صفدر حسین
مانگل ندی ،ضلع ایبٹ آباد کی تیسری اہم آبی گزرگاہ ہے ،جس کا بہائو سال بھر برقرار رہتا ہے ۔اس ندی پر اب بھی درجن بھر پن چکیاں چلتی ہیں جو منی ہائیڈل پاور کیلئے پانی کی مطلوبہ مقدار کی دستیابی کا اظہار ہے
ضلع ایبٹ آباد کے آخری شمالی کونے پر واقع ایک پہاڑی گائوں کے رہائشی پانچویں جماعت کے طالبعلم عبداللہ کیلئے یہ زندگی کا ایک خوشگوار تجربہ تھا ،جب اس کے گائوں کے پہلو سے بہنے والی ندی پر قائم ایک چھوٹے سے بجلی گھر سے پیدا ہونے والی بجلی اس کے گائوں کے ہر گھر کو بلا تعطل روشن کئے رکھتی تھی
اگرچہ یہ بجلی گھر چھ سال قبل قائم ہوا ،تاہم گذشتہ کچھ مہینوں سے تکنیکی خرابی کا شکار ہونے کے باعث مقامی آبادی اس سے مستفید نہیں ہو پارہی
لیکن ایک ایسے وقت میں جبکہ مہنگائی ہر طبقے کے لوگوں کیلئے پریشان کن مسئلہ اختیار کر چکی ہے ۔اور ایسے میں بجلی کے بھاری بھر کم بل ایسے علاقے کے لوگوں کیلئے انتہائی پریشان کن ہیں جہاں روزگار کے مواقع انتہائی محدود ہیں
چھ سال قبل مانگل ندی پر قائم ہونے والے چھوٹے بجلی گھر کیلئے کوششیں اور دوڑ دھوپ کرنے والے مقامی کونسلر راجہ وقارکے بقول
ضلع ایبٹ آباد میں پیڈو نے تقریباً 7 منی ہائیڈل پاور پروجیکٹ لگائے ،جو گذشتہ کئی سال سے سینکڑوں گھرانوں کو ماہانہ تین سے چار سو روپے میں سال بھر بجلی فراہم کرنے کااہم ذریعہ اور قدرتی وسائل کے بہترین استعمال ثابت ہو رہا ہے ۔

ضلع ایبٹ آباد میں پیڈو نے تقریباً 7 منی ہائیڈل پاور پروجیکٹ لگائے ،جو گذشتہ کئی سال سے سینکڑوں گھرانوں کو ماہانہ تین سے چار سو روپے میں سال بھر بجلی فراہم کرنے کااہم ذریعہ اور قدرتی وسائل کے بہترین استعمال ثابت ہو رہا ہے ۔
-
پنجاب میں بارش نے تباہی مچا دی 17 اموات،50 زخمی
-
Business booming for giant cargo planes
-
Trump-Putin: Your toolkit to help understand the story
-
‘Somebody threatened to burn the school down’
یہ پیڈو یعنی پختونخواہ انرجی ڈویولپمنٹ آرگنائزیشن کے تعاون سے سارا سال رواں رہنے والی ندی مانگل سے بجلی پیدا کرنے کا پہلا تجربہ تھاکیوں کہ اس سے تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد گھروں کو انتہائی سستی بجلی میسر ہوئی
جہاں ہر گھر کو ماہانہ 300 روپے فی گھرانہ یومیہ اوسطاً اٹھارہ سے بیس گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی تھی ۔
درحقیت یہ کمیونٹی بیسڈ منصوبہ تھا جس میں حکومت کی جانب سے بجلی گھر کے قیام کے اخراجات فراہم کئے گئے تاہم اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مقامی لوگوں یا گائوں کی ذمہ دار کمیٹی کے ذمہ تھی ۔

راجہ وقار کے مطابق یہ ہر لحاظ سے انتہائی کامیاب تجربہ تھا ۔کیوں کہ مانگل ندی جو کہ ضلع ایبٹ آباد کی تیسری بڑی آبی گزرگاہ ہے جس میں سارا سال پانی کا بہائو برقرار رہتا ہے
اور بعض مقامات پر اس کا بہائو اتنا ہے کہ معمولی بندوبست کے ذریعے ایک چھوٹا بجلی گھر باآسانی چل سکتا ہے
ان کے بقول مانگل ندی پر درجنوں پن چکیاں (جنہیں مقامی زبان میں جندر کہا جاتا تھا )موجود تھیں ۔جن میں سے اب بھی تقریبا دس پن چکیاں چل رہی ہیں ۔جبکہ زیادہ تر وقت کے ساتھ ختم ہو چکی ہیں ،جس کی کئی وجوہات ہیں
پہاڑی ندی نالے بہائو اور پانی کی رفتارکے باعث چھوٹے بجلی گھروں کیلئے انتہائی موزوں ہیں ،جنہیں انتہائی محدود وسائل کیساتھ بڑی آبادی کیلئے توانائی کی فراہمی کا اہم ذریعہ بنایا جاسکتا ہے
پن چکی اور پن بجلی
کیوں کہ اب نہ تو ان پن چکیوں کو بنانے والے ان کی دیکھ بھال اور مرمت کرنے والے کاریگر بھی ختم ہوچکے ہیں ۔جبکہ پن چکی چلانے والے پرانے لوگوں کی نئی نسل بھی اب یہ کام نہیں کرتی
اس کے علاوہ اب ہر شہر اور گائوں میں آٹا پیسنے کیلئے بجلی یا ڈیزل سے چلنے والی مشینیں بن چکی ہیں۔جس کی وجہ سے لوگ اپنے غلے کی پسوائی کیلئے بھی جندر کا رخ نہیں کرتے
اگرچہ ماضی اور ماضی قریب میں بھی جندر انسانی تہذیب کا اہم جزو رہا لیکن وقت کی رفتارسے ہم آہنگ نہ ہونے اور انسانی زندگیوں میں مشینوں کے بڑھتے استعمال نے اس کی اہمیت کم کر دی ہے
شاہ کوٹ میں قائم منی ہائیڈل پروجیکٹ سے مجموعی طور پر ڈیڑھ سے دو سو کے قریب گھرانے مستفید ہورہے ہیں راجہ وقارکے بقول کچھ بنیادی تکنیکی مسائل کے باوجود یہ ایک کامیاب پروجیکٹ تھا جس کی تکمیل کے بعد ہم مزید پلانٹ لگوانے کیلئے بھی کوشاں تھے ۔
جس سے سستی بجلی کا دائرہ مزید وسیع ہوجاتا اور اردگرد کے مزید گائوں اور بستیوں کو بھی سستی بجلی مل سکتی تھی
تاہم اس پروجیکٹ کو چلانے والے ادارے پیڈو کی جانب سے یہ کام سست روی کا شکار ہو گیا ۔جس سے موجودہ پلانٹ سے تھوڑا آگے دو کلو واٹ کا ایک اور مجوزہ منصوبہ اس وقت تو ختم ہو گیا تھا تاہم ہماری معلومات کے مطابق منی ہائیڈل پاور کا منصوبہ اب دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے اور ہماری کوشش ہو گی کہ ہم اپنے علاقے کیلئے مزید پلانٹس بھی حاصل کرسکیں ۔
شاہ کوٹ کے رہائشی لیاقت اعوان صحت کے مسائل سے دوچار ہونے کے بعد اپنے گائوں میں ایک چھوٹی سی دکان چلا رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ منی ہائیڈل پلانٹس پسماندہ اور دور دراز علاقوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں اور خاص طور پر ایسے علاقے جہاں بجلی کی مسلسل فراہمی اور بحالی کو برقرار رکھنا بڑا چیلنج ہے ۔
کیوں کہ بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اگر بجلی کی لائن میں کوئی خرابی ہو جائے جو کہ معمول کی بات ہے تو اس کے درست کرنے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں ۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب ان کے گائوں کےمیں مقامی سطح پر پیدا ہونے والی بجلی کی فراہمی شروع ہوئی تو یہ ہمارے لئے بڑی خوشی کا مرحلہ تھا
کیوں کہ ایک تو یہ ہمارے مقامی وسائل یعنی ندی کے بہتے پانی کا بہترین استعمال تھا دوسرا ہم اپنی بجلی کے خود مالک تھے کوئی مسئلہ پریشانی ہو جاتی تو ہم گائوں والے کسی اور کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنی مدد آپ کے تحت اسے درست کر لیتے

Strategy for Sustainable Development بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے چند سال قبل تیار ہونے والی ایک رپورٹ کیمطابق ضلع ایبٹ آباد کی 75 فیصد آبادی کا انحصار نیشنل گرڈ پر ہے ،جبکہ مقامی سطح پر انتہائی پوٹینشل موجود ہے کہ یہ ضلع اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی آبادی کی بجلی کی ضروریات کو بڑی حد تک پورا کرسکتا ہے ۔
پھر ہر خوشی غمی میں ہمیں بجلی جانے یا متبادل کوئی بندوبست کرنے کی فکر نہ تھی اور سب سے بڑھ کر پورا مہینہ بجلی استعمال کرنے کے بعد ہمیں صرف تین سو روپے ادا کرنا ہوتے تھے جو موجودہ دور میں کوئی معنی نہیں رکھتے
کیوں کہ اب ایک عام گھر کا بل بھی پندرہ سو دوہزار تک آتا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر لوڈشیڈنگ کا عذاب الگ سے ہے
منی ہائیڈل پروجیکٹ کامیاب اور قابل عمل حل ،انجنیئر فضل ربی جان
پختونخواہ انرجی ڈویولمپنٹ آرگنائزیشن کیساتھ مذکورہ منصوبے پر بطور کنسلٹنٹ خدمات سرانجام دینے والے ماہر انجنیئر فضل ربی جان کا تعلق خیبر پختونخواہ کے ضلع چترال سے ہے
وہ بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں چھوٹے بجلی گھروں کا منصوبہ بنیادی طور پر ایسے علاقوں کیلئے تھا جو دور دراز ہیں جہاں تک نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی ممکن نہیں یا اس کا تسلسل برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے
منی ہائیڈل منصوبے مقامی کمیونٹی کے اشتراک سے لگائے گئے تھے ،جس میں اخراجات کا 20 فیصد حصہ کمیونٹی کو ادا کرنا ہوتا تھا
تاکہ مقامی لوگوں میں احساس ملکیت پیدا ہو اور اس کی حفاظت اور اسے فعال رکھنے میں لوگ خود کردار ادا کریں کیوں کہ حکومت کا کام صرف پلانٹ لگا کر دینا ہے اس کے بعد کی ذمہ داری اس علاقے کے لوگوں کی ہوتی ہے ۔
فضل ربی بتاتے ہیں کہ پیڈو نے ضلع ایبٹ آباد میں مجموعی طور تقریباً چھ منی ہائیڈل پروجیکٹ لگائے تھے ، لیکن چند سال بعد یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہوا ۔تاہم ابھی دوبارہ اس حوالے سے سرکاری سطح پر سوچ و بچار جاری ہے اور امکان ہے کہ جلد ہی منصوبہ دوبارہ شروع ہوگا ۔
ضلع ایبٹ آباد میں شاہ کوٹ کے علاوہ سرکل بکوٹ میں بھی چھ مقامات پر یہ پلانٹ لگائے گئے تھے ۔ جو ابھی تک چل رہے ہیں ،جن سے ان علاقوں کی آبادی مستفید ہورہی ہے ۔
ضلع ایبٹ آباد میں سستی بجلی پیدا کرنے کی کتنی صلاحیت موجود ہے؟
اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ضلع ایبٹ آباد کی بڑی آبی گزرگاہوں جن میں ہرنو ،ہرو یا مانگل شامل ہیں تاہم یہاں پر چھوٹے پروجیکٹ تو کم خرچ میں لگ سکتے ہیں لیکن اگر بڑے یونٹ لگائے جاتے ہیں تو اس کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔
اور یہاں کتنی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور اس سے کتنا فائدہ ہو سکتا ہے؟
اس بارے میں ابھی تک کوئی جامع تحقیق نہیں ہو سکی ۔جس کی وجہ سے نجی شعبہ کی جانب سے اس طرف متوجہ ہونے کا امکان کم ہے
اب تک جو چھوٹے منصوبے لگائے گئے انہیں بڑی حد تک تجرباتی قرار دیا جا سکتا ہے ۔جس سے محدود پیمانے پر ہی سہی بہرحال لوگوں کو فائدہ ضرور ہوا ہے ۔اور سینکڑوں ایسے گھرانوں کو بجلی میسر آسکی جن تک رسائی مشکل تھی

ضلع ایبٹ آباد کی آبی گزرگاہوں پر سینکڑوں پن چکیاں قائم تھیں جو وقت کی رفتار کے ساتھ اپنی افادیت کھو کر ختم ہو رہی ہیں۔لیکن اب بھی درجنوں مقامات پر موجود ہیں ۔یہ اس پہلو کو بھی اجاگر کرتی ہیں کہ جہاں پن چکیاں موجود تھیں وہاں تکنیکی ردوبدل کے ذریعے منی ہائیڈل پاور پلانٹ لگا کر ہزاروں گھروں کو سستی اور مسلسل بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے ۔تاہم اس شعبے کے ماہرین کے مطابق ابھی تک کوئی ایسی جامع سٹڈی نہیں ہوئی جو اس صلاحیت کے بارے میں حتمی رہنمائی فراہم کرسکے
ضلع ایبٹ آباد کے علاقے بکوٹ سے تعلق رکھنے والے صحافی نوید اکرم عباسی نے اپنے علاقے میں لگنے والے منی ہائیڈل پروجیکٹس کو مفید قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا بکوٹ کے مختلف پہاڑی علاقوں میں منی ہائیڈل پاور پلانٹ لگائے گئے تھے ،جو کہ مجموعی طور پر ایک کامیاب تجربہ رہا کیوں کہ اس سے ان دور دراز بستیوں اور گائوں کو بجلی کی فراہمی ممکن ہوئی ۔
یہ ایسے علاقے تھے جہاں تک واپڈا ابھی تک بجلی فراہم نہیں کر سکا تھا کیوں کہ مجموعی طور پر یہ پہاڑی علاقے ہیں اور جہاں واپڈا لائن موجود ہیں وہاں بھی بجلی کی مسلسل فراہمی بذات خود ایک بڑا چیلنج ہے کیوں کہ برفباری ،لینڈ سلائیڈنگ ،درختوں کے گرنے کے باعث تاریں ٹوٹ جانا معمول ہے اور جنہیں بحال رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں کئی کئی ہفتے بجلی غائب رہنا معمول ہے

منی ہائیڈل پروجیکٹ اس لحاظ سے بھی مفید ہیں کیوں کہ دیہی اور پہاڑی علاقوں میں نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی موسمی حالات کے باعث ہفتوں تعطل کا شکار رہتی ہے ۔جس سے ان علاقوں کے سماجی و کاروباری معمولات متاثر ہوتے ہیں ۔لیکن اگر مقامی سطح پر دستیاب متبادل وسائل کو بروئے کار لائے جائے تو اس سے بہت سے مسائل کا پائیدار حل ممکن ہے
لیکن منی یا مائیکرو ہائیڈل پاور پروجیکٹس ان علاقوں کیلئے نعمت ثابت ہوئے جہاں انتہائی معمول بل ادا کر کے بجلی کی مسلسل فراہمی ہو رہی ہے ۔
ان کا کہنا تھا بکوٹ اور اس کے گردونواح میں واقع پہاڑی سلسلوں میں بہنے والے تیز رفتار اور سدا بہار پہاڑی ندی نالے پن بجلی کی پیداوار کا ایک قدرتی ذریعہ بن سکتے ہیں ۔اور اس مقامات پر اتنی صلاحیت موجود ہے کہ اگر انہیں صحیح معنوں میں استعمال کیا جائے اور درمیانے ہائیڈل پروجیکٹ لگائے جائیں تو کوئی شک نہیں کہ یہ ہزاروں گھروں کی بجلی کی سستی اور مسلسل فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے
مسائل کی نشاندہی ،ان کا حل اداروں کے مابین رابطہ کار کا فقدان
ضلع ایبٹ آباد کی تعمیر و ترقی اور وسائل ،مسائل اور امکانات کے حوالے سے آئی یو سی این اور پختونخواہ حکومت نے ایک جامع اور تفصیلی رپورٹ تیار کی تھی جس میں ضلع کی تعمیر و ترقی اور مستقبل کے لائحہ عمل کو واضح طور پر بیان کیا گیا تھا ۔
A Strategy for Sustainable Development
اپنی نوعیت کی پہلی اور جامع رپورٹ تھی لیکن بوجوہ اس پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہوسکا ۔

چند سال قبل تیار ہونے والی ایک سٹڈی رپورٹ کے مطابق ضلع ایبٹ آباد کی 75 فیصد آبادی کا انحصار نیشنل گرڈ پر ہے ۔البتہ دور دراز دیہی اور پہاڑی علاقوں میں بجلی کی دستیابی کے بارے میں اداروں کے پاس ٹھوس معلومات دستیاب نہیں ۔اور نہ ہی ان علاقوں کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے متبادل ذرائع کے فروغ کیلئے مختصر یا طویل المدتی حکمت عملی موجود ہے ۔جو آنے والے دور میں ایک سنگین صورتحال بھی اختیار کر سکتی ہے
اس رپورٹ کے مطابق ضلع ایبٹ آباد میں 75 فیصد آبادی کو نیشنل گرڈ کے ذریعے بجلی فراہم کی جارہی ہے ۔تاہم دیہی علاقوں کو بجلی کی فراہمی کس حد تک ممکن ہے اس بارے میں اداروں کے پاس کوئی واضح معلومات دستیاب نہیں ۔
اگرچہ (سرحد ہائیڈل پاور ڈویولپمنٹ آرگنائزیشن )موجود پختونخواہ ہائیڈل پاور ڈویولپمنٹ آرگنائزیشن پیڈو چھوٹے ہائیڈل پاور پروجیکٹس کے حوالے سے کام تو کر رہی ہے لیکن اس حوالے سے پیڈو،واپڈا اور پاکستان کونسل فار رینیوایبل انرجی اینڈ ٹیکنالوجی کے مابین ربط کار کا فقدان دکھائی دے رہا ہے
رپورٹ کے مطابق متبادل توانائی کے ذرائع کو بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے قدرتی وسائل پر دبائو بڑھ رہا ہے جس کے طویل المدتی نقصانات ہو سکتے ہیں
اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مقامی سطح پر مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مختصر یا طویل المدتی کوئی حکمت عملی موجود ہی نہیں ۔
اس رپورٹ کی تیاری میں اس وقت فعال کردار ادا کرنے والے صحافی اور سوشل ایکٹوسٹ سید کوثر نقوی کا کہنا ہے
آبادی بڑھنے کیساتھ ساتھ توانائی کی ضروریات بھی بڑھتی جارہی ہیں ۔ لیکن قابل تجدید ذرائع سے استفادہ نہ ہونے کی وجہ سے ہماری مجموعی قومی معیشت پر بھی دبائو بڑھ رہا ہے جو کسی موڑ پر پہنچ کر سنگین صورتحال اختیار کر سکتا ہے
اس لئے ضروری ہے کہ مقامی وسائل کو ترقی دینے کیلئے بلدیاتی نظام کو مضبوط کیا جائے جو مقامی وسائل کی ترقی کیلئے خود پالیسی تیار کریں اور اس پر عمل درآمد یقینی بنائیں
سید کوثر نقوی کے مطابق آنے والے وقتوں میں توانائی کا بحران ایک سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے ۔
مقامی وسائل کی ترقی کیلئے بلدیاتی اداروں کی مضبوطی ضروری ہے جو اپنے مسائل کا حل اپنے وسائل سے خود نکال سکیں ،سید کوثر نقوی کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے بحران کا فوری حل یہی ہے کہ نیشنل گرڈ سے محروم علاقوں میں قدرتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے توانائی کے متبادل ذرائع کو فروغ دیا جائے
طویل المدتی بنیادوں پر بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے ہمیں مائیکرو اور منی لیول تک توانائی کے متبادل ذرائع پر انحصار بڑھانا ہوگا ۔ضلع ایبٹ آباد میں چھوٹے ڈیموں اور منی ہائیڈل پروجیکٹس کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے ۔
چھوٹے اور بڑے ندی نالے ایسے ہیں جن میں سارا سال پانی موجود رہتا ہے اور ان میں اتنی صلاحیت اور گنجائش موجود ہے کہ وہ اگر ضلع کی پوری آبادی نہ سہی تو کم از کم آدھی آبادی کی بجلی کی ضرورتوں کو باآسانی پورا کرسکتے ہیں