دیگر پوسٹس

تازہ ترین

!!!مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے

سدھیر احمد آفریدی کوکی خیل، تاریخی اور بہادر آفریدی قبیلے...

حالات کی نزاکت کو سمجھو!!!

سدھیر احمد آفریدی پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کو غریبوں...

ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات!!

کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے

متبادل پر سوچیں!! سدھیر احمد آفریدی کی تحریر

یہ بلکل سچی بات ہے کہ کوئی بھی مشکل...

طالبان کی پیش قدمی نئے مرحلے میں‌داخل ،3 روز میں تین صوبائی دارلحکومتوں پر قبضہ

آزادی ڈیسک


افغانستان کی بین الاقوامی سرحدی راہداریوں اور اہم صوبائی مراکز کے گرد واقع دفاعی و تجارتی نوعیت کے مراکز پر قبضہ مستحکم کرنے کے بعد طالبان نے گزشتہ تین روز میں یکے بعد دیگر ے تین صوبائی دارلحکومتوں پرقبضہ کرلیا ہے ۔جن سے میں اتوار کے روز طالبان جنگجوئوں نے قندوز شہر میں داخل ہوکر اہم انتظامی عمارات ،گورنرہائوس پر قبضہ کیا ہے جبکہ طالبان کے سوشل میڈیا اکائونٹس پر جاری ہونے والی ویڈیوز میں شہر کی جیل سے آزاد کئے گئے قیدیوں کو خوشی کے نعرے بلند کرتے دیکھا جاسکتا ہے

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی مقامی لوگوں کے حوالے سے قندوز شہر میں طالبان کی موجودگی کی تصدیق کررہے ہیں ۔جبکہ عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں مقامی شوریٰ کے رکن امرالدین ولی کے حوالے سے بتایا کہ شہر کے زیادہ تر حصوں اور اہم عمارات پر طالبان کا قبضہ ہوچکا ہے افغانستان ملی اردو صرف ایئرپورٹ اور فوجی مستقر کے قریب موجود ہے جہاں اس وقت شدید جھڑپیں ہورہی ہیں

واضح رہے کہ قندوز کی فتح ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب طالبان نے گذشتہ دو روز کے دوران نمروز اور جوزجان کے صوبائی مراکز پر قبضہ کرلیا تھا ،جبکہ قندوز پر اس سے قبل 2015 اور 2016 میں طالبان عارضی قبضہ کرکے اسے خالی کرچکے ہیں


یہ بھی پڑھیں:


ہفتے کے روز طالبان نے شبرغان کے مرکزجوزجان جبکہ اس سے ایک روز قبل نمروز کے صوبائی مرکز زرنج شہر کا کنٹرول حاصل کرلیا تھا ،جبکہ اس حوالے سے مختلف اکائونٹس سے جاری ہونے والی ویڈیوز میں طالبان کو شہر میں داخل ہوتے اور سرکاری فوجیوں کو شہر سے لڑے بغیر نکلتے ہوئے دیکھا گیا

 

اگرچہ کابل انتظامیہ نے قندوز شہر پر طالبان کے قبضے کی تردید کرتے ہوئے فضائی حملے میں درجنوں مسلح افراد کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے ،افغان وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں ایک کمانڈو یہ الفاظ کہتا ہوئی دکھائی دیتا ہے ،گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران افغان فضائیہ نے متعدد حملے کئے ہیں جن میں اہم مقامات پر قبضہ کی کوشش میں مصروف طالبان کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے

افغانستان کی صورتحال پر نظررکھنے والے ایک ادارے ورلڈ کنفلیکٹس مانیٹرنگ سنٹر نے اپنے اکائونٹ پر قندوز شہر میں واقع ایک مارکیٹ سے بھڑکتے شعلوں کی ویڈیو شیئر کی ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ لشکرگاہ پر فضائی حملے کی طرح قندوز میں بھی فضائی حملوں کانشانہ عام شہری بن رہے ہیں ،جبکہ طالبان کے چند لوگ مارے گئے ہیں تاہم آزاد ذرائع سے ان دعوئوں کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے ۔


         پاکستان میں سابق افغان سفیر کی اپنی حکومت پر تنقید

 پاکستان میں افغانستان کے سابق وزیر اور سابق افغان وزیر خزانہ ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے اپنے ایک ٹویٹ میں کابل حکومت کی جانب سے فضائی بمباری کی حکمت عملی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہےانہوں نے کہا نظام کو برقرار رکھا جاتا ہے ،بمباری سے تباہ نہیں کیا جاتا ،اگربمباری مسئلہ کا حل ہوتی تو کابل میں کیمونسٹ حکومت آج بھی اقتدار میں ہوتی ۔سابق سفیر کا مزید کہنا تھا(افغانستان میں ) نظام کی موجودہ حالت تیزی سے بگڑ رہی ہے ،حوصلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہورہا ہے ،عام لوگوں کی حکومت سے دوری خود کو سپریم کمانڈر کہلانے والوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے ۔متوقع تباہی کو روکا جاسکتا تھا جو کچھ ہورہا ہے وہ کوئی حادثہ نہیں

یادرہے کہ اس سے قبل طالبان ملک کے زیادہ تر دیہی علاقوں پر کنٹرول رکھتے تھے ،لیکن غیرملکی افواج کے انخلاء کا مرحلہ شروع ہونے کے بعد ہرگزرتے دن کے ساتھ طالبان نے ملک کے بڑے اور اہم اضلاع کی جانب پیش قدمی تیز کردی ہے

تاہم چند ماہ قبل طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین ایک عالمی ادارے کے ساتھ گفتگو کے دوران دعویٰ کیا ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے اور شہر پر کسی بھی وقت مکمل قبضے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔لیکن ہم ان (حکومت )کے ردعمل کے منتظر ہیں ،ہم امن اور مصلحت چاہتے ہیں لیکن جب وہ ہم پر حملہ کرتے ہیں اور فضائی بمباری کرتے ہیں توہم اس کے جواب میں شہروں پر قبضہ کرلیتے ہیں ۔

اگر ان کی حکمت عملی فوجی اور طاقت ہے توہم اس کا ردعمل ضرور دیں گے ۔لیکن یہ ہماری نہ تو پالیسی ہے اور نہ حکمت عملی ۔بلکہ ہم پرامن طریقے سے افغانستان کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں

عبدالرشید دوستم ایک بارپھر میدان میں

افغان جہاد کےاور بعدازاں 90 کی دہارئی میں طالبان کے خلاف بھرپور مزاحمت اور ہزاروں جنگی قیدیوں کے قتل عام کے الزام کے حوالے سے شہرت پانے والے اہم کمانڈر رشید دوستم ترکی سے افغانستان واپس پہنچ چکے ہیں ۔اور اتوار کے روز انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے صدارتی محل میں ملاقات کی ہے
ملاقات کے بعد صدارتی محل سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ عبدالرشید دوستم نے صدر اشرف غنی کو سرکاری افواج کے ساتھ مل کر دشمن (طالبان )کے خلاف لڑنے کی یقین دہانی کروائی ہے