کمال احمد
طالبان نے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعدترکی کے افغانستان میں موجودگی کے فیصلے کو ناقابل قبول قراردیا ہے
انقرہ کی جانب سے کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کیلئے فوجی دستوں کی تعیناتی کے اعلان کو طالبان نے ایک غلط فیصلہ قرار دیتے ہوئے اپنے ملک کی سلامتی اور بین الاقوامی مفادات کے خلاف قرار دیا ہے
طالبان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ 2020 کے معاہدے کے مطابق ترکی کو بھی اپنی فوج کو افغانستان سے نکالنا ہوگا
9 جولائی کو ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا تھا کہ کابل سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد کابل ایئر پورٹ کی حفاظت کے لئے ترک فوجی دستے تعینات کرنے کے حوالے معاملات طے پا چکے ہیں
یہ بھی پڑھیں
- افغانستان جہاں طالبان ،وارلارڈز اور جنگ کے سوا اور بھی دنیائیں آباد ہیں
- افغانستان کی 5 سرحدی کراسنگ طالبان کے زیر قبضہ ،دو ہفتوں میںپورے ملک پر غلبے کا دعویٰ
- الوداع …….افغانستان کو فوج سے فتح نہیںکرسکتے ،جوبائیڈن
- امریکہ نائن الیون سے پہلے طالبان حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا ،رپورٹ
اور انہوں نے اسے انقرہ اور نیویارک کے مابین بہتر ہوتے تعلقات سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ترک اور امریکی وزاراء دفاع کے مابین مذاکرات کے دوران معاملات طے کئے جا چکے ہیں،جبکہ امریکہ نے بھی ترکی کی جانب سے کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کے حوالے سے واضح موقف اپنانے کی تعریف کی ۔
معاہدے کے مطابق ترک فوج کو بھی افغانستان چھوڑنا ہوگا
کیوں کہ انخلاء کے بعد امریکی اور ناٹو اتحاد مغربی سفارتکاروں کے افغانستان سے رابطہ کے واحد ذریعے یعنی حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو محفوظ رکھنے کے خواہش مند ہیں
ترکی 2001 سے افغانستان میں امریکی اتحاد کا اہم اتحادی ہے جس نے افغانستان میں کئی سو فوجی تعینات کئے رکھے اور امریکی انخلاء کے بعد بھی متحرک کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے
تاہم طالبان نے ترکی کے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے
یاد رہے کہ دو روز قبل افغان طالبان کے ترجمان اور مذاکرات کار سہیل شاہین نے نجی ٹی وی جیو نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں واضح کیا تھا کہ افغان عوام کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ مذہبی ،سیاسی اور تجارتی تعلقات ہیں
اور حالیہ امن عمل میں وہ پاکستان کی کاوشوں کی تعریف کرتے ہیں لیکن امن عمل میں وہ پاکستان کی ہدایات کو قبول نہیں کرینگے
پاکستان کے مشورے کا خیرمقدم ،کوئی مرضی مسلط نہیں کرسکتا :سہیل شاہین کاپاکستانی ٹی وی چینل کو انٹرویو
سہیل شاہین نے انٹرویو میں کہا پاکستان ایک مسلمان اور ہمسایہ ملک ہے ،ہماری اقدار ،ثقافت اور تاریخ یکساں ہے ،امن عمل میں ہم پاکستان کے مشورے کی قدر کریں گے لیکن ہم پر کوئی اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا
یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے ،تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں طالبان ترجمان نے کہا ہماری واضح پالیسی ہے کہ ہم کسی کو اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے
واضح رہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی اور زیر اثر ہونے کا الزام تسلسل کیساتھ عائد کیا جاتا رہا ہے جس کی پاکستان نے ہمیشہ تردید کی
تاہم دوحہ مذاکرات کی کامیابی اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لان کیلئے پاکستان کی جانب سے کوششوں کو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے تسلیم کیا گیا۔