بجلی بلوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ تشویش ناک ہے درجن کے لگ بھگ مختلف نوعیت کے ناجائز اور ظالمانہ ٹیکسوں کی بھرمار نے بجلی بلوں کو پر لگا دئے ہیں متوسط اور خط غربت کی لکیر سے نیچے کی طبقات کی چیخیں نکال دی گئیں سچی بات یہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ہی ہوشربا مہنگائی سر چڑھ کر بولنے لگی تھی روزانہ کی بنیاد پر عمران خان کی انصاف اور تبدیلی والی حکومت میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا ایف اے ٹی ایف کے لئے قانون سازی اور آئی ایم ایف کے ساتھ خطرناک شرائط پر معاہدے بھی بلا شبہ تحریک انصاف کی حکومت کی سیاہ کاریاں ہیں اور عمران خان کی ایک وڈیو موجود ہے جس میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی حکومت ڈیلیور کرنے، مہنگائی کنٹرول کرنے اور عام آدمی کے مسائل کم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے

لہذا بہتر ہوگا کہ حکومت چھوڑ کر عوام سے تازہ مینڈیٹ حاصل کریں پھر عوام کو کچھ امید نظر آئی کہ شاید جمعیت علماء اسلام، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور قوم پرستوں کی شریک حکومت میں غریب آدمی کے مسائل میں کچھ کمی ہو سکے گی کیونکہ جب عمران خان کی حکومت تھی تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام نے مہنگائی اور پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے ایشوز پر لانگ ماچز کئے اور ہر شہر میں احتجاجی مظاہرے کئے اس لئے عوام پرامید تھے کہ شاید پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت اب مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کریگی

لیکن سچی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے اوپر سارے کیس تو ختم کر دئے لیکن عوام کے مسائل میں پہلے سے زیادہ اضافہ کر دیا اور مولانا نے مرکز اور خیبر پختونخوا میں اہم وزارتوں اور گورنر خیبرپختونخوا کی آسامیاں قبضے میں لیکر بطور اپوزیشن جاندار کردار ادا کرنے پر بھی پانی پھیر دیا الغرض سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے عوام مایوس ہو چکے ہیں موجودہ مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافے نے غریب سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے

یہ بھی پڑھیں

ملک میں کئی کونوں سے ایسے گھرانوں کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں جو اپنے بچوں اور اہل خانہ کو دو وقت کی روٹی نہیں دے سکتے اور مجبوراً خودکشیاں کرتے ہیں،کوئی خودسوزی کرتا ہے آزاد کشمیر، کراچی، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں متوسط گھرانوں کے لوگ بجلی کے بھاری بھر کم بلوں کی ادائیگی سے قاصر ہیں اور جہاں بھی جاتے ہیں لوگ بجلی کے بلوں میں ناروا اضافے پر تشویش اور غصے کا اظہار کرتے ہیں اور حکمران طبقات کو گالیاں دیتے ہیں کئی جگہوں میں تو مساجد سے اعلانات بھی کئے گئے ہیں کہ کوئی صارف بجلی کا بل جمع نہ کریں اور کئی جگہوں پر لوگوں نے بلوں کو ایک ساتھ جمع کرکے ان کو نذر آتش کر دیا

یہ صورتحال واقعی تشویشناک ہے سوشل میڈیا پر ہر تیسری پوسٹ بجلی بلوں میں اضافے کے حوالے سے ملیگی سوشل میڈیا پر لوگ برملا اظہار کرتے ہیں کہ واپڈا کے سرکاری ملازمین سمیت تمام سرکاری آفسران اور اہلکاروں سے مفت بجلی، مفت گیس، مفت گاڑی، مفت گھر کی سہولیات واپس لے لی جائیں اور یہ بھی مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ سیاست دانوں اور آفسر شاہی کے پروٹوکول کلچر کو بلاتاخیر ختم کریں، کفایت شعاری اور سادگی کے کلچر کو پروان چڑھائیں تاکہ ملکی وسائل کی بچت ہو سکے، مہنگائی کنٹرول ہو سکے اور بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کی جائیں

عوام الناس کی یہ بات بلکل درست اور بجا ہے کہ اگر عام سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں میں ڈیوٹی پر آتے جاتے ہیں اور ضروریات زندگی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بڑے بڑے آفسران لاکھوں تنخواہوں میں یہ سب کچھ کیوں نہیں کر سکتے اور پھر بھی سب کچھ مفت لیکر خزانے اور عوام پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اس بوجھ کو اتارنے کا وقت آپہنچا ہے اگر دیر کر دی گئی اور عوامی آوازوں کو نظر انداز کر دیا گیا تو پھر عرب اسپرنگ نامی انقلاب کو بھی بھولنا نہیں چاہئے جہاں کسی پارٹی اور قیادت کے بغیر عام لوگ اٹھے تھے اور تاریخی انقلاب برپا کرتے ہوئے بڑے بڑے برج گرا دئے تھے

پاکستان میں بھی صورتحال اس طرف تیزی سے جا رہی ہے بجلی بلوں میں اضافے اور تمام تر ٹیکسوں کو فی الفور ختم کرکے صارفین کو پیسے واپس کر دیں، مہنگائی کنٹرول کریں، پروٹوکول کلچر اور غیر ضروری اخراجات ختم کر کے آفسر شاہی کو حقیقی معنوں میں عوام کی خادم بنائیں ورنہ دیر کرنے کی صورت میں انقلاب سروں پر منڈلا رہا ہے پھر نہ رہیگا بانس اور نہ بجے گی بانسری

واپڈا ایک کرپٹ ادارہ ہے جس کے تمام اہلکار اوپر سے نیچے تک مفت بجلی کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں اور پھر اپنی ہی مفت کی بجلی پڑوسیوں اور کرایہ داروں پر بیچتے ہیں اور جہاں بھی کنڈا کلچر عام ہے اس میں واپڈا کے ملازمین لائن مین اور میٹر ریڈرز براہ راست ملوث ہوتے ہیں اور جو صارفین جائز بجلی استعمال کرکے درست ادائیگی کرتے ہیں وہ بھی پھر ذلیل ہو کر بھاری بھر کم بل جمع کرتے ہیں

ناانصافی پر مبنی نظام کو تبدیل کرنا ہوگا اور اگر عوام بپھر گئے اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی تو پھر ہنگامے پھوٹ پڑینگے جن کو کنٹرول کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی نااہل، کرپٹ اور ظالم حکمرانوں اور بیوروکریسی نے غریبوں کی ناک میں دم کر دیا ہے اب تنگ آمد بجنگ آمد کی حالت بن رہی ہے اس خوفناک صورتحال کا فوری ادراک اور اصلاح احوال کرنے کی ضرورت جتنی آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی افسر شاہی کے دفاتر اور بنگلے جتنے بڑے اور پر آسائش ہیں اس کا ترقی یافتہ ممالک میں تصور کرنا بھی مشکل ہے

قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا اور ملکی وسائل کو غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کو یقینی بنانا ہوگا قوم کا بیرونی قرضوں سے کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی قرضوں کی رقم عوام اور ملک کی ترقی پر خرچ کی گئی ہے بلکہ حکمران طبقات نے اپنی عیاشیوں پر سارے وسائل لوٹا دئے ہیں ڈرو اس دن سے جب اس مملکت خداداد کے مفلوک الحال ،مجبور اور غریب لوگ آٹھ کر غاصبوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں گے پھر بچانے والا برسر زمین کوئی نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی کو ملک سے باہر نکلنے کا موقع ملیگا تمہاری داستاں بھی نہ رہیگی داستانوں میں۔