سدھیر احمد آفریدی ۔لنڈی کوتل


گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لنڈی کوتل میں منعقد ہونے والا 35 واں جشن آزادی فٹبال ٹورنامنٹ جمعہ کے روز اختتام پذیر ہوگیا ،یہ ایونٹ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل تھا کیوں کہ گذشتہ کئی سالوں سے ان اضلاع میں بدامنی اور دہشت گردی کے باوجود اس ٹورنامنٹ کا انعقاد باقاعدہ سے ہوتا رہا ہے ،لیکن اس سے قبل حالات کی وجہ سے سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عوامی شرکت ممکن نہ ہوتی تھی

البتہ اس سال تقریباً تمام قبائلی اضلاع سے ہزاروں کی تعداد میں تماشائی کھیل کو دیکھنے کے لئے گرائونڈ میں موجود تھے ،بلکہ اردگرد عمارات پر بھی تل دھرنے کوجگہ نہ تھی ۔منتظمین کے دعوے کے مطابق اس سال تقریباً 30 ہزار سے زائد لوگ فائنل دیکھنے آئے ۔لیکن نامناسب انتظامات اور سہولتوں کی غیرموجودگی کے باعث یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہے ۔جو کہ ماضی میں نظرانداز کئے جانے والے اضلاع کے نوجوانوں کو مثبت تفریح اور ان میں قومی جذبہ بیدار کرنے میں اہم معاون بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔

ٹورنامنٹ میں شریک ٹیمیں اور کھلاڑی

ویڈیو رپورٹ :جبران شنواری

یوم آزادی 14 اگست سے شروع ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں 36 ٹیمیں اور ساڑھے پانچ سو کھلاڑی شریک ہوئے ،جن میں 36 عالمی فٹبال کے کھلاڑی بھی شامل ہیں ۔اس ٹورنامنٹ کا فائنل میچ جمعہ کے روز شنواری ستوری فٹبال کلب اور فامید فٹبال کلب کے درمیان کھیلا گیا ۔جسے شنواری ستوری نے ایک کے مقابلے میں دو گول سے جیت لیا اور یوں کھیل کا یہ طویل معرکہ اپنے اختتام کو پہنچا


یہ بھی پڑھیں


جن کھلاڑیوں نے فائنل میچ میں اپنے جوہر دکھائے ان میں امید کلب سے یاسرآفریدی ،ریاض ،شنواری ستور ی کلب میں عتیق شنواری ،عالمگیر ،منصور ،وسیم دادا ،فیاض شاہین نمایاں ہیں ،جبکہ عالمی سطح پر کھیلنے والے کھلاڑیوں میں میرویس ،شمروز ،عبداللہ شاہ ،اظہار ،ریاض،اویس ،عدنان شاہین ،جنید ،وحیدآفریدی اور زین بلوچ شامل تھے

میچ دیکھنے کتنےلوگ آئے

ناکافی سہولتوں کے باوجود ہزاروں افراد فائنل دیکھنے آئے(تصویر جبران شنواری)

جشن آزادی فٹبال ٹورنامنٹ لنڈی کوتل میں ہر سال باقاعدگی سے منعقد ہوتا ہے لیکن اس بار جو تماشائی فائنل میچ کو دیکھنے کے لئے آئے تھے وہ پہلے کی نسبت بہت ہی زیادہ تھے خیبر سپورٹس کلب کے صدر معراج الدین شینواری اور منظور شینواری کے مطابق 25 ہزار تماشائی موجود تھے اس لئے تل دھرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی جن میں ہر عمر کے چھوٹے بڑے افراد شامل تھے لوگوں کا ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ ہائی سکول، پرائمری سکول اور لنڈی کوتل پوسٹ گریجویٹ کالج کی عمارتوں پر بھی کسی کو بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی

ناکافی سہولیات اور ہر طرف اڑتا ہوا گرد و غبار

گراونڈ کی سیڑھیاں تو دو گھنٹے پہلے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں یہی وجہ تھی کہ خیبر سپورٹس کلب کی انتظامیہ کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ ہزاروں لوگوں کے جم غفیر کو سنبھالتے اس لئے گراونڈ میں ڈسپلن نام کی چیز دیکھنے کو نہیں ملی

گردوغبار زیادہ تھا اور کسی کو وضو یا پینے کے لئے پانی بھی نہیں ملا جس کی بنیادی وجوہات یہ تھیں سپورٹس انتظامیہ کے پاس وسائل کی کمی تھی اور تماشائی توقع سے زیادہ تھے بد نظمی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میڈیا سے ہٹ کر ہر تماشائی کے پاس سمارٹ فون تھا جس سے ہر کوئی ویڈیو بنانے میں مصروف تھا اس لئے سوشل میڈیا صارفین کی وجہ سے دیگر عام لوگوں اور مہمانوں کو میچ دیکھ کر لطف اندوز ہونے کا بہت کم موقع ملا

لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے گراونڈ کے احاطے کو بھی کم کرنا پڑا، تماشائی گراونڈ کی طرف بڑھنے لگے اور کھلاڑیوں کے لئے میدان کم پڑ گیا

منتظمین کا حکومت سے شکوہ

ٹورنامنٹ کی آرگنائزنگ کمیٹی ک ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ ہر سال اپنی مدد آپ اور اپنے وسائل ٹورنامنٹ منعقد کرتے ہیں ،جس میں زیادہ تر علاقہ کے اہل ثروت حضرات تعاون کرتے ہیں ،اس کے علاوہ کاروباری حضرات بھی حصہ ڈالتے ہیں

ٹورنامنٹ آرگنائزر منظور شنواری کی میڈیا سے گفتگو(تصویر جبران شنواری)

حکومت کی جانب سے بعض اوقات انتہائی محدود اور کبھی نہ ہونے کے برابر مالی تعاون کیا جاتا ہے ،لیکن اس کے باوجود گذشتہ تقریباً 35 سال سے ٹورنامنٹ باقاعدگی کیساتھ منعقد ہوتا آرہا ہے ۔کیوں کہ ہمارا مقصد اپنے نوجوانوں کو کھیل کے ذریعے مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرنا اور انہیں خود اعتمادی کے ساتھ قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرنا ہے

منظور شینواری کے بقول جس طرح ہمارے نوجوان کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان تمام تر مسائل اور محدود وسائل کے باوجود ہر میدان میں آگے بڑھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور ہم انہیں حتی المقدور مواقع فراہم کرتے رہیں گے

سپورٹس کمپلیکس ہمارا مطالبہ اور وقت کی ضرورت ہے

خیبر سپورٹس کلب کے صدر معراج الدین شینواری کا کہنا تھا 35 سالوں سے لنڈی کوتل کے نوجوان اور کھلاڑی صرف یہی ایک مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ لنڈی کوتل میں ایک معیاری اور تمام تر سہولیات سے آراستہ سپورٹس کمپلیکس تعمیر کیا جائے جس میں کم از کم ایک لاکھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہو اور جس میں تمام سپورٹس مین اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر کے علاقے، ملک اور قوم کا نام روشن کریں

معراج الدین شینواری نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی یہاں کے کھلاڑیوں اور ہزاروں تماشائی کی موجودگی میں وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ پرائم منسٹر بن گئے تو لنڈی کوتل میں ایک معیاری سپورٹس کمپلیکس بنا کر دینگے لیکن اب وہ بھی اپنا وعدہ بھول چکے ہیں

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ اگر وزیر اعظم بنے تو لنڈی کوتل میں سپورٹس کمپلیکس بنائیں گے(تصویر جبران شنواری)

انہوں نے بتایا کہ گورنروں، وزراء اور قومی سیاسی جماعتوں کے قائدین جیسے سراج الحق وغیرہ نے بھی یہاں آکر وعدے کئے تھے کہ وہ سپورٹس کمپلیکس کی تعمیر میں لنڈی کوتل کے نوجوانوں کا ساتھ دینگے لیکن وہ سب تو چھوڑیں لنڈی کوتل سے منتخب نمائندوں جیسے ایم این اے نورالحق قادری اور ایم پی اے شفیق شیر آفریدی نے بھی ان کے لئے سپورٹس کمپلیکس بنوانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں

لنڈی کوتل میں جشن آزادی فٹبال ٹورنامنٹ کے فائنل میچ کے موقع پر تحریک اصلاحات پاکستان کے چئیرمین الحاج شاہ جی گل آفریدی، ایم پی اے ویلسن وزیر اور ایم پی اے شفیق شیر بھی موجود تھے

منظور شینواری کے مطابق لنڈی کوتل کے اس بڑے ٹورنامنٹ پر چار سے پانچ لاکھ روپے خرچہ آیا ہے جس میں سپورٹس ڈیپارٹمنٹ نے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے دئیے ، ایک لاکھ روپے الحاج شاہ جی گل آفریدی نے جبکہ دیگر چھوٹے ڈونرز نے بھی اپنی بساط کے مطابق مالی تعاون کیا ہے

حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا فٹبال ٹورنامنٹ خیبر سپورٹس کلب نے اپنی مدد آپ کے تحت انجام تک پہنچایا اور اگر حکومت سپورٹس کی اتنی بڑی ایکٹیوٹی کرتی تو یقیناً اس پر کروڑوں روپے خرچ کرتی اس پرامن ٹورنامنٹ کے انعقاد سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قبائلی عوام پرامن ہیں اور کھیلوں کے میدانوں کو آباد رکھنے کو تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔