نعمان ملک
اس وقت پوری دنیا کے میڈیا کا اہم ترین موضوع طالبان کی افغان منظرنامے میں ایک پھر بار بھرپور واپسی ہے
2001 میں افغانستان پر امریکی جارحیت کے نتیجے میں چھ سالہ مختصر دور اقتدار کے خاتمے کے بعد انہیں دوبارہ اس مقام تک پہنچنے کیلئے 20 سال تک مسلسل اور خونریز جدوجہد کرنا پڑی ،جو گذشتہ سال طے پانے والے امریکی انخلاء کے معاہدے کے بعد منزل کے قریب ترین دکھائی دے رہی ہے
2001 میں جب 9/11 کے واقعہ کے بعد امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ افغان طالبان کے خلاف بدترین جارحیت کا آغاز کیا تو بظاہر طالبان حکومت تنکوں کی مانند بکھر کررہ گئی
لیکن آنے والے سالوں کے دوران پیش آنے والے واقعات سے ظاہر ہوا کہ ممکنہ طور پر طالبان قیادت نے اپنی قوت کو بچانے کیلئے منتشر ہو کر دشمن کو فتح کے نشے سے سرشار کردیا
اور غنیم نے چند ماہ میں بظاہر افغانستان پر قبضہ جمالیا
لیکن حقیقت میں یہی اس کی بھول ثابت ہوئی کیوں کہ طالبان کی گوریلا حکمت عملی نے اگلے بیس سالوں تک مسلسل حریف کو کہیں ٹک کر نہ بیٹھنے دیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ حریف کو میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹنا پڑا
اس عرصہ کے دوران اگرچہ طالبان کیلئے کئی مشکلات درپیش رہیں ،بھاری شہری و جانی مالی نقصانات ہوتے رہے ،بین الاقوامی سطح پر ان کا مقاطعہ رہا اور ان کے چند گنے چنے دوست ممالک نے بھی ان سے قطع تعلق کرلیا ۔
اگرچہ دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر 2013 میں قائم ہوا
لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی عالمی سیاسی منظر نامے میں واپسی کا عمل شروع ہوا ۔جب پہلی بار طالبان اور امریکہ کے مابین دو بدو مذاکرات کا آغاز ہوا
یہ بھی پڑھیں
- طالبان اورترکی معاملات کیا نہج اختیارکرسکتے ہیں؟
- افغانستان جہاں طالبان ،وارلارڈز اور جنگ کے سوا اور بھی دنیائیں آباد ہیں
- امریکہ نائن الیون سے پہلے طالبان حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا ،رپورٹ
- امریکی انخلاء جنوبی ایشیا کی سلامتی اورجمہوری افغانستان
جبکہ جوبائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد طالبان سے معاہدے کے بعد انہیں افغان معاملے کا فریق بھی تسلیم کرلیا گیا
یہ بلاشبہ طالبان کی عسکری کامیابی کے بعد ایک بڑی سیاسی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے کیوں کہ جن طالبان کا نام لینا بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا اب وہ عالمی میڈیا پر سرعام افغان طالبان کی ترجمانی کرتے نظر آنے لگے ہیں
امن معاہدہ اور تشدد کا جاری سلسلہ
اگرچہ دوحہ معاہدے کے تحت طالبان کی جانب سے افغانستان میں امریکی مفادات پر حملوں کا سلسلہ عملاً رک گیا ،لیکن دوسری جانب مغرب اور امریکہ کی حمایت یافتہ کابل انتظامیہ اور سرکاری فوج کے خلاف طالبان کی کاروائیوں میں ہرگزرتے دن کے ساتھ تیزی دیکھنے میں آئی ۔
اس وقت آزاد ذرائع کے مطابق افغانستان کے تقریباً 85 فیصد رقبے پر طالبان کی عملداری ہے ۔اور 20 سال میں امریکی و غیرملکی امداد کے سہارے کھڑی ہونے والی افغان فوج طالبان پیش قدمی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہورہی ہے
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کی کم و بیش پانچ عالمی سرحدی راہداریاں جن میں ازبکستان ،پاکستان ،تاجکستان اور ایران کیساتھ لگنے والی گزرگاہیں بھی طالبان کے زیرکنٹرول ہیں ۔جبکہ متعدد صوبائی مراکز کو وہ تھوڑے وقت کیلئے قبضہ میں لینے کے بعد ازخود خالی کرچکے ہیں جس کا واضح پیغام یہی ہے کہ وہ ان علاقوں پر بھی کسی بھی وقت باآسانی قبضہ کرسکتے ہیں
اگرچہ ہمسایہ ممالک اور دیگر عالمی طاقتوں کے دبائو پر طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کے چند ادوار ہوچکے ہیں ،لیکن عملا یہ مذاکراتی عمل بے ثمر ثابت ہورہے ہیں کیوں کہ برسرزمین حقائق جوں کے توں بلکہ بعض اوقات پہلے سے بدتر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں
طالبان کی تعداد کتنی ہے ؟
اگرچہ طالبان کی حقیقی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم بعض بین الاقوامی اداروں کے تخمینوں کے مطابق طالبان جنگجوئوں کی تعداد 85 ہزار کے قریب ہے جن کی مدد سے وہ افغانستان کے 4 سو سے اضلاع کو قابو کررہے ہیں ۔لیکن آزادانہ ذرائع سے ان دعوئوں کی تصدیق مشکل امر ہے
حال ہی میں امریکی جنرل مارک ملی نے اپنے ایک بیان میں کہا طالبان کا طرز عمل تذویراتی اعتماد کا اظہار ہے جو افغان حکومت اور افغان فوج کی ہمت و استعداد کا امتحان ہے
تازہ پیش رفت
باوجودیکہ طالبان قیادت کی جانب سے بارہا اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ ملک میں خونریزی اور خانہ جنگی نہیں چاہتے لیکن اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ گرتی لاشوں اور اندرون ملک مہاجروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے
جمعہ کے روز طالبان ترجمان سہیل شاہین نے ایک انٹرویو کے دوران کہا ہم خانہ جنگی نہیں چاہتے لیکن دوحہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے اشرف غنی کا عہدہ صدارت سے ہٹنا ضروری ہوچکاہے
ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں سہیل شاہین کا کہنا تھا ہم طاقت پر اجارہ پر یقین نہیں رکھتے،تمام فریقین کے مابین مذاکرات کی کامیابی کے بعد طالبان ہتھیار چھوڑ دینگے
چھ سالہ دور اقتدار
مہذب کہلائی جانے والی دنیا کو روز اول سے ہی طالبان کی طرز حکمرانی سے اختلاف رہا ،جو خواتین کیلئے سخت پردے کے حامی اور مروجہ تصور آزادی کے خلاف تھے ۔ان کے دور چھ سالہ دور اقتدار میں خواتین پر تعلیم اور روزگار کے دورازے بند ہوئے اور ملک پر سخت گیر شرعی قوانین کا نفاذ ہوا ،موسیقی اور ٹیلی ویژن پر پابندی عائد ہوئی ،اقلیتوں کیساتھ امتیازی سلوک کا الزام عائد ہو جس سے دنیا کے دیگر ممالک کی ان کے بارے میں منفی رائے قائم ہوئی
دہشت گردی کی معاونت کا الزام اور پابندیاں
اگرچہ مغربی دنیا میں طالبان کے خلاف ایک مخصوص سوچ روز اول سے پل رہی تھی لیکن اس دوران مسلم دنیا اور بالخصوص عرب دنیا میں اسامہ بن لادن کی سربراہی میں قائم ہونے والی بین الاقوامی تنظیم القاعدہ کو امریکی و مغربی مفادات کیلئے سب سے بڑا خطرہ بنا کرپیش کیا گیا ۔
امریکی دبائو پر اسامہ بن لادن سوڈان سے افغانستان منتقل ہوگئے ،جہاں ان کے طالبان قیادت کے ساتھ انتہائی قریبی اور دوستانہ مراسم قائم ہوگئے
اس دوران دنیا میں ہونے والے دہشت گردی کے مختلف واقعات کو القاعدہ کیساتھ جوڑا گیا ،اور 1999 میں اقوام متحدہ نے القاعدہ سے روابط رکھنے کے الزام میں طالبان پر پابندیاں عائد کردیں
9/11 کا واقعہ طالبان اور مغربی اتحادیوں کے مابین ضبط کی آخری گرہ بھی توڑ گیا
اور جب طالبان حکومت نے القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تو اکتوبر 2001 میں امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کردیا
بے سروسامانی اور فرسودہ ٹیکنالوجی سے لیس طالبان حکومت چند ماہ میں تحلیل ہو گئی
امریکی اتحاد نے چند ماہ میں ہی کابل اور پورے ملک پر اپنی عملداری قائم کرتے ہوئے نئی سیاسی بساط بچھائی اور کابل میں نئے مہرے بٹھا دیئے
حامد کرزئی کی قیادت میں بننے والی افغان حکومت نے کئی سیاسی اصلاحات کیں
لیکن 2006 کے بعد طالبان نے اپنی بکھری طاقت کو ایک بار پھر مجتمع کرنا شروع کردیا اور بتدریج اپنا دائرہ کار اور دائرہ اثر بڑھانا شروع کردیا
جس کے نتیجے میں اگلے بیس سالوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ طالبان کی قوت اور مدافعت میں اضافہ ہوتا گیا
ایک طرف طالبان کی بڑھتی طاقت تھی تو دوسری جانب اتحادیوں کا شدید ردعمل تھا
اگرچہ جنگ کے حتمی فاتح کا تاحال تعین نہیں ہوسکا لیکن بیس سال سے جاری اس کشمکش میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور گنتی ابھی جاری ہے
جبکہ انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ اس کے سوا ہے ۔امریکی دعوئوں کے مطابق افغانستان کی تعمیر و تخریب پر 1 کھرب ڈالر سے زائد خرچ ہوئے لیکن ملک اب بھی بربادی ،تباہی اور افلاس کا عملی نمونہ پیش کررہا ہے
طالبان کی پس پردہ موجودگی برقرار رہی
اگرچہ طالبان حکومت امریکی قیادت میں حملے کے چند ماہ بعد ہی تحلیل ہوچکی تھی ،لیکن شکست کے بعد طالبان نے متوازی اور پس پردہ نظام قائم رکھا
جس کے تحت ان کا عدالتی و معاشی نظام بدستور برقرار اور وہ موثر انداز میں اپنی حکومت کیلئے محصولات حاصل کرتے رہے جس کے نتیجے میں انہیں اپنے امور کی انجام دہی میں کبھی مشکلات کا سامنا نہیں رہا