آزادی ڈیسک
پیر کی شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکال دینا مسئلے کا حل نہیں کیوں کہ مغرب اس معاملے کو آزادی اظہار سے جوڑتا ہے
عمران خان نے کہا جب بھی نبی آخرالزمان کی شان میں گستاخی ہوتی ہے تو جہاں بھی مسلمان بستے ہیں انہیں تکلیف ہوتی ہے
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ۔لیکن 50 مسلم ممالک میں سے کوئی بھی یہ مطالبہ نہیں کررہا کہ فرانس کے سفیر کو نکال دیا جائے
انہوں نے کہا فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے پر فرانس کو کوئی فرق نہیں پڑیگا بلکہ پاکستان متاثر ہوگا
یہ بھی پڑھیں
کالعدم تحریک لبیک کے ہاتھوں 12پولیس اہلکار اغواء ،مرکز کے راستے بند
پاکستان میں سوشل میڈیا تک رساٸی عارضی طور پر معطل
تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد،قانونی کاروائی کا فیصلہ
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’کیا فرانس کے سفیر کو واپس بھیجنے سے یہ گارنٹی ہے کہ نبی کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کرے گا۔ میں مغرب کو جانتا ہوں، فرانس کے بعد یہ کسی اور ملک میں ہوگا۔ انھوں نے اسے اظہار رائے کی آزادی بنایا ہوا ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات کی اشاعت کا بھی حوالہ دیا جس کے خلاف سارے اسلامی ممالک میں شدید احتجاج ہوا ،لیکن ان کا کہنا تھا اس احتجاج کا مغربی ممالک پر کیا اثر ہوا؟
وزیراعظم عمران خان نے کہا انھیں افسوس ہے کہ ملک میں چند عناصر پاکستانیوں کی پیغمرِ اسلام کے لیے عقیدت اور محبت کا غلط استعمال کر کے اپنے ہی ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تحریک لبیک پاکستان کا اور ان کی حکومت کا یکساں مقصد ہے کہ ’نبی کی شان میں گستاخی نہ ہو‘ تاہم طریقہ کار کا فرق ہے۔
فرانس کے سفیر کی پاکستان سے بےدخلی کے مطالبے پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس سے فرانس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن پاکستان کو فرق پڑے گا۔ بڑی دیر کے بعد لارج انڈسٹری بڑھی ہے، ہماری ایکسپورٹ بڑھ رہی ہیں، ہمارا روپیہ مضبوط ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ‘جب ہم فرانس کے سفیر کو واپس بھیج کر تعلقات توڑیں گے، اس کا مطلب یورپی یونین سے تعلقات توڑیں گے۔ آدھی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ یورپ میں جاتی ہیں۔ اس سے ٹیکسٹائل آدھی رہ جائے گی، بے روزگاری ہوگی، مہنگائی بڑھے گی، روپیہ نیچے جائے گا۔۔۔ہمارا نقصان ہوگا۔’
وزیراعظم نے کہا کہ ’میں نے جون 2019 میں او آئی سی کے اجلاس میں اسلاموفوبیا پر بات کی اور کہا کہ مغرب میں ہمارے پیارے نبی کی بے حرمتی ہوتی ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اس پر بات کی، فیس بک انتظامیہ کو بھی خط لکھا اور اسلام ممالک کے سربراہان کو بھی خط لکھے‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’ 50 مسلمان ملک ہیں کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ فرانس کے سفیر کو واپس بھجوائیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘صرف پاکستان کے بائیکاٹ سے مغرب کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، تمام مسلم ممالک کو اس پر بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ مغرب کو یہ متفقہ پیغام دیں کہ اگر کسی بھی ملک میں اس طرح کی گستاخی کی گئی تو ہم سب اس سے تجارتی تعلقات منقطع کریں گے، تب جاکر انہیں احساس ہوگا۔’
انھوں نے کہا کہ’ ہم اقوام متحدہ میں سب مسلمان ملک دوسروں کو بتائیں کہ ہمیں کیوں تکلیف ہوتی ہے۔ مغرب میں اپنے پیغمر سے پیار اور عشق نہیں کرتے۔ اس لیے ہمیں انھیں یہ سمجھانا پڑے گا۔’
انھوں نے یہودیت کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’دنیا میں تھوڑے سے یہودی ہیں لیکن انھوں نے اکھٹے ہو کر مغربی دنیا کو بتایا ہے کہ ہولوکاسٹ کے خلاف کوئی منفی بات نہ کریں۔ آج مغربی میڈیا میں کوئی بھی ایسی بات نہیں کرتا۔ چار ملک ایسے ہیں کہ وہاں جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ کیا ہم نہیں باور کرا سکتے ہیں ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ میں اس مہم کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ ہم ان کو ایک دن سمجھا دیں گے کہ جس طرح وہ یہودیوں کے لیے حساس ہیں، تو ہم تو سوا ارب مسلمان ہیں۔ جیسے جیسے ان کو سمجھ آ گئی ہم اپنے مقصد کو پہنچ جائیں گے۔’
اپنے خطاب کے آخر میں وزیراعظم نے کہا کہ علما سے کہوں گا کہ وہ ’میرا ساتھ دیں‘۔
انھوں نے پولیس اور شہری تنصیبات اور املاک کو پہنچنے والے نقصان کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ پولیس کی 40 گاڑیوں کو جلایا گیا ہے، چار پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں، پہلے دن 100 سڑکیں بلاک کی گئیں۔ آکسیجن کے سیلنڈر نہیں جا پا رہے تھے کورونا کے مریضوں کی اموات ہوئیں۔’
واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک ایسے وقت میں قوم سے خطاب کیا جب کالعدم تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے احتجاج پرتشدد رخ اختیار کرچکا ہے
اور پورے ملک میں مظاہروں کاسلسلہ تاحال جاری ہے ۔گذشتہ روز اس وقت حالات سنگین صورتحال اختیار کرگئے جب لاہور میں یتیم خانہ چوک سے مظاہرین کو ہٹانے کیلئے پولیس نے طاقت کااستعمال کیا
بعدازاں مشتعل مظاہرین نے تھانے پر حملہ کرتے ہوئے ایک اعلیٰ افسر سمیت 12 پولیس و رینجرز اہلکاروں کو یرغمال بنالیا تھا ،جس کے بعد خدشہ پیدا ہورہا تھا کہ حالات مزید ابتر ہوسکتے ہیں ،البتہ اگلے روز مذاکرات کے بعد ان اہلکاروں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے
گذشتہ رات گئے اہلسنت علماء کی جانب سے تحریک لبیک کے کارکنوں پر تشدد اور کریک ڈائون کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا جس کے مختلف شہروں میں جزوی اثرات دیکھے گئے
جبکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ،جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے علاوہ دیگر جماعتوں اور وکلاء کی جانب سے اس ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا گیا تھا اور حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 16 نومبر 2020 کو اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی تحریک لبیک پاکستان کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی سے چار نکات پر معاہدہ کیا تھا جن کے تحت حکومت کو دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو واپس بھیجنا تھا۔
اس معاہدے پر عمل نہ ہونے کے بعد فروری 2021 میں تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جس کے تحت حکومت کو 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے وعدے پر عمل کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔
لیکن تحریک کی جانب سے حکومت پر وعدہ خلافی کا الزام عائد کرتے ہوئے کورونا وبا کے باوجود 20 اپریل کو ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کیا گیا تھا ۔جس کے نتیجے میں حکومت نے تحریک کے رہنما سعدرضوی کو حراست میں لے لیا ،جس کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا،جو تاحال جاری ہے