مکرر عرض ہے کہ خواتین کا کوئی ایک نہیں ہر دن ہوتا ہے۔ ہم سب کو ہر روز اس سے پالا پڑتا ہے ۔وہ ہمارے گھروں میں ماں ، بہن ، بیٹی کی شکل میں موجود ہوتی ہے ۔
ان میں سے کسی خاتون کا یہ مطالبہ نہیں کہ اس کے لیئے کوئی ایک دن مخصوص کر لیا جائے ۔ اگر اس دن کے مختص کرنے میں کوئی اچھی بات ہے تو پھر ویسا ہی ایک دن مردوں کے لیئے کیوں نہیں؟
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں عورت کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو اسے درکار ہیں ۔ بعض مقامات سے خواتین پر تشدد کی خبریں ضرور ملتی ہیں جن کی شرح آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہے ۔ نہ تو انہیں جسٹی فائی کیا جا سکتا ہے نہ نظر انداز ۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا تھرڈ کلاس قسم کے عورت مارچ سے گھریلو تشدد کی روک تھام ہو جائے گی؟ گھر سے باہر اگر عورت غیر محفوظ بھی ہے تو اپنے گھر کے اندر ہر عورت مکمل طور پر محفوظ و مامون ہے ۔

عورت اپنے ہر رشتے میں ہمارے لیئے قابل تکریم ہے ۔ ہماری زندگی کے سب سے خوبصورت لمحات عورت کی رفاقت میں گزرتے ہیں ۔ خواہ وہ عورت ماں ہو ۔ بہن ہو بیوی ہو یا بیٹی ہو پوری زندگی اس کے ہمراہ گزرتی ہے ۔ عورت مارچ کے موقع پر اخلاق باختہ قسم کے حربوں سے جس عورت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہی عورت خود اس اخلاق باختگی کے خلاف مزاحمت کے لیئے میدان میں ہے ۔
یہ ہماری مجاہد بہنیں اور بیٹیاں ہیں ۔ جو بصری دھوکے کا شکار گروہ کو ان کی اوقات میں پہنچائیں گی ۔ انشاء اللہ
عورت مارچ کے نام پر جاری بے ہودگی کے خلاف سب سے موثر مزاحمت خواتین ہی کر سکتی ہیں اور الحمد للہ کر بھی رہی ہیں ۔ کوئی سنجیدہ خاتون نہ تو میرا جسم میری مرضی کہتی ہے نہ تو اسے اپنے شوہر کو موزہ ڈھونڈ کر دینے میں کچھ تکلیف ہے ۔ ہزاروں عورتیں ہر شام اپنے شوہر کے انتظار میں ہوتی ہیں کہ وہ آئے تو اسے کھانا گرم کر کے دیں ۔ کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اپنا کھانا خود گرم کرو۔ بیویاں موزے بھی ڈھونڈ کر دیتی ہیں ۔ کھانا بھی گرم کر کے دیتی ہیں
تو پھر مسئلہ کدھر ہے ؟ جو مخلوق اپنا موزہ خود ڈھونڈو کا پلے کارڈ اٹھا کر عورت مارچ میں نکلتی ہے وہ کس کی نمائندہ ہے؟

عورت مارچ کے نام پر بے ہودہ ڈرامے رچانے والی خواتین کا مناسب حل یہی ہے کہ ان کے مارچ پر عزت دار اور شرم و حیاء کے زیور سے آراستہ خواتین کا ہجوم چھوڑ دیا جائے ۔
عورتوں کے معاملات عورتیں ہی بہتر سمجھ سکتی ہیں۔


ولسلام ابوانس