آزادی نیوز
ایک ایسے وقت میں جب غزہ پر اسرائیلی جارحیت جس میں سینکڑوں افرادجاں بحق و زخمی ہوچکے ہیں اور فلسطین و اسرائیل کے درمیان مناقشت کی دراڑیں انتہائی گہری ہوچکی ہیں
اسرائیلی پارلیمان میں پہلی عرب جماعت حکومتی اتحاد کا حصہ بن گئی ۔
عرب اتحاد نامی جماعت کے سربراہ منصور عباس اس آٹھ جماعتی اتحاد کا حصہ بننے پر رضامند ہو گئے ہیں جس کی سربراہی نفتالی بینیٹ کررہے ہیں ،جس کی وجہ سے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن ہاہو کے بارہ سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا ہے
اگرچہ 23 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کو کینسیٹ کی 120 میں سب سے زیادہ نشستیں ملیں لیکن حکومت سازی کیلئے 61 اراکین کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہوسکی
یہ بھی پڑھیں
- اسرائیلی انتخابات میں اسلام پسند جماعت کی کامیابی
- اسرائیل کے زیراثرمغربی دنیا کا بیانیہ اور مزاحمت کرنے والی فسلطینی تنظیمیں
- فلسطین اسرائیل تنازعہ اور کشمیری انتفادہ
- غزہ کا دنیا کے قدیم وخوشحال ترین شہرسے ایک محصور پٹی کا سفر
واضح رہے کہ حالیہ انتخابات کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اور ان کی اتحادی جماعتیں پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہیں جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے مل کر حکومت بنانے پر اتفاق کرلیا ہے ،تاہم اگلے ممکنہ اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ سابق وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے قریبی ساتھی اور سابق وزیردفاع رہے ،اور وہ مقبوضہ مغربی کنارے کی اسرائیل میں انضمام کے شدید حامی ہیں
البتہ اسرائیلی عربوں کی نمائندہ جماعتی اتحاد کے سربراہ منصورعباس جو کہ پیشے کے لحاظ سے دندان ساز ہیں کا موقف ہے کہ وہ حکومت میں رہتے ہوئے عربوں کے حقوق کا زیادہ بہتر انداز میں دفاع کرسکتے ہیں اور ان ہی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے

جہاں ایک جانب فلسطینی عربوں کا نمائندہ اتحاد حکومت میں شامل ہونے جارہا ہے وہیں بہت سے عرب فلسطینی اس فیصلے کے خلاف بھی رائے رکھتے ہیں ۔
سیاسی توازن بہتر بنانے میں مدد ملے گی ،منصور عباس
اپنے حامیوں کے نام ایک پیغام میں منصور عباس نے کہا کہ ہم نے ملک میں سیاسی توازن کو بدلنے کیلئے حکومتی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے ،اور ہمارے اس فیصلے سے اسرائیلی فلسطینیوں کے حالات بدلنے میں مدد ملے گی جو اسرائیلی آبادی کا 20 فیصد حصہ ہیں
لیکن بہت سے عرب ان کے اس فیصلے سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں ،فلسطینی تجزیہ نگار ڈیانا بٹو کے مطابق یہ تصور کرنا کہ حکومت میں شامل ہو کر منصورعباس اسرائیلی فلسطینیوں کے خلاف ہونے والی امتیازی قانون ساز کا توڑ نکالنے کیلئے آئین سازی کیلئے مطلوبہ حمایت بھی حاصل کر سکیں گے محض ایک مذاق ہے
انہوں نے اتحاد میں شامل ہو کر صرف حکومت سازی میں معاونت فراہم کی ہے ،لیکن بطور ایک فسلطینی ہمارا کردار ایک بادشاہ گر کا نہیں ،۔ہم اس نظام کے خلاف ہیں اور ہمارا فرض صرف اپنے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے
یاد رہے کہ منصور عباس نے حالیہ انتخابات سے قبل عرب اسرائیلی جماعتوں کے اتحاد سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ نتن یاہو سمیت دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر بھی پارلیمان کا حصہ بنیں اور فلسطینی عربوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرسکیں ۔
امتیازی قوانین کا خاتمہ معاہدے کی شرط؟
لیکن ان کے اس فیصلے سے اسرائیلی عربوں کی سیاسی قوت میں کمی آئی جنہیں گذشتہ انتخابات میں کینسٹ میں 15 نشستیں حاصل ہوئی تھیں ،لیکن اس وقت منصور عباس صرف چار اراکین کے ساتھ نئی تشکیل پانے والی حکومت کا حصہ بننے جارہے ہیں
اس حوالے سے عرب اتحاد کے جنرل سیکرٹری ابراہیم حجازی کا موقف ہے کہ اتحادی حکومت کا حصہ بننے کا مقصد اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور اس سے عربوں کے کئی مسائل کے حل اور ان کی بہتر نمائندگی میں مدد ملے گی
اس فیصلے سے عربوں کے ان حقوق کا تحفظ بھی ممکن ہوسکے گا جو اس سے قبل کی بنیاد پرست حکومتوں کی جانب سے غصب کئے جارہے تھے ،جبکہ اتحاد میں شامل ہونے کیلئے ہمارے مذاکرات انہی بنیادوں پر تھے جس کے تحت حکومت ان امتیازی قوانین کا خاتمہ کریگی جو ہمارے خلاف روا رکھے گئے ،اور مسئلہ فلسطین کیلئے کسی بہتر حل کی تلاش میں مدد ملے گی