دیگر پوسٹس

تازہ ترین

!!!مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے

سدھیر احمد آفریدی کوکی خیل، تاریخی اور بہادر آفریدی قبیلے...

حالات کی نزاکت کو سمجھو!!!

سدھیر احمد آفریدی پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کو غریبوں...

ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات!!

کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے

متبادل پر سوچیں!! سدھیر احمد آفریدی کی تحریر

یہ بلکل سچی بات ہے کہ کوئی بھی مشکل...

غزہ جنگ ،حماس کی 10 نکاتی حکمت عملی جو اسرائیل کو زمین بوس کرسکتی ہے

تحریر احمد منصور

اب تک رونما ہونے والے واقعات کے مطالعے کے بعد میں جسے نتیجے پر پہنچا ہوں اسے بغیر کسی تمہید اور تعارف کے آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ،اپنی پہلی تحریر میں میں نے اسرائیل کے غزہ کیلئے منصوبے پر بات کی تھی اور اب میں آپ کے سامنے حماس کا وہ منصوبہ رکھنا چاہوں گا جو انہوں نے اسرائیل پر مکمل غلبہ پانے کیلئے تشکیل دیا ہے

اکتوبر 7 2023 کو حماس نے اسرائیل کو پہلی شکست دی جو تاریخ عالم کے اوراق کا لازمی حصہ بن چکی ہے ،حماس پہلے روز فتح مند ہوئی اور اب وہ اس جنگ کا سامنا کررہے ہیں جو زبردستی ان پر مسلط کی گئی ہے ۔یقیناً حماس اس معرکہ میں تائید ایزدی سے مکمل تیاری کیساتھ اتری ہے ۔اور انہیں مکمل یقین تھا کہ اللہ انہیں کبھی شکست سے دوچار نہیں کریگا ۔ یہی وجہ ہے کہ حماس نے ہتھیاروں سے لیکر افرادی قوت تک ہر پہلو سے اپنی تیاریاں مکمل کیں اور پھر وہ میدان کارزار میں اترے ہیں اس یقین کیساتھ کہ آخر فتح ان کی ہوگی

2014 میں حماس نے 50 دن اسرائیلی جارحیت کا سامنا کیا اور موجودہ جنگ کیلئے انہوں طویل مدت تیاری اور منصوبہ بندی کی ہے ۔کسی بھی معرکہ آرائی میں عقیدہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اور حماس کا جنگ نظریہ یہ ہے کہ فتح ہمیشہ اللہ کی جانب سے ہے ۔اور تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا جب چھوٹے لشکر نے اپنے سے بڑے لشکر کو شکست سے دوچار کیا ۔اور اللہ نے انہیں 2009 اور 2014 کے معرکوں میں بھی انہیں کامیابی عطا کی اور وہ غزہ کو اسرائیل کے پنجے سے بچانے میں کامیاب ہوئے اور یہی ا ن کی فتح تھی ۔

یہ بھی پڑھیں

جہاں تک اسرائیلی فوجی نظریہ کا سوال ہے تووہ ڈکیتی ،چوری ،ناانصافی پر مبنی ہے جو بھاری ہتھیاروں اور مغربی طاقتوں کے زور پر کھڑا ہے ۔ اسرائیلی فوجی زندگی کیلئے  جبکہ حماس کا جنگجو شہادت کیلئے لڑتا ہے ۔

7 اکتوبر کے واقعات کے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حماس نے بہت کچھ سیکھاہے اور انہوں نے اپنی حکمت عملی میں جدت لائی ہے ۔حماس کو یہ سمجھ آ چکی تھی کہ گذشتہ پانچ سالوں سے اسرائیل شدید اندرونی خلفشار کاشکار ہے ۔جسے جنگ کی صورت میں مزید تقویت ملے گی ۔

خصوصاجب سے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے خلاف مظاہروں اور ان کی برطرفی اور احتساب کا مطالبہ تیز ہوا ہے جو جنگ ختم ہونے کے بعد مزید تیز ہوگا اور صورتحال مزید ابتر ہو گی ۔یہی وجہ ہے کہ نتن یاہو کسی صورت جنگ کو روکنے کے حق میں نہیں ۔کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ جنگ کا خاتمہ اس کا اختتام ثابت ہوگا ۔

حماس اپنی سرزمین پر رہتے ہوئے اپنے مذہب ،قومی وقار اور مسلم تاریخ کا دفاع کررہی ہے ۔جبکہ صیہونی طاقت مقبوضہ زمینوں پر لڑ رہی ہے جو کسی بھی لڑنے والی فوج کی ساکھ اور اخلاقی قدر کا تعین کرتی ہے ۔جو تمام تر تباہ کن اور جدید ہتھیاروں کے باوجود شکست سے دوچار ہوتا ہے جبکہ دفاع کرنیوالا ہمیشہ شہادت کی موت یا وقار کی زندگی کے جذبے سے سرشار رہتا ہے ۔

غزہ کے لوگوں کیلئے مزاحمت ہی نجات کا ذریعہ ہے اور وہ اللہ پر بھروسہ کررہے ہیں جس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں صبر اور استقامت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کیا ۔جس کا مظاہرہ ہر روز زمینی سطح پر ہونے والی جنگ میں نظر آرہا ہے ۔

جبکہ اس کے برعکس صہیونی عناصر کو اسرائیل کی تاریخ کے بدترین حالات کا سامنا ہے اور وہ گذشتہ سات دہائیوں سے اسی صورتحال سے گزر رہے ہیں ۔

پھر یہ کہ غزہ کے لوگوں کو اس حقیقت کا احساس ہوچکا ہے کہ یہ سب کچھ انہیں ایک بار پھر اپنے وطن اور مٹی سے نکالنے کا حیلہ ہے اس لئے انہوں نے دربدرہو کر اور عسرت کی زندگی گزارنے کے بجائے  اپنے گھر کی چھت کے نیچے شہادت قبول کرنےکا فیصلہ کیا ، عوام کے اس جذبے نے بھی مزاحمت کو مزید تقویت عطا کی ۔اور اپنے اس مقصد میں ناکامی پر اسرائیل کا اشتعال میں آنا قابل فہم ہے ۔

اس جنگ نے مسئلہ فلسطین اور غزہ کے عوام  کیلئے پوری دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرلیں جبکہ اسرائیل غیرصہیونی یہودیوں کی حمایت سے بھی محروم ہوگیا ۔جس کا نظارہ پابندیوں کے باوجود یورپ و امریکا سمیت دنیا بھر میں ہونے والےاحتجاج اور مظاہروں میں کیا جاسکتا ہے  دنیا کے اس ردعمل نے بھی مزاحمت کو نئی طاقت عطا کی ہے ۔جنہیں یہ احساس ہوا کہ فلسطین جارح نہیں بلکہ اپنی زمین اور وطن کی حفاظت کیلئے لڑ رہے ہیں ۔

9: اللہ کی طرف سےایک اور رحمت یہ نازل ہوئی جب صہیونی قوتوں کے ہاتھوں یرغمال مغربی میڈیا پہلی بار بے اثر اور بے معنی ہو کر رہ گیا جب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے میڈیا انفلوئنسز نے فلسطینی کاز کو اجاگرکیا صیہونیت کا نقاب الٹ دیا  اور دنیا کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا جس سے دنیا میں فلسطین کیلئے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوا ۔یہی وجہ ہے کہ تصویر کا ایک رخ پیش کرنے اور اسرائیل کیلئے جھکاو رکھنے والا مغربی میڈیا بے معنی اور ناقابل اعتبار ہو کررہ گیا ۔

باوجودیکہ صیہونی قوتوں نے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کردیئے جبکہ مزاحمت کو یہ سہولت بلاقیمت حاصل ہوگئی ۔اب  دنیا کے جس کونے میں بھی جس ہاتھ میں موبائل فون ہے فلسطین اور غزہ کامسئلہ اس فرد کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔اور

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر دنیا بھرکے مظلوموں کو غاصب کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ عطا کررہی ہیں ۔

10 : حماس نے ہتھیار سازی میں مہارت حاصل کی اور دنیا کے سامنے اسے ثابت بھی کردیا ۔نتن یاہو کو گھٹنوں پر لانے کے وعدے کو پورے کرنے کیلئے وہ جہاں عسکری محاذ پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں وہیں سیاسی اور اور ابلاغی جنگ میں اسرائیل کو زچ کئے ہوئے ہیں ۔ جو کہ اسرائیل کیلئے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے جس کے جواب میں اس کے پاس رات دن اندھا دھند بمباری کے سوا کوئی آپشن نہیں رہ گیا

بے پناہ امریکی حمایت اور اسلحے کے موجودگی کے باوجود ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد شدید مزاحمت کے نتیجے میں لاکھوں اسرائیلی فوجی کئی روز سے غزہ میں دخل اندازی میں بری طرح ناکام ہورہے ہیں ۔

ان حالات میں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ صیہونی ریاست کو غزہ پر مکمل قابو پانے کیلئے کتنا عرصہ اور کتنی جانوں اور املاک کا نقصان اٹھانا پڑیگا ۔

حماس کو اندازہ ہے کہ ان کی فتح چند گھنٹوں کی دوری پر ہے اور وہ زمینی معرکہ میں اہم کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں ،چوں کہ جنگ حوصلوں کا کھیل ہے جبکہ اسرائیل اس معاملے میں شدید دبائو کا شکار ہے ۔نتن یاہو کو اپنے وزیروں سے نمٹنے کے ساتھ عوام کے دبائو کا سامنا ہے جو اس سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں ۔

وزیر خزانہ غیر معمولی مالیاتی دبائو اور نقصانات کی باتیں کررہا ہے جبکہ اسرائیل کے بے سمت فوجی مغربی کنارے میں خوار اور غزہ میں ہلاک ہورہے ہیں ۔ شہری ایک ماہ سے بے ٹھکانہ ہیں اور پناہ گاہوں میں چھپے بیٹھے ہیں ۔معمولات اور کاروبار زندگی منجمد ہو کر رہ چکی ہے ۔

پوری دنیا اسرائیل کے خلاف احتجاج کناں ہے ،جن کی نفرت نہ صرف اسرائیل بلکہ یہودی کیخلاف بھی بڑھتی جارہی ہے، جبکہ اس کے برعکس ہر گزرتے دن کے ساتھ حماس اور فلسطینی کاز کی حمایت بڑھ رہی ہے اور عرب شاہان عریاں ہورہے ہیں ۔

غرض بہت کچھ بدل چکا ہے اور بہت کچھ بدل رہا ہے ۔ حماس نے فلوجہ اور موصل کی شہری جنگ (اربن وار فیئر) کا گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد اپنی حکمت عملی تشکیل دی ہے جنہیں فتح کرنے کیلئے امریکہ جیسی طاقت اور اس کے اتحادی کو کئی سال لگ گئے تھے ۔اس وقت اسرائیلی فوجی غزہ میں بھوتوں سے لڑ رہے ہیں جہاں کسی بھی کونے کھدرے سے اچانک کوئی جنگجو سامنے آسکتا ہے ۔

غزہ میں زیرزمین پانچ سو کلومیٹر پر پھیلا سرنگوں کا جال ان کیلئے تیار کیا گیا ہے جس میں پھنسنے کے بعد ان کے ساتھ کیا ہو گا اس کا اندازہ انہیں نہیں ہے ۔ان حالات میں اسرائیل اگر جنگ کو طول دینے کی کوشش کرتا ہے تو حماس اس کیلئے تیار ہے ،اس میں کوئی شک نہیں جنگ بہت تکلیف دہ ،غیر منصفانہ اور بھاری نقصانات کی حامل ہے ۔لیکن جب ایمان ایسی قوت ہے جو تمام دکھوں پر حاوی آجاتا ہے ۔جو دل کو طمانیت بخشتا ہے اور جس کی عملی تعبیر اس وقت غزہ کے باسی ہیں ۔جہاں کتاب مقدس کی تلاوت اور آیات کریمہ کا ورد ان کے تکلیفوں کا سہارا ہے ۔

بلاشبہ آخر فتح افق پر ہے ،اور اللہ کی ذات پر اعتماد اور مضبوط تعلق انہیں شکست کے دکھ سے دور رکھتا ہے  

.