اکرام مروت
کوہاٹ
کوہاٹ میں رشتے سے انکار پر قتل ہونے والی لڑکی عاصمہ رانی کے والد نے اپنی بیٹی کے قاتل مجاہد آفریدی کو معاف کردیا۔ عاصمہ رانی کے والد غلام دستگیر کا کہنا ہے کہ مجاہدآفریدی کے خاندان والے گھر آئے تھے اور بچوں کا واسطہ دے کر معافی طلب کررہے تھے انہوں نے میری بیٹی کے ساتھ ظلم کیا تھا لیکن میں نے اللہ کی رضا کے لیے مجرم کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
غلام دستگیر کا کہنا ہے کہ مجھے اس کیس میں دھمکیاں بھی مل رہی تھیں اور مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ حکومت ہماری ہے آپ صلح کے لیے راضی ہوجائیں مگر میری یہ ضد تھی کہ عاصمہ کے قاتل کو پھانسی کی سزا ضرور دلواؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ انہوں نے مقامی عمائدین اور علماء سے مشاورت کے بعد اللہ کے رضا کی خاطر کیا اور وہ ان تمام لوگوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اس کیس میں ان کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
- 9 سالہ بچی سے زیادتی کے مرتکب امام مسجد کو سزائے موت
- صحت کارڈ کے تحت دوران آپریشن بچے کی موت پر ہسپتال سیل، مقدمہ درج
- اسلام آباد میںجوڑے پر تشدد میںملوث ملزمان گرفتار،کیا یہ معاملہ بھی جلد بھلا دیا جائے گا؟
- ہریپور میں نابالغ مسیحی لڑکی کے اغواء اور قبول اسلام اور شادی کی کہانی کیا ہے ؟
عاصمہ رانی کے والد کے بعد مجاہد آفریدی کے خاندان اور کوہاٹ پولیس نے بھی صلح نامے کی تصدیق کردی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ عاصمہ رانی کے والد غلام دستگیر نے گزشتہ اتوار کو ایک جرگے میں سزائے موت پانے والے مجرم مجاہد آفریدی کو معاف کیا جبکہ صلح کے معاہدے کا باقاعدہ اعلان آئندہ اتوار کوہاٹ کے تبلیغی مرکز میں ہو گا۔
دوسری جانب لکی مروت سے تعلق رکھنے والے سیاسی سماجی رہنماؤں کی جانب سے عاصمہ رانی کے والد پر دباؤ میں آنے اور پیسہ وصول کرنے کے الزامات بھی لگائے جارہے ہیں تاہم غلام دستگیر نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
عاصمہ رانی کون تھیں؟
کوہاٹ میں رہائش پذیر لکی مروت سے تعلق رکھنے والی عاصمہ رانی کو جنوری 2018 میں شادی سے انکار پر مجاہد آفریدی نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد کی اسٹوڈنٹ عاصمہ رانی نے فائرنگ کے بعد زخمی حالت میں مجاہد آفریدی کو کیس میں نامزد کیا تھا۔
مجاہدآفریدی واردات کے بعد متحدہ عرب امارات فرار ہو گیا تھا جسے بعد میں حکومت کی درخواست پر انٹرپول کے ذریعے گرفتارکر کے مارچ 2018 میں پاکستان واپس لایا گیا۔
عاصمہ رانی قتل کیس کو ابتدائی سماعتوں کے بعد سیکیورٹی خدشات کے باعث کوہاٹ سے پشاور متقل کردیا گیا تھا اور رواں برس جون میں پشاور کی مقامی عدالت نے مجاہد آفریدی کو سزائے موت سنائی تھی اور کیس میں نامزد دو دیگر ملزمان شاہ زیب اور صدیق اللہ کو بری کردیا تھا۔