راحت ملک
میاں شہباز شریف کی کوششوں کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کے درمیان اتحاد ِعمل کے امکانات 8،نومبر کو روشن ہوئے تو قومی اسمبلی میں ایک پرائیویٹ بل پر رائے شماری میں حکومت کو 104جبکہ اپوزیشن کو107ووٹ ملے اس سے قومی اسمبلی میں حکومت کی اکثریت مجہول ثابت کرنے میں بڑی مدد ملی ہے۔گو کہ مذکورہ بل پرائیویٹ دن پیش ہوا ہے اور ملائیکہ بخاری نے ٹی وی ٹاک میں اس اپنی مسکراہٹ کے ساتھ نظر انداز فرمایا ہے لیکن اس بل کے پارلیمانی سیاست پر نیز اخلاقی اعتبار سے گہرے اثرات ہونگے جانیے کہ بل کی منظوری اقتدار محل کی دیوار سے ایک اینٹ گرنے کے مترادف ہے۔
اسی روز قائد حزب اختلاف نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ دیاجس میں پیپلزپارٹی کے قائد جناب بلاول بھٹو اپنے رفقاءجناب یوسف رضا گیلانی،محترمہ شیری رحمان و دیگر کے ہمراہ شریک ہوئے لیکن اسی عرصہ میں پیپلزپارٹی کے انتہائی سنجیدہ فکر و معتبر پارلیمانی سیاسی رہنماءجناب قمر زمان کائرہ صاحب نے ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کیا اور نون لیگ اور اس کی قیادت کو نشانے پر رکھ کر ایسی شعلہ باز تنقید کی جو ان کے معروف مدلل انداز اظہار بیان کے برعکس تھی
بلکہ اسے پی ڈی ایم کے آخری سربراہی اجلاس میں جو اسلام آباد میں ہوا تھا پی پی کے قائد محترم آصف علی زرداری کے خطاب کی دوسری قسط قرار دینا نامناسب نہیں ہوگا۔ایسے وقت میں جب ملک تیزی سے معاشی،سیاسی انحطاط سفارتی ناکامیوں اور عالمی برادری کے سخت دباﺅ میں ہے، ہر طرف سے بڑھتے ہوئے مایوسی کے سائے گہرے ہورہے ہیں سیاسی تدبر کا تقاضا ہے کہ متحد ہو کر مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے ملک کو مخدوش ترین صورتحال سے نکالنے کے لئے اقدامات کیے جائیں
ان نازک لمحوں میں پیپلزپارٹی کی جانب سے دوہرا رویہ ناقابل یقین ہے لیکن ماورائے فہم نہیں۔قیاس غالب ہے کہ پارٹی کے طاقتور سربراہ حکومت اور اس کے سرپرستوں کے خلاف عوام کے وسیع تر جمہوری اتحاد میں حصہ دار رہتے ہوئے بھی سائیڈ لائن پر اپنا الگ مختلف بیانیہ پیش کررہے ہیں جو پی ڈی ایم اتحاد میں مضبوطی اور توسیع کا امکان کم کرتا ہے ۔
کیا پیپلزپارٹی حکومت طاقتوروں کو پیغام دے رہی ہے کہ وہ درپیش حالات میں اقتدار اور اختیار کے منقسم دونوں دھاروں کےلئے معاون بننے پر تیار ہے؟۔ نیز اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے ماضی قریب کے بر عکس اس بار سنجیدہ فکر محترم کائرہ صاحب کو میدان میں اتارا گیا ہے؟ جن کا ڈومیسائل پنجاب سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں
- تحریک لبیک اور حکومتی معاہدہ ،اپنوں کا خون بہانے سے گریز
- چیئرمین نیب کی مدت میںتوسیع ،تمدنی انحطاط اور ترمیمی آرڈیننس
- افغان بحران کے حل کی کلیدکیا ہے؟
- افغانستان،طالبان اور داعش کی تکون اورخطے کیلئے طویل مدتی خطرات
بدلی صورت حال جس کا اولین سطور میں تذکرہ موجود ہے کا اعجاز زیادہ وقیع ہے کہ دس نومبر کو جناب بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیش ارکان اسمبلی کو عشائیہ دیا جو متذکرہ صدر بل کی منظوری میں موجود پارلیمانی قوت کے مکرر اور اظہار تشکر کا آئینہ دار تھا اس موقع پر جناب بلاول کی گفتگو بہت مدبرانہ اور امید افزاء تھی۔ اس عشائیہ کو پارلمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے اچانک التوا کے فیصلے نے دو چند اھمیت دے دی ہے،
پی ڈی ایم صفوں میں لانگ مارچ کے ساتھ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے سوال پر اختلاف اختلاف ابھرا تھا پیپلزپارٹی باضابطہ طور پر سندھ اسمبلی کی تحلیل سے انکار کرچکی تھی یہ تجویز اس سال ہوے سینیٹ کے انتخابات کے دوران ایک حکمت عملی کے جواب میں سامنے آئی تھی۔
پیپلزپارٹی کے محولہ بالا استدلال کے بعد اپوزیشن اتحاد نے اپنی رائے بدلی گو کہ پی ڈی ایم کی اکثریتی قیادت تب بھی سینیٹ کے الیکٹرول کالج کو تحلیل ومفلوج کر کے حکومت کے لئے ایسی سیاسی پارلیمانی مشکلات پیدا کرنا چاہتی تھی جن کے نتیجے میں ملک میں فی الفور عام انتخابات کا ڈول ڈالنا ممکن ہوجاتا۔
مگر پی پی کا اصرار تھا کہ حکومت خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرادے گی۔ یوں استعفوں کا سوال غیر موثر ہو گیا بلاشبہ قانونی طور پر یہ دلیل جائز بھی مگر سیاسی حوالے سے ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔1985ء کے برعکس ملک اکیسوسی صدی میں تھا اور براہ راست فوجی حکومت بھی بر سر اقتدار نہیں تھی اگرمارچ میں سینیٹ کے انتخابات سے قبل عام انتخابات ممکن ہوجاتے تو اس بات کا بہت زیادہ امکان تھا کہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی قوت کم ہوجاتی۔
قبل از وقت انتخاب کا انعقاد
شفاف غیر جانبدارانہ ،آزادانہ طور ہوتا جو ماضی قریب کے برعکس ہوتا۔ دھاندلی کی کمیت میں کمی اس کی کیفیت میں بھی تبدیلی لاتی۔ تاہم ضروری تھا کہ مجوزہ انتخابات سے قبل مداخلت کار حلقے کو عوامی دباﺅ کے ذریعے انتخابی عمل سے دور رکھنے کا بھی اہتمام ممکن اور روشن امکان تھا کیونکہ اسمبلیوں سے استعفے اوردھرنے کی دو نکاتی حکمت عملی جمہوری سیاسی دباﺅ کی قوت میں بے تحاشہ اضافہ کردیتی تو ہائی برڈ سیاسی بندوبست کی چولیں ہل چکی ہوتیں جو انتخابات کو اگر مکمل شفاف نہ بناتی تو کم از کم جولائی2018ءکے مقابلے میں دھاندلی ومداخلت کی مقدار کم کردیتی
ایسا ہو جاتا تو پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی سینیٹ میں عددی پوزیشن موجودہ پوزیشن سے کم ہوجاتی ۔بلاشبہ اب بھی سینیٹ میں حزب اختلاف کو اکثریت حاصل ہے لیکن پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں یہ اکثریت زائل ہوجاتی ہے چنانچہ حکومت نے قانون سازی کے لئے سینیٹ کو بائی پاس کرنے کا لائحہ عمل اختیار کرلیا ہے گو کہ سینیٹ سے کسی قانونی بل کے استرداد کے بھی مشترکہ اجلاس میں مذکورہ بل پیش کیا جانا ایک آئینی رستہ ہے لیکن اس میں محنت اور وقت بھی لگتا ہے جبکہ سینیٹ کی رائے اور قائمہ کمیٹیوں کے ذریعے قانونی مسودات پارلیمنٹ میں لاتے ہوئے ان میں بہت سی تبدیلیوں کا امکان موجود رہتا ہے جو حکومت کے لیے پسندیدہ نہیں،اس لئے اب وہ مختصر راستہ اپناتی ہے ۔
پہلے صدارتی آرڈیننس نافذ کرتی ہے پھر درجنوں بلوں کی پارلیمنٹ سے توثیق کے لئے براہ راست مشترکہ اجلاس طلب کرلیتی ہے اس کے لئے قومی اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت سے استفادہ کرتی ہے اور بل مشترکہ اجلاس میں لانے کی قرار داد یا تجویز قبول کرلی جاتی ہے۔حکومت اس صورتحال میں آئین اور جمہور دشمن قانون سازی میں بہت سہولت محسوس کرتی ہے، یوں وہ ای وی ایم ،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور نیب قوانین میں من پسند ترامیم کرانے کی پوزیشن میں آگئی ہے ۔
11 نومبر کا مشترکہ اجلاس اور حکومتی اتحاد میں دراڑ
دلچسپ صورتحال 11 نومبر کو ہونے والے مشترکہ پارلیمانی اجلاس کے التواء نے پیدا کر دی ہے، عجلت میں التواء سے حکومتی اتحاد میں دراڑ نظر آئی ھے جناب وزیراعظم اپنے اراکین اسمبلی کو اپنی خود ساختہ سلبی دانشمندی کے ذریعے مشترکہ اجلاس میں شرکت اور ترامیم یقینی بنانے کی تلقین فرما رہے تھے مگر ایک گھنٹے بعدجہادی اجلاس ملتوی کردیا گیا دلیل دی گئی ہے کہ ظہرانے سے پہلے یا دوران عقب میں اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے یا اتفاق رائے کے لیے بات چیت چل رہی تھی اختلافات کے باعث اجلاس ملتوی کرنا پڑا ۔۔
سوال یہ ہے کہ مجوزی بلوں کے مسودے تو پہلے سے تیار تھے کچھ صدراتی فرمان کے سہارے نافذ العمل بھی تھے اس لیے اتحادیوں میں اختلافی رویہ اچانک کیونکر رونما ہوا؟ کیا وزیر اعظم اس اختلاف سے بے خبر تھے؟ اور ہواؤں میں تصورات کے گھوڑے پر سوار جہاد کے لیے کمر بستہ تھے؟ ہاں اکتوبر میں رونما ہونے واقعات دھیان میں رہیں تو ایم کیو ایم اور قاف لیگ کی جانب سے اچانک اصول اختلاف رائے کی اصل سمجھ میں آسکتی ہے مگر پھر بھی اس اختلاف رائے کے اظہار کا خیرمقدم لازم ہے کہ اس نے بہت سی پیچیدگیوں کو جنم لینے سے بچا لیا ہے
وکلا کے لیڈر جناب احسن بھون نے نیب آرڈیننس سمیت متعدد قوانین کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے امید کی جاسکتی ہے کہ عدلیہ عجلت آمیز نیز آئین منافی قوانین پر نظر ثانی کا حکم دے گی جیسا کہ وہ ماضی قریب میں کرچکی ہے۔جو کچھ چند روز قبل ہوا ہے وہ حادثاتی معاملہ ہے جبکہ پیپلزپارٹی کی سینیٹ انتخابات بارے حکمت عملی بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے لیکن وہ مسلسل اپنی سیاسی دانائی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے جو مناسب نہیں۔
پی پی قیادت کی دو رخی چہ معنی دارد؟
مسلم لیگ نون میں اگر اختلاف رائے ہے بھی تو پیپلزپارٹی اسے ہدف بنا کر کسے خوش کررہی ہے؟۔کیا نون لیگ کو کمزور کر کے پیپلزپارٹی تنہا ملک میں آئین پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی ممکن بنانےکی استعداد رکھتی ہے؟۔کیا وہ ووٹ کے تقدس کی حالیہ لہر کو منطقی انجام تک پہنچا کر اسے موثر اور مفید انداز میں ممکن بنانے کی عوامی سیاسی حمایت رکھتی ہے؟ جبکہ پنجاب میں اس کی پوزیشن ماضی بعید کے برعکس انتہائی سکڑی ہوئی ہے؟۔پارٹی کوجمہور یت بارے ان سوالات پر غور کرنا چاھیے
دریں حالات عدم اعتماد کی تحریک غیر مفید ہوچکی ہے اسکے برعکس عوامی دباﺅ کے ذریعے حکومت اور اس کے سرپرستوں کو پیچھے دھکیلنے کا لائحہ عمل اپنانا چاھیے تا کہ حکومت خود مستعفی ہو اور سیاسی شہادت حاصل نہ کر پائے۔لیکن اسمبلیوں کی تحلیل سے قبل نئے انتخابات کو مداخلت سے پاک بنانے کے لئے مطلوبہ قانون سازی کے ساتھ چند ٹھوس ضمانتون کا بندوبست بھی کرنا چاھیے۔
جناب کائرہ اور محترم بلاول بھٹو آج دو مختلف نقاط کے حامل نظر آئے ہیں کائرہ صاحب کو اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت کی صورت حال سے لازماً بچنا چاھیے اور پارٹی میں یکساں نقطہ خیال بحال کرنا چاھیے