رومان ملک


تنازعہ فلسطین و اسرائیل کے آغاز پر بھارت فلسطینی جدوجہد کا حامی تھا جس کے فلسطینی تحریک آزادی کی قیادت کے ساتھ قریبی اور خوشگوار تعلقات تھے

لیکن اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حالیہ جارحیت کے دوران بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت کھل کر اسرائیل کی حمایت میں سامنے آئی

جس کی سب سے بڑی مثال اس وقت سامنے آئی جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس نے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں کے خلاف اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرہ کرنے  اور سوشل میڈیا پر فلسطین کے حق میں پوسٹیں لکھنے کے جرم میں متعدد نوجوانوں کو گرفتار کرلیا

جمعہ کے روز بھارتی پولیس نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے مہجور نگر سے 32 سالہ مصور مدثر گل کو حراست میں لے لیا ،مدثرگل ان 20 نوجوانوں میں شامل ہیں جنہیں پولیس نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرہ کرنے پر گرفتار کیا


یہ بھی پڑھیں 

ٹوئٹرپر بھارت نوازی کا الزام،کشمیریوں کی آواز متعدد اکائونٹس معطل

غلام مصطفی شاہ ،تحریک آزادی کشمیر کا اہم کردار،جو اپنوں‌بیگانوں‌کی بے اعتنائی کا شکار ہوا

کشمیر کے الحاق پاکستان کی توانا آواز اشرف صحراٸی چل بسے


ممکنہ طور پر بھارتی حکومت کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر کشمیریوں کو احتجاج و مظاہروں کی اجازت دی جاتی ہے تو کشمیر میں بھی فلسطینی طرز کے انتفادہ کا آغازہو سکتا ہے۔جہاں 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت بدلنے پر بھارت مخالف جذبات اپنے عروج پر ہیں

واضح رہے مدثر گل نے قومی و بین الاقوامی میڈیا کی زینت بننے والا وہ پوسٹر ڈیزائن کیا تھا جس میں ایک فلسطینی پرچم لپیٹے ایک روتی ہوئی خاتون کو دکھایا گیا تھا اور اس پر لکھا تھا
                                         ہم بھی فلسطین ہیں

تصویر ٹوئٹر

دوسری جانب بھارتی پولیس کو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر اس طرح کے مظاہروں کو جلد نہ روکا گیا تو ان کا رخ بھارت مخالف مظاہروں کی جانب مڑ سکتا ہے ،جہاں گذشتہ کئی ماہ سے عوامی اجتماعات اور احتجاج و مظاہروں پر سختی سے پابندی عائد ہے
اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر پولیس کے سربراہ وجے کمار کا کہنا کہ انتظامیہ وادی میں حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور فلسطین کے افسوسناک واقعات کی آڑ میں کسی کو وادی میں حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی

اور اس بارے میں سوشل میڈیا پر بھی غیرذمہ دارانہ پوسٹیں لگانے اور لکھنے پر بھی سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی

ٹوئٹر

حالیہ گرفتاریوں کو بھی کشمیر میں بھارت مخالف آوازوں اور جذبات کو دبانے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے

کشمیر کا معاملہ بھارت سیاسی بیانیہ کے تحت کانگریس کے نزدیک یہ رہا کہ مسلم اکثریت کا حامل کشمیر بھارت کے سیکولر آئین آورکثیرالثقافتی کی علامت اور پورے کشمیر کا بھارت کیساتھ مکمل انضمام ہی تقسیم کے ایجنڈے کی تکمیل ہے
اور بھارت کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا 2019 میں خصوصی حیثیت کے خاتمے تک کم وبیش یہی موقف رہا

لیکن نریندرا مودی کی زیر قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کاہندو انتہا پسند ونگ ہندوتوا کے نظریہ کے تحت کشمیر کو ہندوئوں کی مقدس سرزمین قرار دیتے ہوئے اس کی جغرافیائی اور آبادیاتی خدوخال کو بدلنے پر کمربستہ ہے ،بالکل اسی طرح جس طرح اسرائیل نے آبادکاروں کے ذریعے فسلطین کی حیثیت بدل کر رکھ دی

البتہ گذشتہ تین دہائیوں کے دوران بھارت کو کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور حریت پسندوں سیاسی و مسلح مزاحمت کا سامنا رہا ،جس میں اب تک 70 ہزار لوگ مارے گئے ،جس سے نمٹنے کیلئے نئی دہلی نے سخت گیر پالیسی اختیار کی اور بھارتی آئین کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کردی ۔

1971 میں مغربی پاکستان پر لڑی جانے والی پاک بھارت جنگ جو کہ بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی کے نتیجے میں ہونے والے شملہ معاہدے کے بعد مسئلہ کشمیر عملاً سردخانہ کی نذر رہا،حتی کہ امریکہ جو 1948 سے دونوں فریقوں کے درمیان مسئلہ کے حل کیلئے اہم کردار ادا کررہا تھا وہ بھی پیچھے ہٹ گیا

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی فیس بک وال پر جاری ہونے والی ایک پوسٹ جس میں انہوں نے فلسطین کیساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے

یہ خاموشی کچھ عرصہ تک برقرار رہی اور پھر 80 کی دہائی میں وادی میں بھارتی اقتدار کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا۔جس کے ساتھ ہی بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا

کشمیر انتفادہ کا لفظ پہلی اپریل 1990 میں پاکستان ہوریزون نامی ایک جریدے میں استعمال ہوا ،جسے اس مضمون کے لکھاری حفیظ الرحمن خان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اپنے حق خودارادیت کیلئے لڑنے والے کشمیریوں کی جدوجہد سے تعبیر کیا

مضمون میں مزید لکھا گیا کہ کشمیرانتفادہ نے بھارتی پروپیگنڈے کو پول کھول کردنیا کے سامنے رکھ دیا کہ کشمیر میں انتخابات کے بعد حالات معمول پر آچکے ہیں اور کشمیر بھارت کا حصہ بن چکا ہے
اور جب مقامی مزاحمت منظم ہوئی ،تو کشمیریوں نے بھارت کے خلاف اپنی جدوجہد کو انتفادہ سے تعبیر کیا ،2008 میں جب بھارتی حکومت نے ہمالیہ میں ایک ہندو عبادت گاہ کیلئے 98 ایکڑ زمین دینے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں کشمیر بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ،

اور یہ پہلا موقع تھا جب مظاہرین نے بھارتی فوجیوں پر پتھر بھی برسائے ۔ان مظاہروں میں 60 سے زائد مظاہرین جاں بحق جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔اس دوران انتفادہ کے لفظ کی گونج ایک بار پھر سنائی دی

2010 میں کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر پتھرائو کے بڑھتے واقعات کو فلسطین میں پتھرائو کے ساتھ تشبیہ دی گئی جب دونوں انتفادہ کے دوران اسرائیلی فوجیوں پر پتھر برسائے جاتے تھے
خود کشمیری جو اپنی فلسطینیوں کی جدوجہد کو غاصبانہ قبضہ کے خلاف مزاحمت قراردیتے ہیں نے انتفادہ کا لفظ استعمال کرنا شروع کردیا

جہاں دونوں مقامات پر اپنا حق مانگنے والوں کو بدترین ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑرہاتھا

اس طرح کشمیری اپنی جدوجہد کو عالمگیریت کی شکل دینے اور اسلامی دنیا ،مغربی جمہوریتوں اور رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیوں کہ کشمیر کے مقابلے میں فلسطینی جدوجہد کو عالمی سطح پر کہیں زیادہ توجہ ملی

باوجودیکہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعہ کی اصل جڑ ہے ،لیکن اس کے باوجود فلسطین کے معاملے پر دونوں ممالک کا موقف یکساں رہا ہے

جہاں بانی پاکستان نے روز اول سے فلسطین و کشمیر کے حوالے سے اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کا تعین کردیاتھا ،کیوں کہ ان کے نزدیک بھارت کا کشمیر اور اسرائیل کا مٖغربی کنارے پر قبضہ ایک ہی نوعیت کے واقعات تھے

اسی طرح غیروابستہ پالیسی کے تحت بھارت نے بھی ہمیشہ فلسطین کی حق خودارادیت اور دو ریاستی حل کی حمایت کی ۔بھارت پہلا غیر عرب ملک تھا جس نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او)کو فلسطینیوں کی واحد نمائندہ تنظیم تسلیم کیااور نئی دہلی میں پورے سفارتی درجے کیساتھ پی ایل او کا پہلا دفتر قائم ہوا

1988 میں جب یاسر عرفات نے الجیریا میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیاتو اسے تسلیم کرنیوالوں میں بھارت بھی شامل تھا

لیکن حالیہ چند سالوں کے دوران تل ابیب اور نئی دہلی کے مابین چاہت و محبت کے نئے سلسلے استوار ہوتی دکھائی دینے لگے جب نریندرا مودی حکومت نے نتن یاہو حکومت کے ساتھ دفاعی و تجارتی تعلقات استوار کئے

جولائی 2017 میں نریندرا مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے بھارت کے پہلے وزیر اعظم بن گئے ،حالانکہ اسی اسرائیل کے طیاروں نے 1960 میں غزہ میں امن فوج میں شامل بھارتی فوجیوں سے ملاقات کیلئے آنے والے پہلے وزیراعظم جواہرلال نہرو کا پیچھا کیا گیا تھا

لیکن حال ہی میں بھارت میں بالخصوص دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعتوں میں اسرائیل پسندی میں اضافہ ہوا ہے جن کے نزدیک شدت پسند اسرائیلیوں اور ان کے درمیان مسلم دشمنی واحد وجہ رفاقت دکھائی دے رہی ہے

حالیہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے دوران ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر

#بھارت اسرائیل کے ساتھ ہے کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ رہا ۔اور اس ٹرینڈ کو چلانے والوں میں زیادہ تعداد بی جے پی کے حامیوں کی تھی

ٹوئٹر

لیکن ایسا بھی نہیں بلکہ بہت سے معروف بھارتیوں نے کھل کر فلسطینیوں کی حمایت کی اور بھارت میں موجود قوم پرست انتہاپسندوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا

معروف لکھاری ارون دتی رائے اور کئی نامی گرامی لکھاریوں اور دانش وروں نے فلسطینیوں کی مزاحمت اور جوابی حملوں کو عالمی قوانین کی روشنی میں ان کا دفاعی حق قرار دیا ۔

اگرچہ پورے بھارت میں فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے واضع طور پر دو رائے پائی جاتی ہیں لیکن صرف کشمیر میں فلسطین کی حمایت پر نوجوانوں کی گرفتاری بھارتی حکومت کی کمزوری کو عیاں کرتی ہے ،جو اپنے طور پر کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کے باوجود ممکنہ خدشات کا شکار ہے ۔