیصلہ کر سکے
فاٹا انضمام میں قوانین کو نظرانداز کیا گیا ،خیبرقومی جرگہ
بلکہ یہ اختیار صرف صدر پاکستان کے پاس تھا اور وہ بھی اس بات پر کہ فاٹا کی حیثیت کی تبدیلی ان کے عوام کی رائے کے مطابق کرے گا ان کے جرگے سے مشاورت کرے گا
لیکن اس کے برعکس انہوں نے 25ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کا انضمام کیا ہے یہ اسی آرٹیکل 247کے سب آرٹیکل 6 کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے جس کی رو سے انضمام کو غیر آئینی اور قانونی سمجھتے ہیں یہ جبری انضمام ہوا ہے کیونکہ اس کیلئے جمہوری طریقہ اختیار نہیں کیا گیا
ہمارا کیس سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے اوروہ پرامید ہے کہ کیس کا فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا
جبکہ چودہ تاریخ کو جناح کنونشن سینٹر میں ہونے والے جرگہ کا مقصد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ قبائلی عوام اور مشران حکومت کے فیصلے سے ناخوش ہیں اور وہ اس جبری انضمام کو ہرگز قبول نہیں کرتے 14 ستمبر کو ہونے والے اس کنونشن میں ہم دس ہزار افراد کو جمع کریں گے جو یک زبان ہوکر انضمام کی مخالفت کریں گے
جس کا مقصد عدالت اور حکومت کو یہ دکھانا ہے کہ انضمام کا فیصلہ ہمیں منظور نہیں ہے اور اس کو مسترد کرتے ہیں قبائلی اضلاع میں اس حوالے سے ان کی ڈور ٹو ڈور اور حجرہ کمپین بھی شروع ہے ساتھی قبائلی اضلاع میں انضمام مخالف جرگوں کا بھی انعقاد کر رہے ہیں
یہ بھی پڑھیں
- طالبان سے افغانیوں کا گلہ،شیخ رشید کی پریس کانفرنس اور طورخم زیرو پوائنٹ پر ایک دن
- طورخم سے100 سے زائد افغان شہریوںکی پاکستان آمد ،سمگلنگ کی کوشش ناکام
- قبائلی اضلاع میں بین المدارس کھیلوںکے مقابلے منعقد کرنیکا فیصلہ
- رحیم اللہ یوسفزئی,جوافغان امور کا ماہر اور پاکستانی امور کا نباض تھا
تقسیم برصغیر کے وقت یہ طے ہوا تھا کہ اکثریتی مسلمان علاقہ پاکستان جبکہ اقلیتیں علاقے ہندوستان کا حصہ ہوں گے سابق صوبہ سرحد میں مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں سے زیادہ تھی جبکہ اس کے باوجود بھی انہوں نے ریفرنڈم کروایا تھا
یہاں پر قوم پرست تنظیمیں جن کا کانگریس سے زیادہ جبکہ مسلم لیگ سے لگاؤ کم تھا قوم پرست تنظیمیں یہ چاہتی تھی تقسیم برصغیر نہ ہو ہو اور یہ متحدہ ہندوستان ہی رہے جس پر انگریزوں نے یہاں پر ریفرنڈم کا انعقاد کیا یہ ریفرنڈم پنجاب اور دیگر علاقوں میں نہیں ہوا تھا
اس وقت بھی انگریزوں نے فاٹا کے قبائلی عوام کو آزاد چھوڑ دیا جب کہ تقسیم کے ایک سال بعد حکومت پاکستان نے قبائلی علاقوں پر توجہ مرکوز کی ۔قبائلی عوام اور قائد اعظم کے مابین ایک معاہدہ طے ہوا جس معاہدے کے تحت قبائلی عوام کو حکومت پاکستان کے ساتھ وفادار اور ساتھ دینا تھا
اس معاہدے میں قبائلی عوام نے اپنا یہ نقطہ نظر پیش کیا تھا کہ قبائلی عوام کی روایات کلچر اور آزادی کا احترام کیا جائے گا جب کہ کسی قسم کی بھی اصلاح سے پہلے قبائلی عوام سے مشاورت ضرور لینا ہوگی قومی دائرے میں لانے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کیا پولیس تعینات کی جائے اور قبائلیوں کی معدنیات اور جنگلات پر قبضہ کیا جائے
انضمام کے وقت حکومتی وعدے جن پر عمل نہ ہوسکا
قومی دائرے میں لانے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں پر یونیورسٹیاں قائم ہوں ہو یہاں پر ٹیکنیکل کالجز کا قیام ہو ہسپتال بنیں اسکول بنے سڑکیں تعمیر ہوں ۔لیکن ضلع خیبر کی وادی تیراہ باغ کے مقام پر 2014 میں ہسپتال کی تعمیر پر کام شروع ہوا ہے جو تاحال مکمل نہیں ہوا ہے
اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل اور باڑہ میں تباہ شدہ اسکولوں کو 7 سال میں تعمیر نہیں کیا گیا نہ عالم گودر ہائی اسکول بنا نہ شلوبر ہائی سکول بنا جب کہ اس کے بجائے قبائلی معدنیات جنگلات اور ان کے اثاثہ جات پر قبضہ کر لیا گیا اور قبائلی عوام پر ٹیکس لاگو کر دیے حالانکہ حکومتی دعوے کر رہی ہیں یہ ٹیکس فری زون ہوگا آسمان کے بعد قبائلی عوام میں جو پالیسی مرتب کی گئی اس کو میں قومی دائرہ نہیں کہہ سکتا.
فاٹااںضمام کے وقت حکومت نے تمام مخالف آوازوں کو دبانے کے لئے قبائلی عوام سے جھوٹے وعدے کیے گئے اور کہا گیا سالانہ ایک سو دس ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ دیاجائیگا، اس کے ساتھ قبائلی اضلاع کو تین فیصد این ایف سی ایوارڈ میں بھی حصہ دیا جائے گا
25000 لیویز فورس کو بھرتی کیا جائے گا اور قبائلی اضلاع کو دس سال تک ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے جھوٹے وعدے کیے گئے جبکہ حکومت نے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا فاٹا انضمام کے بعد اب تک چار بجٹ پیش کئے گئے
لیکن اب تک نہ 110 ارب روپے سالانہ دیے گئے گئے اور نہ ہی این ایف سی ایوارڈ میں ان کو حصہ دیا گیا باوجود اس کے کہ خیبرپختونخوا پنجاب وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے ہے جبکہ اس کے علاوہ بلوچستان میں وہ مخلوط حکومت کا حصہ ہے اس کے باوجود این ایف سی ایوارڈ کا کوئی حصہ قبائلی اضلاع کو نہیں مل پایا
خیبر قومی جرگے چئرمین کے بسم اللہ خان آفریدی کہتے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام اور مفتی اچکزی کے عوامی پارٹی ان کے موقف کی تائید کرتی ہے وہ بھی ریفرنڈم کے حق میں ہیں اس کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لوکل ممبران کی ایک بڑی تعداد فاٹا قومی جرگے کی اس موقف کی تائید کرتی ہیں وہ کہتے ہیں کہ جناح کنونشن سنٹر میں اس عظیم تقریب میں سابق بیوروکریٹس اور آرمی کے ریٹائرڈ افسران کے علاوہ وہ قومی اسمبلی کے ممبران کو بھی مدعو کریں گے تاکہ مشترکہ رائے تشکیل پا سکے اور ہم عوام کے حقوق کا بہتر انداز میں تحفظ کرسکیں
مایوسی اور امید ساتھ ساتھ
ایک طرف جہاں فاٹا انضمام کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں وہیں ابھی بہت سے حلقے ایسے ہیں جو ایف سی آر قوانین کے خاتمے اور قبائلی اضلاع کے صوبہ خیبرپختونخواہ میں انضمام کے حوالے سے مطمئن اور مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں
جماعت اسلامی کے مقامی رہنما مرادحسین آفریدی کا کہنا ہے اگرچہ ابھی بہت زیادہ مسائل ہیں لیکن ہمیں ایک بہتر مستقبل کی امید ہے کیوں کہ ابھی یہاں ادارے مکمل طور پر فعال نہیں ہوئے ،اس کے علاوہ بلدیاتی نظام کی وجہ سے نچلی سطح پر عوام کی شنوائی نہیں ہورہی ۔
انہوں نے کہا ایف سی آر کے دور میں ہم نے بدترین وقت گزارا ہے ،جہاں چند لوگوں کی بادشاہت ہوتی تھی ،عام اور غریب لوگوں بدترین استحصال کاشکار ہوتے تھے ۔ملک کا حصہ ہونے کے باوجود ہم اس ملک کا حصہ نہیں تھے ،اب اس کے خلاف وہی لوگ تحریک چلا رہے ہیں جن کی مراعات اور بادشاہت متاثر ہوئی ہے ،عام شہری خوش ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایسے لوگوں کی حمایت کوئی نہیں کریگا