صفدرحسین
8 مارچ کو دنیا بھر میں‌خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ،تاہم پاکستانی معاشرہ اس حوالے سے دوحصوں‌میں‌بٹا ہوا نظر آتا ہے ،ایک نظریہ کے مطابق پاکستان چونکہ ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اسلام نے صدیوں‌قبل ہی مردوخواتین کے حقوق کا تعین کردیا تھا ،لہذا ان حدود سے باہر دونوں‌فریقین کےلئے ماسوائے معاشرتی انتشار کےکچھ بھی نہیں‌،
جبکہ نظریہ جدیدیت کے حامی کیمپ کے خیال میں عورت کو مشرقی اور بالخصوص پاکستانی معاشرے میں‌اپنے مقام اور حقوق کے حصول کےلئے ابھی مزید جدوجہد کی ضرورت ہے ،یوں ہر سال آٹھ مارچ کو دوطرفہ شور میں‌معاشرے کے ایسے کردار گم ہوجاتے ہیں جو صنف ناز ک ہونے کے باوجود ہمت ،ایثار اور جدوجہد کی عملی مثالیں‌ہیں جنہیں ایک خاتون ہونے کے باوجودنعروں‌کے سحر میں کھوجانے کے بجائے عملی کردار کو ترجیح‌دی
شاعر انقلاب حبیب جالب کی بیٹی طاہرہ حبیب ،لاہور کی رہنے والی میمونہ ..اور کراچی کی رہائشی زرنگین کی جدوجہد سے بھر ی زندگی کی کہانیاں‌اس معاشرے میں‌خواتین کے کردار کی تین زندہ مثالیں‌ہیں‌،جنہوں‌نے حالات کے جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بغیر کسی گلوے شکوے کے ایک بہترین ماں‌،بیوی ،بیٹی کاقابل تقلید کردار ادا کیا
جب کسی سیاسی جلسے میں‌آپ کسی سیاسی رہنما کو انقلابی بننے کی کوشش کرتے دیکھیں‌تو اس کی زبان پر شاعرانقلاب حبیب جالب کی ہی کوئی نظم ہوگی .لیکن اگر اس وقت حبیب جالب کے مشن کو جاری رکھنے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں‌تو وہ کوئی اور نہیں‌بلکہ ان کی بیٹی
طاہرہ حبیب جالب ہیں

جنہوں‌نے اپنی زندگی حبیب جالب کے پیغام کو پھیلانے کےلئے وقف کررکھی ہے ،والد کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد زندگی کے نشیب وفراز کی تنہا مسافر طاہرہ حبیب جالب کو وراثت میں‌ بیمار و ضعیف والدہ ملی جسے انہوں‌نے برسوں‌دل سے لگائے رکھا ،ان کے علاج اورخدمت کیلئے رات دن ایک کئے رکھا
سات سال قبل جب والدہ بھی ساتھ چھوڑ گئیں‌تو انہوں نے اپنے آپ کو حبیب جالب کے نظریہ کی ترویج کیلئے وقف کردیا .آج جہاں‌بھی جالب کے حوالے سے کوئی پروگرام یا سیمینار ہوتا ہے طاہرہ صف اول میں‌کھڑی نظر آتی ہیں‌
طاہرہ کے بقول جالب صاحب کی موجودگی میں‌بھی ہمارے لیے زندگی کوئی اتنی آسان نہ تھی ،کیوں‌کہ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ جیل کی سلاخوں‌کے پیچھے ہی گزرتا تھا ،وہ جب کوئی نظم لکھتے انہیں‌گرفتار کرکے لے جاتے ،ہمارے گھر میں‌فاقوں کی نوبت آجاتی .تو آس پڑوس والے ہماری مدد کرتے
لیکن بچپن کی ان مشکلات نے مجھے کمزور کرنے کے بجائے جالب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حالات کے سامنے ڈٹ کرکھڑے ہونے کا سبق دیا


ایبٹ آباد ،سوشل میڈیا پر مرد بن کر خواتین کو ہراساں کرنیوالی خاتون گرفتار

ایبٹ آباد کے چھ تھانوں میں خواتین محررتعینات

شمالی وزیرستان میں غیرسرکاری تنظیم سے وابستہ‌چارخواتین قتل


یہی وجہ ہے کہ ان کےبعد میں‌نے کسی پرانحصار کے بجائے خود میدان عمل میں‌اترنے کا فیصلہ کرلیا
حالات جیسے بھی تھے لیکن جالب کا نظریہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں‌مانع تھا ،اس لئے ماسوا پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں‌والدہ کو ایک بار ہسپتال میں‌داخل کروانے کے سوا کبھی کسی حکومت یا سیاسی لیڈر سے کوئی مراعات نہیں‌لیں‌
اس کے برعکس میں‌نے خود مزدوری کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے پہلے میں نے ایک پی سی او پر کام کیا ،جہا ں‌کسی کو معلوم نہ تھا کہ میں‌کون ہوں‌،اور نہ ہی کبھی کسی کو بتانے کا حوصلہ ہوسکا
کام والی جگہ آنے جانے کےلئے مجھے روزانہ پانچ چھ کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا تھا ،کیوں‌کہ وہاں سے اتنی آمدنی ہی ہوپاتی تھی جس سے بمشکل گھر کے اخراجات اور والدہ کے علاج کے اخراجات پورے ہوپاتے ،پھر جب یہ کام بھی ختم ہونے لگا تو مجھے خواتین کو ڈرائیونگ سکھانے کے ایک ادارے میں‌جاب مل گئی .جہاں‌میں‌کافی عرصہ تک کام کرتی رہی .
طاہرہ حبیب جالب اس وقت بھی ایک پرائیویٹ سروس کیساتھ بطور ڈرائیور اور خواتین کودفتروں‌تک لانے اور لے جانے کاکام کرتی ہیں اور اس سے انہیں‌اتنی آمدنی ہوجاتی ہے جس سے ان کی زندگی کی ضروریات پوری ہوسکیں‌
طاہرہ حبیب کے بقول آج بھی ہر سیاستدان اور بالخصوص وہ لیڈرز جن کےلئے حبیب جالب نے جیل کاٹیں‌صعوبتیں‌برداشت کیں‌،اپنے ہر جلسے اور تقریر کاآغاز و اختتام جالب کے اشعار سے کرتے ہیں‌،لیکن کبھی کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں‌کی کہ ان کے اہلخانہ کس حال میں جی رہے ہیں .
اور سب سے بڑھ کر یہ حبیب جالب پبلیکیشنز کے نام پر آج تک جتنی بھی کتابیں‌اور ویڈیوز تیار ہورہی ہیں‌ان کی رائیلٹی بھی ہمیں‌نہیں‌مل رہی ،جبکہ کراچی میں‌سید پرویز اور مجاہد بریلوی آج بھی ان کی کتابیں‌شائع کررہے ہیں اور پیسہ کمارہے ہیں‌،اگر ہمیں‌ہمارا حق دلانے میں‌ہی کوئی حکومت تعاون کردیتی تو شاید ہمارے لئے زندگی قدرے آسان ہوجاتی .
لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود طاہرہ حبیب جالب آج بھی نظریہ جالب کی علمبردار بن کر ہر محاذ پر ڈٹ کر کھڑی ہیں ،وہ خواتین کے حقوق کےلئے اٹھنے والی آواز ہیں ،لیکن حالیہ چند سالوں سے وہ خواتین کے حقوق کے نام پر ہونے والے مارچ کو عورت کی تضحیک کا ذریعہ سمجھتی ہیں،کیوں کہ ان کے خیال خواتین کے حقوق کےلئے کسی مارچ یا بینراٹھا کر نہیں‌بلکہ عملی طور سوچ بدلنے کی ضرورت ہے


لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں‌چار سال سے بطور نرس فرائض‌سرانجام دینے والی میمونہ دس سال کی عمر میں‌ایک حادثہ کا شکار ہوئیں‌،جس نے ان کیلئے زندگی کا سفرمشکل تو ضرور کیا لیکن ان کے حوصلے کو نہ ہرا سکا .
دو نو یا دس برس کی تھیں‌جب کراچی کورنگی میں‌ان کی گلی میں‌ایک جھگڑا ہوا ،جہاں‌وہ اپنے بھائی کے ساتھ کھڑی تھیں‌
کہ اچانک لڑائی میں‌ایک لڑکے نے تیزاب پھینک دیا ،جس میں‌وہ خود بھی متاثر تو ہوا لیکن اس کے غصے نے مونا کی زندگی ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دی ،کیوں‌کہ اس سانحہ میں‌تیزاب گرنے سے ان کا چہرہ مکمل طور پر جھلس گیا .یہ ان کی زندگی کے مشکل دور کا آغازتھا ،لیکن دوسری جانب یہ ان کے لئے ایک فیصلہ کن موڑ بھی ثابت ہوا جہاں‌آنے والے برسوں‌میں‌انہوں‌نے کسی پر انحصار کے بجائے خود پر یقین کافیصلہ کرلیا
اس سانحہ کے بعد وہ مختلف ہسپتالوں‌میں زیر علاج رہیں‌،لیکن بالاآخر ان کا علاج لاہور کے اداروں‌ہاوس آف چیریٹی اور ڈییپلکس سمائیل اگین فائونڈیشن کی مدد سے امریکہ میں‌ممکن ہوسکا ،لیکن اس تمام تر جدوجہد کے باوجودنارمل زندگی کی طرف ان کی واپسی ممکن نہ ہوسکی ،
البتہ ان تمام تر مشکلات کے باوجود انہوں‌نے حوصلہ نہ ہارا اور ساتھ میں‌اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور پھر اسی دوران لاہور میں‌ان کی شادی طے پاگئی ،جہاں‌اس وقت وہ اپنے دو بچوں‌کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہیں‌
میمونہ کا کہنا ہے کہ وہ عملی طور پر شادی کا خیال دل سے نکال چکی تھیں‌،لیکن پھر لاہور میں ہی ان کا ایک رشتہ آگیا ،اور اتفاق کی بات کہ ان کے شوہر بھی بجلی کا کرنٹ لگنے سے شدید متاثر ہوچکے تھے ،لچند روز کی بات چیت کے بعد دونوں‌نے زندگی بھر کیلئے ایک دوسرے کا سہارا بننے کا فیصلہ کرلیا .
شادی کے بعد بڑھتے ہوئے مسائل کو دیکھتے ہوئے انہوں نے نرسنگ کورس کا سلسلہ جاری رکھا اور اب وہ گذشتہ چار سال سے شالیمار ہسپتال لاہور کے برن وارڈ میں‌بطور سٹاف نرس فرائض سرانجام دے رہی ہیں‌
مونا کے بقول جب زندگی میں‌آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہوجاتا ہے جس پر آپ کا کوئی اختیار نہیں‌تو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا رویہ بھی بدل جاتا ہے ،کیونکہ جب میں‌علاج کیلئے امریکہ گئی تھی تو وہاں‌کے لوگوں‌ہمارے ہاں‌زیادہ تر لوگوں‌کے رویوں‌میں‌بہت فرق دیکھا .اگرچہ ہمارے ارگرد بہت سے لوگ ایسے ضرور موجود ہوتے ہیں جو آپ کو جینے کا حوصلہ دیتے ہیں‌
لیکن مجموعی طور زندگی معمول سے ہٹ جاتی ہے ،میں‌زندگی میں‌کبھی مایوس نہیں‌ہوئی اور ایسی صورت میں‌جب کہ میرے بچوں‌کی پرورش اور اپنے شوہر کو بھی سہارا دینا فرض‌میں‌شامل ہوجائے تو پھر حالات مقابلہ انسان کو خود کرنا پڑتا ہے
میمونہ ہر روز صبح ساڑھے چھ بجے گھر سے ڈیوٹی کےلئے نکل جاتی ہیں‌جہاں‌سارا دن انہیں‌مریضوں‌کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے ،اگرچہ زیادہ تر لوگ ان کا بہت خیال رکھتے ہیں‌اور انہیں‌محسوس نہیں‌ہونے دیتے .لیکن کبھی کبھار کچھ لوگوں‌کا رویہ وقتی طور پر افسردہ کردیتا ہے
اگرچہ مونا اپنی پوری استقامت اور حوصلہ کے ساتھ زندگی کی جدوجہد میں‌مصروف ہیں‌،تاہم انہیں‌مستقبل کے خدشات ضرورستاتے ہیں‌،ان کے بقول وہ اپنے بچوں‌کے مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہیں‌،
ایسے میں‌ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری ادار ے ایسی خواتین کو خصوصی ترجیح‌دیں جو مسائل کا شکار ہونے کے باوجود عزم و استقامت کے ساتھ اپنا فرض نبھا رہی ہیں اور ان کے لئے سرکاری نوکریوں کااہتمام کرے تاکہ انہیں‌مستقبل بہت سے خدشوں اور پریشانیوں‌سے نجات مل پائے


 

زرنگیں‌گھٹالہ کراچی کے صحافتی حلقوں‌کا ایک شناسا چہرہ ہے انہوں نے صحافت کے میدان میں‌ اس وقت قدم رکھا جب اس شعبے میں‌خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابرتھی یا ان کا دائرہ کار دفاتر تک محدود ہوتا تھا ،جہاں‌ان کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی وہیں‌ان کے لئے دیگر کئی مسائل بھی تھے ،جن کا انہیں‌سامنا تھا ،لیکن پریشانیوں اور الجھنوں‌سے عنوان ان کی خانگی زندگی انہیں‌ہمت ہارنے کا حوصلہ نہیں‌دے پارہی تھیں‌.
جہاں‌ان کے والدین کی وفات کے بعدان کے عزیز واقارب نے انہیں‌ان کے مکان سے بے دخل کردیا تھا ،ازدواجی زندگی ناہموار ہوگئی ،اور شریک سفر نے دو بچیوں‌کی ذمہ داری ان کے سر ڈال کر خود دوردیس میں‌پناہ ڈھونڈ لی .اور پھر کبھی مڑ کر نہ بچیوں‌کا حال پوچھا اور نہ کبھی ان کا خیال آیا
زرنگین کے بقول حالات نے انہیں‌توڑ کر رکھ دیا تھا ،لیکن پھر انہوں نے اپنی بیٹیوں‌کےلئے زندگی جینے کا فیصلہ کیا .صحافت اور بالخصوص فیلڈصحافت بڑا کٹھن کام تھا لیکن میری بیٹیوں‌کو دیکھتی تو ہر روز ایک نئی جستجو اور امید کے ساتھ کام پر روانہ ہوجاتی .
ٹھیک ہے اچھے لوگ بھی موجود ہیں‌اس دنیا میں‌لیکن جب آپ معاشرے میں‌ایک تنہا عورت ہوں‌اور خاص طور پر دوبچیوں‌کی سنگل ماں‌تو زندگی آسان نہیں رہتی ،آس پاس کی نگاہوں‌اورباتوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے ،کبھی اپنے لئے اور کبھی اپنے بچوں‌کےلئے ،
اگرچہ وہ زندگی کی طویل جدوجہدکے اپنی بیٹیوں‌کے فرائض سے سبکدوش ہوچکی ہیں‌،لیکن وہ اس بات سے بھی مطمئن ہیں‌کہ بطور ماں‌ان سے جس حد تک بہتر کردار ادا ہوسکا وہ انہوں‌نے ضرور کیا .یہ شاید ان کی زندگی کا حاصل ہو کہ انہیں‌اپنی بیٹیوں‌کا فرض‌ادا کرنے کا موقع ملا جو زندگی میں‌ایک دوسرے کیلئے جینے کا سہارا بنی رہیں‌.