سید عتیق


غزنی دسواں ہرات گیارہواں ۔ قندھار بارہواں ، اور ہلمند تیرہواں صوبہ ہو گا جہاں سے افغان حکومت بے دخل ہو چکی ہے ۔ چھ اگست سے لیکر گیارہ اگست تک حکومتی عمل داری سے نو صوبے نکل چکے تھے جن میں نیم روز ، فراہ، جوزجان ، تخار ، قندوز ۔ بغلان ، بدخشاں ، سر پل ، اور سمنگان شامل ہیں ۔ غور ، بادغیس ، بلخ ، فاریاب ، اور زابل میں بھی طالبان کی پیش قدمی جاری ہے ۔

اب تک طالبان قبضے کی ویڈیوز اور انٹرنیشنل میڈیا کی رپورٹننگ دیکھنے کے بعد طالبان سے متعلق بہت کچھ واضح ہو چکا ہے ۔

سب سے پہلے تو طالبان کی یہ بات سرکاری فوج سے اچھی ہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کو واپس گھر بھیج دیتے ہیں ۔ وہ افغان فوجیوں کو اس طرح کینٹینروں میں بند کر کے موت کے گھاٹ نہیں اتارتے جس طرح خود ان کے ساتھ ماضی میں ہوتا رہا ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ طالبان افغان عوام میں مقبول ہیں ۔ کل طالبان کے شمالی علاقوں میں امیر فیض آباد پر قبضے کے بعد شہر میں ائے ۔ ایک چوک میں بہت سے لوگ اکٹھے ہوئے اور سب ان کی تقریر سننے لگے ۔ فراہ اور پل خمری وغیرہ میں بھی ایسے ہی چوکوں چوراہوں میں جہاں بھی طالبان کا کوئی ذمہ دار آتا ہے وہاں ہزاروں کا مجمع لگ جاتا ہے اور سب لوگ طالبان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں ۔

اگرچہ ویڈیوز پشتو میں ہیں مگر جس قدر ترجمہ ہوا وہاں سب لوگ طالبان کو اچھا کہہ رہے ہیں ۔ بہت سی جگہوں پر طالبان کو ویلکم کر رہے ہیں ۔ طالبان بھی دنیا کا نواں عجوبہ ہیں ۔ اس وقت تک ویڈیوز میں جتنے بھی طالبان سپاہی دیکھے کسی کے پاس ڈھنگ کے نہ تو کپڑے ہیں نہ جوتے ۔ پھٹے ہوئے چپل پہنے کندھے سے کلاشنکوف لٹکائے ، لمبے بال اور سر پر پگڑی یا ٹوپی پہنے انہیں دیکھ کر یہ یقین نہیں آ رہا کہ یہ امریکہ جیسی سپر پاور کو ذلیل کر کے افغانستان سے نکال سکتے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں


بلکہ آج تو باقاعدہ امریکہ نے طالبان سے کابل میں موجود اپنے سفارتی عملے کے تحفظ کی درخواست کی ہے ۔ طالبان ملٹری آپریشن کے سربراہ اور ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب نے طالبان کو جو ہدایات دی ہیں ان کے مطابق کوئی طالب کسی سرکاری عہدیدار یا فوجی کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا ۔

مجھے حیرانگی ان لوگوں پر ہوتی ہے جو انہیں گالیاں دیتے ہیں ۔ حالانکہ سوشل میڈیا یا انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے ہمیں اب تک طالبان سے جس قدر شکایات ملی ہیں وہ ان کے سخت گیر موقف کے حوالے سے تو درست ہیں مگر ان کے کردار سے متعلق کوئی ایسی شکایت سامنے نہیں آئی جس کی بنیاد پر ان سے نفرت کی جا سکے ۔

ایسا پروپگنڈہ ضرور موجود ہے کہ وہ سڑکیں اکھاڑتے ہیں ۔ یا لوگوں کے موبائل چیک کرتے ہیں۔ عورتوں کی تصاویر پر سرزنش کرتے ہیں ۔ موبایل بھی توڑ دیتے ہیں ۔ داڑھی کٹوانے نہیں دیتے ۔ عورتوں کو اکیلے باہر نہیں جانے دیتے ۔ وغیرہ وغیرہ ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں درست بھی ہوں۔ مگر سدومیت ، زنا ، شراب نوشی جیسی علتوں میں ان کے مبتلا ہونے کی کوئی خبر نظر سے نہیں گزری ۔

ایک اور اہم بات مشاہدے میں آئی ہے کہ افغانستان کی حکومت بھی پاکستانی حکومت سے زیادہ مذہبی ہے ۔ حکومتی اہلکار بھی نماز روزے کے پابند ہیں، مسلمان بھی ہیں ۔ اور اچھے بھی ۔ اگرچہ پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں مگر افغان فوج اتنی بھی بری نہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ وہ طالبان سے لڑنے کی بجائے سرنڈر کرتی جا رہی ہے ۔ مفتوح کا بااخلاق ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ فاتح کا عجز کوئی چیز بھی ہے ۔ ایک لمحے کو سوچیں کہ اگر یہ سرنڈر کرنے والے فوجی طالبوں کو پکڑ لیتے تو یہ ان کے ساتھ کیا کرتے ؟ ماضی میں جو کچھ کرتے رہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔

ٹوئٹر پر بے شمار ایسی ویڈیوز موجود ہیں ۔ ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ افغان فوجیوں نے دو طالبوں کو پکڑ رکھا ہے ۔ اور پشتو میں ان سے کچھ بات کرتے ہیں بیچ میں پاکستان کا لفظ استعمال کرتے ہیں شائد اس سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ پاکستانی ہے یا نہیں ۔

اٹھارہ بیس سالہ نوجوان کو دھکے دے کر پہلے سامنے لایا جاتا ہے پھر جو بھی نیا فوجی آتا ہے انہیں تھپڑ مار کر کوئی لات مار کر اور شائد پشتو میں گالی دیکر بات کرتا ہے ۔ اس طالب نوجوان کو پہلے دھکے دے کر لایا گیا پھر گھیسٹ کر واپس گاڑی میں ڈال کر لے گئے ۔

جب کہ طالبان کے قبضے میں آنے والے فوجیوں کی ویڈیوز میں فوجی بلکل مطمئن ہیں اور ہاتھ ہلا ہلا کر مسکراتے ہوئے طالبان سے رخصت ہو کر اپنے گھروں کو جاتے دیکھے جا سکتے ہیں ۔

کمانڈر اسماعیل خان کا غلغلہ اور فرار

سب سے زیادہ غلغلہ ہرات میں کمانڈر اسماعیل خان کی ملیشیا کا تھا گذشتہ شام اسماعیل ملیشیا کے دستوں نے بھی سرنڈر کر کے خود کو طالبان کے حوالے کر دیا ہے ۔ ہرات کی ویڈیو میں بھی فوجی ایک کمرے میں ہی جہاں ایک طرف بہت سا اسلحہ ہے

اور دوسری جانب کافی سارے فوجی  سب خوش گپیوں میں مصروف ہیں کسی فوجی کے چہرے پر خوف نہیں ۔ جب کہ فوجیوں کے ہتھے چڑھنے والے طالبوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہو گا اس کا صرف اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے ۔

سیدھی سی بات ہے طالبان کے خلاف پروپگنڈہ زیادہ ہے ابھی تک ایسی کوئی خبر میرے علم میں نہیں جو یہ ثابت کرتی ہو کہ طالب وحشی اور درندہ صفت ہیں ۔

اور جب تک ایسی کوئی خبر سامنے نہیں آتی تب تک ان کے بارے میں میں کوئی منفی بات نہیں کروں گا ۔
یہ پیغام پے ان احباب کے لیئے جو چاہتے ہیں کہ ہم طالبان کو گالیاں دیں اور ان کو برا کہیں ۔

ڈھیر سارا پیار ان افغان بھائیوں کے لیئے جو پاکستان کو اٹھتے بیٹھتے گالیاں دیتے ہیں ۔ آخری گھڑیاں بہت مشکل ہوتی ہیں ۔ ہم ان کا غم سمجھ سکتے ہیں ۔